نعیم الحق سے تیس دسمبر کو ہونے والی ملاقات آخری ثابت ہوئی‘ اس دوران کئی بار اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا‘ لیکن یہ آنا جانا بس ایسا تھا کہ صبح گئے اور پھر رات واپس لاہور آگئے‘ تاہم تیس دسمبر کو پکا ارادہ کیا کہ نعیم الحق صاحب سے ملے بغیرواپس نہیں جانا اور اس دن کچھ دیر مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا ‘جو وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کیلئے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے‘ ان سے اپنے قصبہ کھڈیاں کیلئے خواتین اور بچوں کے ہسپتال پر بات چیت کرنے کے بعد سیدھے نعیم الحق مرحوم( ان کو مرحوم لکھتے ہوئے دل بھر آیا ہے) کی عیادت کیلئے منسٹرز انکلیو میں ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ کمال مہربانی سے انہوں نے اپنی خواب گاہ میں ہی بلا لیا‘ جہاں وہ کینسر جیسے موذی مرض سے نڈھال بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔شاید وہ جانتے تھے کہ میں وزیر اعظم ہائوس سے خالی پیٹ ہی آ رہا ہوں‘ اس لئے انہوں نے کھانے کی دعوت دیتے ہوئے اپنے خانسامے کو ساگ اور مکئی کی روٹی لانے کو کہا۔انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے ہمسائے سومرو صاحب کے گھر سے آیا ہوا سندھ کا روایتی ساگ ہے۔
ہم کوئی ایک گھنٹہ ان کے پاس بیٹھے رہے اور ان کا دل ادھرادھر کی باتوں سے بہلاتے رہے ۔گفتگو کے دوران انہوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا اور کہنے لگے ؛بلوچ صاحب! میں نعیم الحق ہوں اورمیں جانتا ہوں کہ اب چند ہفتوں یا دنوں کا مہمان ہوں۔ مجھے اپنی موت کا کوئی افسوس نہیں‘ کیونکہ موت تو سب کو آنی ہے‘ چاہے کوئی بھی ہو‘ اگر میں اداس نظر آتا ہوں یا آپ کو میرے چہرے پر کوئی اداسی یا پریشانی کے آثار کبھی کبھی دکھائی دیتے ہیں ‘تو وہ صرف یہ سوچ کر کہ اس وقت وزیر اعظم عمران خان کو میری پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور میں ان کے پاس سے جانے والاہوں ‘میری صحت اور جسمانی حالت مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں کچھ دیر ان کے ساتھ کہیں تک ساتھ چل سکوں‘ لیکن پھر بھی آج کوشش کر کے میں ان کے پاس جا رہا ہوں‘ کیونکہ مجھے ان سے کچھ دل کی باتیں کرنی ہیں‘میں کچھ ان کی باتیںسنوں گا اورکچھ آپ جیسے لوگوں کی باتیں سنائوں گا‘ کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ وہ لوگ جن کی کبھی عمران خان تک رسائی عام تھی‘ آج یا بیوروکریسی سمیت سکیورٹی کے حصار میں لپٹے ہوئے وزیر اعظم عمران خان تک ان کا پہنچنا مشکل ہو چکا ‘ لیکن سچ جانیے کہ لوگوں کو وزیر اعظم عمران خان کو اس حصار کے دوسری جانب کے عمران خان کو بھی دیکھناہو گا۔ یہ اقتدار تو عارضی ہوتا ہے اور ہمارا دوست اور لیڈر جو کہ اس ملک کا ہیرو ہے اور ہیرو کی طرح لوگوں میں چاہا جاتا ہے‘ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے اس پیارے دوست سے اس کا وہ ہیرو والا مقام و مرتبہ چھن نہ جائے ۔
الغرض تیس دسمبر کی اس سہ پہر جب نعیم الحق کے گھر کے تیار کئے ہوئے قیمہ پیاز اور محمد میاں سومرو کے گھر سے بھیجے گئے سندھی ساگ سے لطف اندوز ہونے کے بعد انتہائی بوجھل دل سے ان کی شفیق مسکراہٹ اور دو سال تک کینسر جیسے مرض سے جنگ کرنے کے بعد تھکے ہوئے نڈھال کمزور اور ناتواں ہاتھوں کی کمزوری محسوس کرتے ہوئے ہم واپس آ رہے تھے‘ تو دل بہت اداس تھا اور دل چاہتا تھا کہ ان کے پاس کچھ اور دیر بیٹھا جائے ‘ان کی باتیں سنی جائیں‘ لیکن مجبوری یہ تھی کہ چیئر پرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام محترمہ ثانیہ نشتر سے ان کے دفتر میں ملاقات طے تھی اور سرکاری دفاتر اور ان کے طریقہ کار سے واقف ہونے کی وجہ سے وقت پر پہنچنا از حدضروری تھا۔
زندگی میں نعیم الحق سے بہت سے لوگوں کو شکوے شکایات ہو سکتی ہیں‘ ان کے سیاسی خیالات اور نظریات سے اختلاف کرنے والے ہزاروں لوگ ہوں گے‘ بلکہ تحریک انصاف کے اندر سے بھی کئی ایسے شریف لوگ دیکھے ہیں‘ جو ان سے بغیر کسی وجہ سے اس لئے بھی حسد کرتے تھے کہ وہ بنی گالا میں( بعد میں وزیر اعظم ہائوس ) ان کو عمران خان کے ساتھ مسکراتا دیکھتے‘ لیکن باہر نکل کر ان کے ماتھے کی تیوریاں اس قدر گہری ہوجاتیں اور صاف ظاہر ہورہا ہوتا تھا کہ ان کے اندر نہ جانے کس قدر غصہ بھرا ہوا ہے۔وزیر اعظم عمران خان سے قربت ایک دوسرے پر اندھا اعتماد اور عمران خان کی مرضی اور اجازت سے ملک کے کچھ سیا سی اور غیر سیاسی اہم اداروں کی ذمہ داریاں‘ انہیں ایسے ہی تو نہیں سونپی گئی تھیں۔
چند دن ہوئے ایک تجزیہ نگار نے ڈاکٹر شہباز گل کے حوالے سے کہا ہے کہ ' ' نعیم الحق نے عمران خان سے ہونے والی اپنی آخری ملاقات میں ان سے درخواست کی تھی کہ ڈاکٹر شہباز گل کو معافی دے دیں‘‘ ۔یہ بالکل جھوٹ ہے اور میں اس بات کا گواہ ہونے کی وجہ سے اس بات کی سختی سے تردید کرتا ہوں اور یہ سب اس لئے لکھ رہا ہوں کہ ایک اچھا انسان اور دوست جب اس دنیا میں نہیں رہا تو اس کے نام کا حوالہ دیتے ہوئے کسی دوسرے شخص کی دل شکنی منا سب عمل نہیں‘ کیونکہ ہمیشہ سچ کے ساتھ چلنا چاہیے اورسچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ اس لیے وزیر اعظم ہائوس کے لان میں ہونے والے ایک میٹنگ ‘جس میں وفاقی وزرا؛ اسد عمر‘ شہزاد اکبر‘ ڈاکر معید یوسف‘ مراد سعید‘ شفقت محموداور ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی موجودتھے‘ وزیر اعظم عمران خان نے ڈاکٹر شہباز گل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب انہوں نے پنجاب سے استعفیٰ دیا تو میرے ایک قریبی عزیز جو آج کل نواز لیگ کیمپ کے ایک اہم رکن ہیں‘ شہباز گل کو میاں نواز شریف کے پاس لے جانے کیلئے اصرار کرنے لگے‘ لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ وہ امریکہ سے صرف عمران خان کو سپورٹ کرنے کیلئے چالیس لاکھ سے زائد کی نوکری چھوڑ کر آئے ہیں اور اگر میں نے کبھی ایسا سوچا بھی تو میری فیملی مجھے سب سے پہلے چھوڑ دے گی‘ کیونکہ انہوں نے تو صرف وزیر اعظم عمران خان کیلئے مجھے دو ڈھائی سال کے لیے‘ امریکی یونیورسٹی کے استاد کی حیثیت سے ملازمت چھوڑ کر پاکستان آنے کی اجا زت دی ہوئی ہے۔
ہر انسان نے ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے اور اپنے ساتھ سوائے اپنے اعمالات کے اور کچھ ساتھ لے کر نہیں جانا ہے۔ ہم سب نعیم الحق صاحب کی طرح نہ جانے کتنے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے قبر میں اترتا دیکھتے چلے آ رہے ہیں‘ لیکن اچھا وہی رہتا ہے‘ جس نے اس دنیا میں اچھے کام کئے ہوتے ہیں‘ کسی پر جھوٹ اور تہمت نہیں لگائی ہو تی‘ کسی کوناحق تنگ نہیں کیا ہو تا‘ جس نے غریب اور یتیم کا خیال رکھا ہو تا ہے‘ جس نے بھوکے اور ضرورت مند کو اپنی ضرورتیں کم کر کے کھانا کھلایا ہو تا ہے‘ جس نے لاچار اور بے کس بیمار کیلئے علاج او رخوراک کا خیال رکھا ہو تا ہے ۔ ملک بھر میں بڑھنے والی مہنگائی کی خبریں جب ٹی وی پر چلنا شروع ہوئیں تو نعیم الحق کو میں نے سخت پریشان ہوتے دیکھا‘ ہسپتال کے بستر پر کینسر جیسے مرض کے علاج کیلئے داخل اس انسان نے بار بار وزیر اعظم عمران خان کو فون کرتے ہوئے بہت سے مفید مشورے دیئے اور صرف ایک بات پر زور دیئے رکھا کہ '' عمران تمہیں اس قوم نے اپنا ہیرو مانا ہے اس اعزا ز کو ہمیشہ قائم رکھنا‘‘۔نعیم الحق کہتے تھے کہ اگر میری ذات بھی عمران خان اور عوام کے درمیان کبھی حائل ہو جائے تو میرا لحاظ کئے بغیر مجھے اپنے پاس سے اٹھا دینا۔
نعیم الحق--- آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!