تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     18-02-2020

سرخیاں‘متن‘ درستی اور عامرؔ سہیل کی غزل

عمران خان کے پیارے راج دلارے‘ 
باقی سب بیچارے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے پیارے راج دلارے‘ باقی سب بیچارے ہیں‘‘ جن میں خاکسار بطور خاص شامل ہے ؛اگرچہ اس سے پہلے بھی یہ بیچارہ مکمل طور پر بے چارہ ہی چلا آ رہا تھا‘ جو کہ بلاناغہ تقریروں نے مزید بیچارہ کر دیاہے‘ لیکن تقریر کا ناغہ بھی نہیں کر سکتا ‘کیونکہ جس دن تقریر نہ کرنے کا ارادہ بھی کروں تو پیٹ میں گڑ گڑ سی ہونے لگتی ہیں اور میں بیان بازی کا کام سنبھال لیتا ہوں اور حکومت کے پیاروں راج دلاروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتا رہتا ہوں اور دیکھتے دیکھتے ہی تقریر شروع ہو جاتی ہے‘ بلکہ اکثر اوقات تو یہ اپنے آپ ہی شروع ہو جاتی ہے‘ جس میں میرے ادارے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ گویا دیگر اشیا کی طرح میری تقریر بھی آٹومیٹک ہو گئی ہے ؛ حالانکہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی آٹو میٹک طریقے سے نکلنا چاہیے‘ جس کی آرزو میں ضعیف العمر ہوتا چلا جا رہا ہوں۔ آپ اگلے روز جعفر آباد میں ایک استقبالیے کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران مافیا کو شریف گروپ کے دفاتر
سے کچھ نہیں ملا: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران مافیا کو شریف گروپ کے دفاتر سے کچھ نہیں ملا‘‘ کیونکہ یہ گروپ کوئی کچی گولیاں کھیلا ہوا نہیں ہے‘ جبکہ مجھے اس محاورے پر بھی سخت اعتراض ہے‘ کیونکہ کچھ گولیوں سے تو کھیلا ہی نہیں جا سکتا اور کانچ کے بنٹوں سے کھیلا جا سکتا ہے‘ جبکہ اس سے شریف گروپ کی ہتک کا بھی پہلو نکلتا ہے؛ اگرچہ وہ جس فنکاری سے کام کرتے ہیں‘ ان کے لیے کچھ گولیوں سے کھیلنا بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے‘ بلکہ وہ تو لوہے کی گولیوں سے بھی کھیلتے رہے ہیں‘ کیونکہ ان کی سٹیل مل لوہے کی گولیاں بھی تیار کرتی تھی‘ جس پر اب حکومت نے کئی طرح کے اداروں کے ذریعہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے ‘کیونکہ حکومت کوئی بھی وصولی نہ ہونے پر اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
عوام کی خدمت میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرینگے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''ہم عوام کی خدمت میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرینگے‘‘ کیونکہ یہ اپنے آپ ہی ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے‘ کیونکہ پولیس اور محکمہ مال کے تبادلوں اور ٹرانسفروں کا کام ہی اتنا ہے کہ ہمیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملتی اور سرکھجانے کے لیے علیحدہ آدمی رکھنے پڑے ہیں‘ لیکن چونکہ ان کا خرچہ بھی بہت زیادہ ہے‘ اس لیے جوں گولی استعمال کرنے کی سوچ رہے ہیں‘ تاکہ جوؤں کو کان پر رینگنے کا بھی موقعہ نہ ملے‘ جبکہ کان کھجانے کے لیے علیحدہ آدمی نہ رکھنا پڑے‘ نیز ادھر وزیراعظم عمران خان کا تنخواہ میں گزارہ نہیں ہو رہا ہے اور ان کی اے ٹی ایم مشینوں پر دباؤ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے‘ جس کے لیے انہیں ہلکی پھلکی درآمد برآمد کی رعایت دینی پڑتی ہے کہ اللہ کارساز ہے۔ آپ اگلے روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ملاقات کر رہے تھے۔
درستی
سعد اللہ شاہ نے کالم میں ظفرؔ علی خاں کاشعر اس طرح درج کیا ہے ؎
وہ فن میں ملک کے اندر یگانہ تھا
یکتائے روزگار‘ وحیدِ زمانہ تھا
میری نظر میں اس کا پہلا مصرعہ ایک لفظ چھوٹ جانے سے بے وزن ہو گیا ہے‘ جو اس طرح ہوگا: ع
وہ فن میں اپنے ملک کے اندر یگانہ تھا
یا
وہ فن میں پورے ملک کے اندر یگانہ تھا
میم سین بٹ نے مقصود وفا کا ایک مصرعہ اس طرح نقل کیا ہے: ع
سب کو میں نے سر پر اٹھایا ہوا ہے
جو محض الفاظ کی ترتیب بدلنے سے بے وزن ہو گیا ہے ع
سب کو میں نے ہے سر پر اٹھایا ہوا
اور اب آخر میں عامر ؔسہیل کی یہ تازہ غزل:
آنکھ غلط بخشی سے بھیگی‘ ساون کے محتاج ہوئے
پورا ہجر بدن پر ٹوٹا‘ پلک پلک تاراج ہوئے
جب تتلی کو پنکھ ملے اک پھول نہیں تھا کالر پر
بار لہو پر‘ بار لہو پر بندِ قبا کولاج ہوئے
اک اک پتھر دُور سے دیکھ کے ہنستا فقرے کستا تھا
آج تمہاری گلیوں میں یہ رائج کون رواج ہوئے
جیسے سب کچھ لُٹ جانے کا دھڑکا ہونٹ پہ لکھا ہو
تم کو اس حالت میں دیکھ کے اور پریشاں آج ہوئے
میں امراء القیس یہاں کا‘ لکھتے ہاتھ گواہی دے
شہر میں اک منصور نہیں ہے بس کیوں حلاج ہوئے
دمٹری پر بھی‘ چمڑی پر بھی اُس کے نام کی مُہر نہیں
اُدھڑے سینے‘ اُکھڑے زینے بے منظرکو لاج ہوئے
باتوں کی تیزابی بارش‘ کچے ہونٹ زبوروں کے
فجر کے ریشم جیسے لہجے عامرؔ تند مزاج ہوئے
اتنا یاد ہے بیماروں کو اپنا حال بھی یاد نہ تھا
کون شفاخانوں میں بکھرے سچ مُچ کون علاج ہوئے
آج کا مقطع
عبور کر کے ہی اِس کو بتا سکوں گا‘ ظفرؔ
ابھی یہ کہہ نہیں سکتا ہوں کیا رکاوٹ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved