تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     19-02-2020

تھوڑی سی تبدیلی

جنرل پرویز مشرف نے انیس سو ننانوے میں اقتدار سنبھالا تو تمام سینئر سول افسروں کی فائلیں منگوائیں کہ بہترین سروس ریکارڈ کے حامل افراد کے ذریعے ملکی نظام چلایا جائے۔ ان کی حکومت ابھی تازہ دم تھی اور کچھ درشت بھی اس لیے ادھر حکم جاری ہوا اور اگلے روز تمام فائلیں ان کی میز پر تھیں۔ جنرل مشرف نے فائلیں پڑھنا شروع کیں تو انہیں معلوم ہوا کہ اسلام آباد میں متعین ہر سول افسر کا ریکارڈ بہترین ہے۔ فائلوں کے مطابق کسی افسر نے کبھی ضابطے کی خلاف ورزی کی‘ نہ کوئی غلطی اس سے سرزد ہوئی۔ یہ فائلیں دیکھ کر جنرل مشرف کو ایک لمحے کے لیے یوں لگا کہ پاکستان کی سول بیوروکریسی تو فرشتوں کا ایسا گروہ ہے جو ہر وقت عوام کی خدمت میں جُتا رہتا ہے اور اس کام سے فارغ ہوکر عبادت میں مصروف ہوجاتا ہے۔ ان سول افسروں کی رپورٹس کا یہ معاملہ جب وہ جنرل (ر) تنویر حسین نقوی مرحوم کے علم میں لائے تو انہوں نے جنرل مشرف کو بتایا کہ پاکستان میں سول افسروں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ محض جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔ ہر سینئر افسر روایتی طور پر جونیئر افسروں کو بہترین قرار دے کر جان چھڑاتا ہے کیونکہ اس نے بہترین قرار نہ دیا تو جونیئر کوئی نہ کوئی ایسی سفارش لے آتا ہے جسے ردّ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ یہ سن کر جنرل مشرف نے ان سے پوچھا کہ پھر پوری طرح کس پر اعتماد کیا جائے اور کیسے کیا جائے؟ اس پر جنرل تنویر حسین نقوی نے انہیں مشورہ دیا، 'اس پر اعتماد کر لو جسے تم کسی حد تک جانتے ہو‘۔ اسی مشورے پر چلتے ہوئے انہوں نے سول بیوروکریسی میں سے طارق عزیز کو اپنے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر چنا کیونکہ وہ ایف سی کالج لاہور میں ان کے ساتھ پڑھتے تھے اور یہی ذاتی جان پہچان انہیں پاکستان میں بیوروکریسی کی سب سے طاقتور کرسی تک لے آئی۔ اس تجربے کے بعد جنرل مشرف کو پاکستانی بیوروکریسی کو سدھارنے کے لیے کارکردگی کی سالانہ خفیہ رپورٹ لکھنے کے لیے فوج میں رائج طریق کار نافذ کرنے کی کوشش کا آغاز کیا۔ ان کی کوشش اس لیے ناکام ہوگئی کہ انہیں سیاستدانوں کی ضرورت پڑ گئی، جنہوں نے دوہزار دو میں حکومت ملتے ہی ہراصلاح کو غارت کرنے پر کمر کس لی اور پسندناپسند کا پرانا نظام بحال کردیا۔ پھر یکے بعد دیگرے حکومتوں میں میرٹ کے نام پر ذاتی تعلقات ہی چلتے رہے۔ سو آج ہمیں جو بیوروکریسی میسر ہے وہ نیچے سے اوپر تک ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی بھرتی میں تو شاید کہیں میرٹ کا دھیان رکھا گیا ہو، ترقی دیتے ہوئے قابلیت، اہلیت یا دیانت جانچنے کا کوئی تکلف نہیں کیا گیا۔ اس طریق کار سے جو تباہی آسکتی ہے، وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کوئی ادارہ ٹھیک چل رہا ہے نہ کوئی کام ڈھنگ سے ہورہا ہے۔ 
عمران خان وزیراعظم بنے تو ان کا واسطہ اسی بیوروکریسی سے پڑا جو ادارہ نہیں کلب بن چکی تھی۔ اس کلب کے ارکان سے کوئی تعمیری کام لینا تو اچھی خاصی تجربہ کار حکومت کے لیے مسئلہ ہے چہ جائیکہ تحریک انصاف جیسی جماعت تبدیلی لاسکے، لہٰذا پہلے دن سے اس حکومت پر نالائقی کا جو ٹھپہ لگا وہ اب اس کے دامن کا مستقل داغ بن چکا ہے۔ اس داغ کو دھونا سوائے اس کے ممکن ہی نہیں تھا کہ عمران خان اپنے منشور پر جم جاتے اور بیوروکریسی میں دوررس تبدیلی لاتے۔ یہی ہوا اور خوب ہوابلکہ بہت خوب ہوا کہ انہوں نے دیر سے سہی یہ کام کرڈالا۔انہوں نے چار ایسی اصلاحات کر ڈالی ہیں جو آنے والے وقت میں گورننس میں بہتری کا باعث بنیں گی۔
پہلی اصلاح یہ ہے کہ اب ہر سینئر افسر پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے ماتحتوں میں قابلیت کے اعتبار سے درجہ بندی کرے یعنی اب یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی اپنے دس کے دس ماتحتوں کے بارے میں کہہ دے کہ سبھی بہت اچھے ہیں۔ فوج میں یہ نظام رائج ہے کہ ایک کمانڈنگ افسر اپنے ماتحت افسروں کی کارکردگی کا جائزہ لے کر ان میں سے کسی کوترقی کے قابل سمجھتا ہے اور کسی کونہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ فوج کے سترفیصد افسر میجر اور کرنل بن کر ریٹائر ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد کے عہدوں پر بھی چھانٹی کا یہ عمل چلتا رہتا ہے اور جنرل کے عہدے تک وہی پہنچتا ہے جو کسی قابل ہو۔ اس نظام میں کسی کی رشتے داری کام آتی ہے نہ سفارش کا کوئی بڑاعمل دخل ہے۔ میرٹ کے اس نظام کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہماری فوج کا شمار دنیا کی بہترین فوجوں میں ہوتا ہے اور ملک میں یہ واحد ادارہ بچا ہے جو اوپر سے لے کر نیچے تک مکمل یکسوئی کے ساتھ جو طے کرتا ہے، کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس سول بیوروکریسی کو جو بھی کام دیا جائے اوّل توشروع نہیں ہوگا، شروع ہوجائے تو مکمل نہیں ہوگا اور اگر مکمل ہوگیا تو ہمارے قومی پھوہڑ پن کا نمونہ بن جائے گا۔ وجہ صرف یہ کہ اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کیلئے کسی نے افسرکا کام دیکھا ہی نہیں بس ذاتی تعلق پر ہی ترقی پر ترقی ملتی رہی اور موصوف قوم کے فیصلوں میں شامل ہوگئے۔ نئے قواعد کے مطابق شاید اب ایسا ممکن نہ رہے۔ 
دوسری اصلاح ہے افسروں کی اپنے آبائی صوبے سے باہر ملازمت کی شرط۔ اس لازمی تقرری کا مطلب درحقیقت پہلے سے موجود نظام پرحقیقی انداز میں عمل درآمد ہے۔ سیاسی حکمران اکثراوقات کسی 'لازمی‘ ضرورت کے تحت پسندیدہ افسر کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے قواعد سے استثنا دے دیتے ہیں اور کام چلتا رہتا ہے۔ اس کے علاہ پھر افسر بھی اتنے سیانے ہیں کہ وہ لاہور، کراچی یا اسلام آباد رہنے کے لیے ضابطے کی کارروائی یوں ڈالتے ہیں کہ ایک افسر جو لاہور میں پنجاب حکومت کے ساتھ کام کررہا ہے، اچانک لاہور میں ہی کسی وفاقی ادارے کی نمائندگی کرنے لگتا ہے۔ یہ وہ شرط ہے جس پر عملدرآمد کا امتحان جلد ہی وزیراعظم کو درپیش ہوگااور اگر عمران خان گھر سے ابتداکرنا چاہتے ہیں تو اپنے پرنسپل سیکرٹری کو ہی دیکھ لیں جو اپنے دور ملازمت میں خیبرپختونخوا سے باہر ہی نہیں نکلے۔ اگر وہ ایسا کرجائیں تو پوری بیوروکریسی کو پیغام مل جائے گا اور ان کے بہت سے سیاسی مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔
تیسری اصلاح ہے‘ تکنیکی نوعیت کی وزارتوں میں پیشہ ورانہ اہلیت کے لوگوں کی شمولیت کا راستہ ہموار کرنا۔ اس کا مطلب ہے کہ آگے چل کر زراعت، صحت اور سائنس کے محکموں میں ایسے لوگ آسکیں گے جو ان کاموں میں مہارت رکھتے ہوں نہ کہ ہم ان شعبوں کا ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں جن کی واحد قابلیت ان کا مشکوک سا گریڈ ہے۔ یہ سلسلہ رکنا چاہیے کہ ایسے شخص کو صحت کے محکمے کا سربراہ لگا دیا جائے جو کل تک مویشی پروری کے شعبے میں تھا اور اس سے پہلے تعلیم و تدریس کانگران تھا۔ ایسا کرنا دراصل ان تینوں شعبوں کے ماہرین اور پاکستان کے عوام کی توہین ہے۔ اگر نئے ضابطوں پر عمل ہونے لگا تو پاکستان میں گورننس کا نظام فوری طور پر بہترہونے کی امید کی جاسکے گی۔
چوتھی اصلاح یعنی ساٹھ سال کی عمر سے پہلے ریٹائرمنٹ کا دروازہ کھولنا بھی اہم ہے۔ جس طرح فوج میں پینتالیس سال کی عمر میں بھی ریٹائرمنٹ ممکن ہے، اب یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ نااہل، سست اور نکھٹو افسر ساٹھ سال کی عمر تک قوم کے سر پرسوار نہیں ہوں گے بلکہ ان کی بھرتی میں ہونے والی غلطی کا ازالہ پندرہ سال کی ملازمت کے بعد ہی سہی، ہو جائے گا۔ اگرچہ قوم کونظام کی اس غلطی کا تاوان ریٹائرمنٹ کے واجبات کی صورت میں ادا کرنا پڑے گا، لیکن یہ کوئی بڑا نقصان نہیں۔دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عمران خان نے جس منشورکی بنیاد پر دوہزار اٹھارہ کا الیکشن جیتا‘ اس کے بنیادی نکات میں سے ایک بیوروکریسی کی تنظیمِ نو تھا۔ اگرچہ یہ چاراصلاحات فوری طور پر بڑا اثر نہیں ڈال پائیں گی لیکن یہ طے ہے کہ ان سے کچھ تبدیلی ضرور آئے گی اور وقت کے ساتھ آتی چلی جائے گی۔ اگریہ نظام پنجاب اورخیبر پختونخوا میں صوبائی سطح پر بھی رائج ہوجائے تو یہ تبدیلی عام آدمی کو دکھنے بھی لگے گی۔ معمولی نظر آنے والے اس کام پر سوفیصد عملدرآمد ہونے لگا تو یقین مانیے بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اگر سرکاری افسروں کی بھرتی اور تربیت کا نظام بھی درست کرلیا جائے تو پھر نئے پاکستان کے خدوخال بھی واضح ہونے لگیں گے۔ وہ پاکستان جس کا وعدہ عمران خان نے عوام سے کیا تھا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved