تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     18-02-2020

کچھ کائنات کے بارے میں

ہم سکول میں تھے‘ جب پہلی بار ستارے اور سیارے کی تعریف پڑھی : سیارہ حرکت کرتا ہے ‘ جب کہ ستارہ ساکن رہتا ہے ۔ ہماری زمین ایک سیارہ ہے اور ہمارا سورج ایک ستارا۔ ابھی کالج تک نہ پہنچے تھے کہ یہ تعریف غلط ثابت ہو گئی ۔ معلوم ہوا کہ ستارا بھی حرکت کرتا ہے اور ستاروں کا ایک پورا شہر ‘ جسے کہکشاں کہتے ہیں‘ وہ بھی حرکت میں رہتا ہے ۔
ایک زمین یا سیارہ اپنے ستارے یا سورج کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ سورج نا صرف ایٹمی ری ایکشنز سے توانائی پیدا کرتے ہیں ‘بلکہ انہی ستاروں کی پیدائش کے بعد بچے کھچے مادے ہی سے تورفتہ رفتہ سیارے جنم لیتے ہیں ۔ستاروں میں ہونے والے ایٹمی ری ایکشنز سے جو توانائی پیدا ہوتی ہے ‘ وہ زمین پر جنم لینے والی زندگی کو زندہ رہنے میں بنیادی مدد فراہم کرتی ہے ۔اسی سے پودے خوراک اور آکسیجن پیدا کرتے ہیں ۔ ساری فوڈ چینز انہی کے گرد گھوم رہی ہیں ۔ 
یہاں میں ایک بنیادی وضاحت کر تا چلوں ۔ ہمارا سورج بھی دراصل ایک ستارا ہے‘ لیکن چونکہ یہ بے حد قریب ہے اور چونکہ ہم اس کے گرد گردش کر رہے ہیں ‘ چونکہ یہ ہمیں بے حد بڑا دکھائی دیتا ہے ‘چونکہ ہماری زندگی اس پر منحصر ہے ‘ اس لیے اسے سورج کا نام اور ایک خصوصی مقام دیاگیا ہے ۔ اسی طرح آسمان پہ نظر آنے والا ہر ستارا اپنی ذات میں ایک مکمل سورج ہے ۔ ان میں سے اکثر ستاروں کے گرد چھوٹے چھوٹے سیارے محوِ گردش ہیں ۔ 
توانائی زندگی کی اوّلین شرط ہے ۔ سورجوں کی صورت کائناتی بھٹیوں میں پیداہونے والی توانائی ۔ نا صرف وہ زمینوں کو مناسب درجہ ٔ حرارت فراہم کرتی ہے‘ بلکہ اسی کے ذریعے قدرت کا ان دیکھا ہاتھ تخلیق کرتاہے ۔ جی ہاں! پودے سورج کی اسی روشنی میں موجود قوت کو توانائی کی ایسی شکل میں بدل دیتے ہیں ‘ جو ان کو اور ہمیں ‘ کرّہ ٔ ارض کے جانوروں کو غذا فراہم کرتی ہے ۔ گندم اور چاول سمیت دنیا میں جتنے بھی پودے اور فصلیں ہیں ‘ سب اسی عمل سے ہمارے لیے خوراک پیدا کرتے ہیں ۔یہی نہیں ‘اگر آپ جان سکیں کہ اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والا فاضل مادہ (Waste Product)کیا ہے تو حیرت سے آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ جی ہاں! یہ آکسیجن ہے ‘ جس کی عدم موجودگی میں آپ چند منٹ سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔پودے جب فوٹو سینتھسز سے خوراک پیدا کرتے ہیں تو اس دوران یہ آکسیجن ایک اضافی مادے کے طور پر پیدا ہوتی ہے ۔ 
نائٹروجن اور آکسیجن ‘ زمین کی فضا تقریباً مکمل طور پر انہی دو گیسوں پہ مشتمل ہے۔ اڑھائی ارب سال پہلے زمین پہ ایک بہت بڑا فیصلہ کن واقعہ پیش آیا تھا۔اس وقت زمین پر پودے نہیں تھے۔ پہلی بار ایک خاص قسم کا بیکٹیریاپیدا ہوا‘ جس کا نام سیانو بیکٹیریا تھا۔ پودوں ہی کی طرح سورج کی روشنی استعمال کرتے ہوئے ‘ وہ آکسیجن پیدا کرنے لگا۔ بیس کروڑ سال میں سیانو بیکٹیریا نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ اسے Oxygen Revolution کہتے ہیں ۔اسے great oxydation eventبھی کہتے ہیں ۔ آج اگر ہم سانس لینے کے قابل ہیں تو اسی کی بدولت ۔بعد ازاں زمین پر پودے پیدا ہو گئے اور پھر آکسیجن کی بہتات ہوتی چلی گئی ۔یہ الگ بات کہ پچھلی چند صدیوں میں اور بالخصوص صنعتی انقلاب کے بعد کوئلہ‘ تیل اور گیس جلاتے ہوئے انسان نے اتنی کاربن پیدا کی کہ سارے توازن اب بگڑتے چلے جا رہے ہیں ۔ 
کائنات کی سو ارب کہکشائوں میں سے ایک کہکشاں میں سینکڑوں ارب ستارے ہیں۔ ان میں سے ایک کا نام نظامِ شمسی ہے ۔ یہاں کرّہ ٔ ارض نامی اس کا تیسرا سیارہ بہت اہم ہے ۔آدمی جیسا ذہین جاندارتو کجا‘ کسی دوسری زمین پر اب تک ایک زندہ خلیہ بھی تلاش نہیں کیا جا سکا۔ کب سے انسان ڈھونڈتا چلا جا رہا ہے ۔ 
یہی وہ پسِ منظر ہے ‘ بڑے سے بڑے سائنسدان کو جو یہی سوال دہرانے پہ مجبور کر دیتا ہے : آخر ہم یہاں کر کیا رہے ہیں ؟ (What are we humans doing on this Earth?)۔ خلا میں تیرتی ہوئی بڑی بڑی دوربینیں ہمارے جیسے سیاروں کا ڈیٹا زمین پر بھیج رہی ہے ۔ آگے آگے دیکھیے ‘ ہوتا ہے کیا۔
کرّہ ٔ ارض کے علاوہ کائنات میں زندگی کیسے تلاش کی جائے ؟ ہماری نگاہیں کمزور‘ وسائل محدود ہیں----اور پھر انسانوں کو ایک دوسرے سے لڑنا بھی ہے ۔انسان زیادہ تر وسائل تو باہمی جنگ و جدل پہ خرچ کر دیتا ہے ۔دنیا کے تمام ممالک کا مجموعی دفاعی بجٹ 1800ارب ڈالر ہے ۔ اس کے مقابلے میں دنیا کامجموعی خلائی تحقیقاتی بجٹ صرف 70ارب ڈالر ہے ۔ محتاط اندازوں کے مطابق ‘اوسطاً ہر سورج /ستارہ اپنے مدار میں کم از کم ایک سیارہ /زمین ضرور رکھتا ہے ۔ صرف ہماری کہکشاں میں ان سیاروں کی تعداد سو ارب تک جا پہنچتی ہے ۔ ہماری کہکشاں کے کسی دوسرے کنارے پر کسی سیارے میں اگر زندگی پائی جاتی ہے تو اس تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہی ہے ۔ 
سائنس بھی اب متوازی کائناتوں کی بات کرتی ہے۔ مذہب یہ بتاتا ہے کہ ہر آسمان (کائنات ) میں ایک سیارہ ایسا ہے ‘ جہاں خدا کا حکم اترتا ہے ۔ یہ سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہیں ۔ اس اعتبار سے زندگی کی تلاش واقعی ناممکن ہے ۔ سوائے اس کے کہ کسی دوسری کائنات میں ہم سے بہت زیادہ ذہین ‘ کہیں زیادہ باوسائل اور انتہائی محنتی مخلوق خود ہمیں ڈھونڈتی ہوئی ہم تک آپہنچے۔ 
جہاں تک کرّہ ء ارض کا تعلق ہے ‘ زندگی یہاں بہت ہی غیر مستحکم ہے ۔ ایک لمحے کو سوچیے کہ اتنے سارے پیچیدہ نظام (مغربی سائنسدانوں کی نگاہ میں اتنے سارے اتفاقات )اگر ایک ساتھ نہ جڑے ہوتے توکیا ہوتا؟ اگر زمین کی تہوں میں پگھلا ہوا لوہا اور اس کے نتیجے میں مضبوط مقناطیسی میدان نہ ہوتے ؟ اگر اوزون نہ ہوتی ؟ اگر مسلسل استعمال ہونے والی آکسیجن کو دوبارہ پیدا (Replenish)کرنے کے لیے کھربوں پودے اور دیگر جاندار نہ ہوتے ؟ اگر زمین اپنے محور پر 23ڈگری کے خاص زاویے سے جھکی نہ ہوتی اور اس کے نتیجے میں بدلتے ہوئے معتدل موسم نہ ہوتے ؟ (یاد رکھیے اس زاویے میں تبدیلی سے زمین برف کی تہوں میں دھنس سکتی ہے )۔ اگر سورج سے ہمارا فاصلہ موزوں نہ ہوتا؟ اگر زمین اپنے محور کے گرد گرد ش نہ کرتی (تو زمین کے ایک طرف ہمیشہ دن اور سخت گرمی ‘جبکہ دوسری طرف ہمیشہ رات اور سخت سردی ہوا کرتی)؟ اگر نظامِ شمسی میں مشتری جیسا اتنا بڑا سیّارہ نہ ہوتا‘ جو خلا میں موجود بڑی بڑی چٹانوں کو مسلسل نگلتا نہ رہتا؟ اگراتنا بڑا چاند اس قدر قریب نہ ہوتا؟ اگرابتدا میں کرّہ ٔارض کوایک خاص ماحول ‘ درجہ ٔ حرارت اور آب و ہوا میسر نہ آتی (آج ان سب میں بڑی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں )۔
اگر ہمارا سورج تنہا نہ ہوتا(اکثر جگہوں پر سورج دو یا تین کی جوڑیوں میں پائے جاتے ہیں )تو کیا ہوتا؟ یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت صرف بیرونی عوامل کا ذکر ہو رہا ہے ‘ زندہ اجسام کے اندر موجود حسین ''اتفاقات ‘‘اور ان کے باہمی ربط کا نہیں‘ وگرنہ اس ''اگر ‘‘کی دوسری حد کوئی نہیں ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved