تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-02-2020

بھارتی اقلیتیں خطرے میں

جیسے جیسے اخلاقی معیاراور اصولوں کی تشکیل ہو رہی ہے ‘اس کے ساتھ ہی انسان فطرت کے اندر پوشیدہ ظلم اور خونخواری کا عنصر بھی اپنی جڑیں پھیلا رہا ہے۔سوویت یونین میں ریاستی جبر کا شیر‘ انسانی ہڈیاں چباتا تو امریکہ میں میکارتھی ازم‘ انسانی ارواح کو کچلتی رہی اور یہ سب کھیل کس نے نہیں دیکھے؟ دوسری طرف نو آبادیاتی نظام پسپائی اختیار کرتا جا رہا ہے اورکرۂ ارض پر درندہ صفت گروہوں نے اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئیے ہیں‘ بعض نے اپنے اپنے ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں اور فورسز کی سربراہی میں قتل و غارت گیری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
دنیا میں ایسے انسان بھی ہیں ‘جو انسانیت کا خون بہا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔شرق ِاوسط میں انتہا پسند یہودیوں کو فلسطین میں زبردستی مسلط کرکے انہیں ایک ملک دے دیا گیا‘وہ آج تک مظلوم فلسطینیوں کواسی طرح چبا رہے ہیں‘ جیسے بھوکا شیر زندہ انسان کو کھا جاتا ہے‘ جبکہ مقبوضہ کشمیر کی حالت بھی اسی سے مماثلت رکھتی ہے اوردنیا سٹیڈیم میں بیٹھ کر صرف تماشا دیکھ رہی ہے۔ ظلم و بربریت کے اس کھیل کیخلاف مذمتی بیان شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔
بھارت کی بات کریں تو جہاں اس نے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے حقوق پر ڈاکہ مارا ‘وہیں اپنے ملک میں آباد اقلیتوں کو بھی نہیں بخشا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شہریت کے متنازع ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف پورے بھارت میں شور ہے۔یہ آج سے نہیں‘ بلکہ جس دن یہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہوا اور پھر صدرِنام نہاد جمہوریہ نے فوراً سے پیشتر دستخط کر کے اسے قانون کا درجہ دیا‘یوں حالات اسی دن سے کشیدہ ہیں۔ادھراس متنازع بل کی مخالفت کرنے والوں نے اس کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر دی‘جواز پیش کیا گیا کہ یہ بھارت کے آئین کی روح سے متصادم اور سیکولرازم کے مخالف ہے اور اس بات میں کوئی دو رائے بھی نہیں۔ بھارت کے صدر کے پاس کردہ قانون کے خلاف ملک کے مختلف اداروں‘ سول سوسائٹی اوردیگر شخصیات کی جانب سے تقریباً 60 عرضیاں داخل کی گئیں۔نئے سال کی آمد پر 10 جنوری کو اس قانون کا ملک میں نفاذ بھی کر دیا گیا ؛ حالانکہ چند ریاستوں نے اس کے نفاذ کی مخالفت بھی کی۔یوں ملک گیر مظاہروں میں دو درجن سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے‘ جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے۔13 جنوری کو حزب ِاختلاف کی اہم جماعت کانگریس کی قیادت میں پارلیمان کے احاطے میں مختلف پارٹیوں کی میٹنگ ہوئی ‘جس میں یہ طے پایاکہ جن ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سر عام نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے خلاف بیان دے چکے ہیں ‘ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ریاست میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو روکیں۔ تین اہم پارٹیوں مغربی بنگال کی ترنامول کانگریس‘ دلی کی عام آدمی پارٹی اور اترپردیش کی بہوجن سماج پارٹی نے شرکت نہیں کی‘ لیکن وہ اس بل کی کی مخالفت کر تی رہیں۔قرارداد منظور کی گئی کہ(سی اے اے)‘( این آر سی) اور (این پی آر) ایک غیر قانونی پیکیج ہے‘ جو بطورِ خاص غریبوں‘ پسماندہ طبقوں‘ دلتوں‘ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو بھی نشانہ بناتا ہے اور( این پی آر) ہی (این سی آر )کی بنیاد ہے۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف یورپی پارلیمنٹ میں تحریک پیش کی جا چکی ہے اوریورپی پارلیمنٹ اسے بحث کیلئے منظور کرچکی ہے‘ جبکہ رائے شماری مارچ تک ملتوی کردی گئی ہے۔یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کا خیال ہے کہ مارچ تک بھارتی سپریم کورٹ ‘ متنازع شہریت بل سے متعلق کوئی فیصلہ دے گی ۔عین ممکن ہے کہ ارکان اس انتظار میں ہوں کہ مارچ تک بھارتی سپریم کورٹ‘ متنازع شہریت بل سے متعلق کوئی فیصلہ دے ‘ تو بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی روشنی میں کوئی فیصلہ کیا جائے۔ بھارتی متنازع قانون کے ساتھ یورپی پارلیمنٹ کی تحریک میں پانچ دیگر قراردادیں بھی شامل ہیں۔ پارلیمنٹ انہیں بحث کے لیے منظور کرچکی ہے‘تاہم کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ یورپی پارلیمنٹ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔
ماضی میں جائیں تونیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا استعمال پہلے پہل ریاست آسام میں ہوا ‘ جس میں تقریباً 20 لاکھ افراد کو شہریت کی فہرست سے نکالا گیا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد آسام کے باشندوں کے آ جانے سے ان کے تشخص کو خطرہ لاحق ہو ا ۔ 1980ء کی دہائی میں شدید مہم چلائی گئی۔ بالآخر اس وقت بھارت کے وزیر اعظم نے آسام کے لوگوں سے ایک معاہدہ کیا اور اس میں(این آر سی) کروانے کی بات کہی گئی ‘جس پر سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد عمل درآمد کروایا گیا اور حکمراں جماعت بی جے پی نے اس کا سہرا اپنے سر لیا‘ لیکن جب (این آر سی) میں بڑی تعداد میں غیر مسلم شہریت کی فہرست میں نہیں آئے‘ تو بی جے پی کی ہی جانب سے اس کے خلاف مختلف دھڑوں سے باتیں ہونے لگیں اور پھر وزیر داخلہ امیت شاہ کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ پورے ملک میں (این آر سی) نافذ ہوگی۔واضح رہے کہ بھارتی لوک سبھا میں منظوری کے باوجود راجیہ سبھا میں اب تک یہ بل پاس نہیں ہو سکا۔ آئندہ پارلیمانی اجلاس‘ اب پارلیمانی انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے بعد ہی منعقد ہوگا۔یوں متنازع شہریت کا ترمیمی بل تو زائل ہو ہی گیا ‘لیکن اس سے وابستہ سب سے اہم سوال ابھی باقی ہیں۔ 
امسال جولائی میں آسام کے شہریوں کی حتمی فہرست شائع ہونے والی ہے۔ اس عمل میں لاکھوں باشندوں کو غیر قانونی تارکین ِوطن قرار دئیے جانے کا خدشہ طاہر کیا جا رہا ہے ۔ آسام کے ان لاکھوں باشندوں کا کیا ہوگا ‘جو شہریت ہی نہیں قومیت اور ریاست سے بھی محروم ہو جائیں گے؟ گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت میں اقلیتوں کا استحصال جاری ہے ‘لیکن جب سے نریندر مودی نے زمام اقتدار سنبھالی ہے‘ اقلیتوں کا مستقبل مزید داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور ان پر سرزمین ہند تنگ کر دی گئی ہے۔ ان تمام مذاہب کے خلاف ہندوؤں کی متعصبانہ کارروائیوں اور نفرت آمیز رویوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ انہی حالات کے پیش نظر مودی سرکار کو سیکولر ازم کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا گیااور ان کے اقدامات کو ''سیکولر ازم‘‘کے تابوت میں آخری کیل کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved