وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کی مبینہ سازش کے الزام میں مولانا فضل الرحمن کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا عندیہ دیکر جہاں بحر سیاست میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے‘وہاں ان کی اسی پیش دستی نے مولانا فضل الرحمن کی دم توڑتی سیاست کو بھی نئی زندگی عطا کر دی ہے۔اب کچھ مدت کیلئے پارلیمنٹ سے لیکر قومی دھارے کے میڈیا میں مولانا فضل الرحمن کے تذکرے اوریہی موضوع زیر بحث رہے گا۔آرٹیکل چھ کے تحت ممکنہ کارروائی کا مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن کی لیڈرشپ پہ تو کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا؛ البتہ ایسی کارروائی عوامی ہمدردی کے علاوہ ان کی مقبولیت میں اضافہ کا وسیلہ بنے گی‘ جبکہ وفاقی گورنمنٹ کی اس خطرناک چال کا بالواسطہ ہدف پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی بن سکتے ہیں‘جنہوں نے حال ہی میں صوبائی حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دے کر اپنی بات منوائی۔
چند روز قبل مولانا فضل الرحمن نے لاہور میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے جب چوہدری پرویز الٰہی سے دھرنا ختم کرانے کی خاطر کئے گئے وعدوں پہ عملدرآمد یا پھر اس راز کو طشت ازبام کرنے کا جو مطالبہ کیا ‘وہ کوئی نئی بات نہیں تھی‘ بلکہ اس''حقیقت‘‘ کا انکشاف‘ انہوں نے دھرنا ختم کرتے وقت بھی اپنے کارکنان سے آخری خطاب میں کر دیا تھا‘بعدازاں چوہدری پرویزالٰہی نے خود بھی ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنا کی کامیابی اور انہیں کرائی گئی یقین دہانیوں کا برملا تذکرہ کیا‘تاہم آج سے دو ڈھائی ماہ قبل جب مولانا فضل الرحمن نے چوہدری برادران کا نام لیکر دھرنا ختم کرانے کے بدلے جنوری میں پی ٹی آئی گورنمنٹ کے خاتمہ اور مارچ میں نئے الیکشن کرانے کا وعدوں اور بصورت ِدیگر قاف لیگ کے پی ٹی آئی سے اتحاد ختم کرنے کی یقین دہانیوں کو منکشف کیا‘ تو اتحادیوں کے دباؤ میں آ کے پرویز الٰہی نے مولاناصاحب سے مبینہ عہد وپیماں کی تردید کر دی‘جس کے بعد مولانا اور ان کی جماعت کے رہنماؤں نے اخباری بیانات اور ٹاک شوز میں تواتر کے ساتھ اس خفیہ ڈیل پہ اصرار کیا‘اسی تکرار کے دوران فریقین میں کچھ تلخیاں بھی پیدا ہوئیں‘ لیکن پھر اچانک فریقین خاموش ہو گئے۔
اُس وقت میڈیا سمیت کسی نے ان بیانات کو خاص رنگ دینے کی کوشش نہ کی ‘ کیونکہ ایسی جوڑ توڑ ہماری سیاسی روایات کا جزو اور معروف سیاسی جدوجہدسمجھی جاتی ہے؛بلاشبہ منتخب حکومتوں کو گرانا کوئی پسندیدہ عمل نہیں‘ لیکن کیا کیجئے بے وفا تقدیر ہمیں ایسے واقعات روز دکھاتی رہی۔اب سوال یہ ہے کہ یکا یک وزیراعظم عمران خان کو اپنی حکومت کیخلاف مبینہ سازشوں کا نوٹس لینے کا خیال کیوں آیا؟بظاہر تو یہی نظر آتا ہے کہ پچھلے دنوں قاف لیگ نے پنجاب گورنمنٹ سے علیحدگی کی دھمکی دیکر پی ٹی آئی کی قیادت کو جس طرح چاروں شانے چت کیا‘اس کے بعد پنجاب کے چوہدریوں کو حدود میں رکھنا ناگزیر ہو گیا تھا؛ چنانچہ انہی کو زیردام لانے کیلئے اس سے اچھی سکیم اور کوئی نہیں ہو سکتی تھی۔وزیر اعظم عمران خان سمیت اس کے رفقاء جانتے ہوں گے‘دھرنا کے دوران مولانا فضل الرحمن کے مذاکرات کن قوتوں کے ساتھ ہوئے اور اس میں چوہدریوں کاکردارکتنا تھا؟یہ بھی عین ممکن ہے کہ حکومت کے ماتحت کام کرنے والے سول خفیہ ایجنسی کے پاس کئی دن تک جاری رہنے والے ان مذاکرات کا آڈیو‘ویڈیو ریکارڈ بھی موجود ہو۔اس لیے پہلے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری اوراب وزیراعظم عمران خان کی طرف سے مولانا فضل الرحمن کیخلاف حکومت گرانے کی سازش کے الزام میں آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کی خواہش کا اظہار‘ دراصل اُن سیاست دانوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہو گی‘ جو فی الوقت شریک اقتدار ہونے کے باوجود کئی اپوزیشن جماعتوں اور مقتدرہ کے درمیان رابطہ کاری میں مشغول ہیں‘اگر مولانا کے خلاف کارروائی آگے بڑھی تو دھرنا کے دوران خفیہ مذاکرات کے ضامن اور سہولت کار ہونے کے ناتے چوہدری برادران بھی لپیٹ میں آ سکتے ہیں‘جس سے چوہدریوں پر دو طرفہ دباو ٔبڑھتا جائے گا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست کے ماہر گجرات کے چوہدریوں نے ہمیشہ پاور پالیٹکس کی بساط پہ کئی بار ایسی ہوشربا چالیں چلیں‘جس سے مقتدرہ کے علاوہ وہ بھی فائدہ اٹھاتے رہے۔2002ء میں 17ویں ترمیم کی منظوری کے دوران قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن نے وردی اتارنے کی شرط عائد کر کے جب جنرل مشرف کو دیوار سے لگایا‘اس وقت بھی چوہدری برادران نے ضمانتیں دیکرایم ایم اے کی قیادت سے ایک سال بعد وردی اتارنے کی مہلت منوا لی تھی‘اس لیے 17ویں ترمیم جیسی تاریخی دستاویز پہ قاضی حسین احمد اور مولانا صاحب نے چوہدری پرویز الٰہی کے گھر میں بیٹھ کے دستخط کئے‘ لیکن بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے جنرل مشرف کو دس سال تک وردی میں صدر منتخب کرانے کے اعلانات کرکے مذہبی قیادت کے اعتماد کو متزلزل کر دیا تھا۔تاریخ کی جبریت دیکھئے کہ آج ایک بار پھر حکومت کے خلاف دھرنا ختم کرانے کی خاطر گجرات کے چوہدریوں کو بروکار لایا گیا اور مولانا فضل الرحمن جیسا زیرک سیاستدان پھر اُسی پرویز الٰہی کی ضمانت پہ بھروسہ کرکے پوری متاع سیاست دائو پہ لگا بیٹھا‘جس نے 2002ء میں انہیں سبق پڑھایا تھا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ چوہدری ‘جنوری میں پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ اور مارچ میں نئے الیکشن کی مبینہ یقین دہانیوں پہ عمل درآمد کرا سکتے ہیں‘ نہ وہ خود پنجاب گورنمنٹ سے الگ ہو کے مولانا کو اپنے اخلاص کا یقین دلانے کی جرأت کریں گے؛البتہ اب کی بار شاید چوہدریوں کیلئے ایسی چالوں کو ہضم کرنا مشکل ہو جائے گا۔مولانا فضل الرحمن ان کا تعاقب جاری رکھیں گے اور ان کی اتحادی حکمران جماعت بھی دو دھاری تلوار کی مانند‘ اسی پیش دستی کو استعمال کر کے انہیں دباؤ میں رکھنے سے اجتناب نہیں کرے گی۔ابھی حال ہی میں چوہدری برادران نے مزاحمت کر کے پنجاب کے معاملات میں جس طرح وزیراعظم ہاؤس کی مداخلت کی راہ روکی ‘اس نے وزیر اعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کی بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیاہے۔
بہرحال ان ساری سیاسی لن ترانیوں سے قطع نظر‘مولانا فضل الرحمن ان دنوں آبائی شہر ڈیرہ اسماعیل خان آئے تو پارٹی کارکنان سے اپنے روابط کو تازہ کرنے کے علاوہ ذاتی دوستوں سے دل کی باتیں کہہ ڈالیں‘ ایسی ہی ایک تفصیلی ملاقات میں دھرنا کی ناکامی کے بعد مولانا کی نفسیات پہ پڑنے والے اثرات اور ان کے بدلتے ہوئے سیاسی رویوں کوسمجھنے کا موقعہ ملا۔میرے محتاط اندازے کے مطابق ‘مولانا فضل الرحمن اب‘ پاور پالیٹکس کی سرگرانی سے آگے نکل کے مملکت کے تحفظ اور سیاسی و سماجی اصلاحات کیلئے مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اب ‘وہ اقتدار کی سیاست سے جڑی مجبوریوں اور الیکشن جیتنے کے تقاضوں کے قلادے اُتار کے ریاست کے اساسی نظریہ کی بحالی اور بنیادی اصلاحات کیلئے ہمہ گیرجدوجہدکا ارادہ رکھتے ہیں‘ اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ رائٹ اور لفٹ کی تفریق سے بالاتر ہو کے وسیع تناظر میں انسانی دکھوں کے مداوا‘بنیادی انسانی حقوق وسیاسی آزادیوں کی بحالی کے ذریعے زندگی کے اجتماعی دھارے کو ہموار بنانے کی تگ و دو میں جماعتی صلاحیتوں کو کھپانا چاہتے ہیں۔
لاریب! مولانا فضل الرحمن قادر الکلام مقرر اورجید عالم دین ہونے کے علاوہ قرآن پاک کی ساتوں قرأت میں تلاوت کرنے والے خوش الحان قاری بھی ہیں‘ مگر افسوس کہ اقتدار کی سیاست نے ان کی عبقری صلاحیتوں کو داغدار بنا کے انہیں سیاست کا متنازع کردار بنا دیا گیا ہے؛بلاشبہ روح کی رفعت اس وقت خواری میں غرق ہو جائے گی‘جب انسان فانی اور ناپائیدار دلچسپیوں کی لذتوں میں کھو کر اپنی لافانی قوتوں کی نشو ونما کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔