دُعائیں مستجاب ہونے کے انتظار میں ہیں۔ بُلٹ کلچر پورے ملک پر محیط ہوچکا ہے۔ جسے دیکھیے طاقت سے بات منوانے پر تُلا ہوا ہے۔ ایسے میں بیلٹ کی طاقت پر یقین رکھنے والے گھٹتے جارہے ہیں۔ عوام کی خیر ہو کہ اُنہوں نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ اُن کا سیاسی ایمان ووٹ کی پرچی پر ہے۔ پانچ برس سے پیپلز پارٹی کی قیادت‘ محترمہ بے نظیر بھٹو کا یہ جُملہ دُہراتی آئی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ سب نے دیکھا کہ پارٹی نے جمہوریت کے نام پر قوم سے بہترین انتقام لے بھی لیا! اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو بھارت کے ایٹمی دھماکوں کی سالگرہ کے دن قوم حکمراں جماعت پر شدید ناراضی کا ایٹم بم نہ گِراتی! قدرت نے ایک بار پھر اپنے اُصول کو دُرست ثابت ہونے کا موقع فراہم کیا۔ پیپلز پارٹی نے جو بویا وہی کاٹا۔بیلٹ کا مرحلہ تمام ہوا تو پھر بُلٹ کی باری آگئی۔ لوگ حکومت سازی کے منتظر ہیں۔ جن ایوانوں کی ناقص کارگزاری سے پانچ سال تک قوم پریشان رہی اُن میں ایک بار پھر گھوڑوں کی خرید و فروخت کے آثار ہیں۔ سوچنے والے سوچ سکتے ہیں کہ گھوڑے اب کہاں رہے۔ ذاتی مفاد کے لیے مختلف نظریات کے آغوش میں سونے والے خَچّروں کی بھرمار ہے۔ دوغلا پن ہے کہ ختم ہوتا نہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ یار لوگ دوغلے پن کو ختم ہونے بھی نہیں دیتے! قوم نے قطار بند ہوکر ووٹ کی پرچی کے ذریعے دِل کی بات کہہ دی۔ انتخابی مہم میں اور منشور کے ذریعے جو وعدے کئے گئے تھے اُنہیں عمل کے سانچے میں ڈھالنے کا وقت آگیا ہے۔ قوم دیکھنا چاہتی ہے کہ دعوے کرنے والے کس قدر مخلص ہیں۔ ہر بار یہی تو ہوتا ہے۔ دِل اُمیدوں سے لب ریز بھی ہوتا ہے اور اندیشوں سے لرزتا بھی رہتا ہے۔ خدشات اور وسوسے ہیں کہ دِل و دِماغ کی جان نہیں چھوڑتے۔ اب پھر اندیشے سَر اُٹھا رہے ہیں۔ ؎ مُقدّر بن گئے ہیں خار و خَس کیا؟ نہ آئے گی بہار اب کے برس کیا؟ ایک موسم آسمان سے آگ کے برسنے کا ہے۔ دوسرا موسم انتخابات اور مابعدِ انتخابات کا ہے۔ اور اب تیسرا موسم بھی وارد ہوچکا ہے۔ یہ موسم ہے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کا۔ قوم کچھ پانا چاہتی ہے۔ اُس نے بیلٹ بکس میں اپنا دِل کھول کے رکھ دیا۔ مگر جب بیلٹ بکس کُھلے تو پریشانی کے صندوق بھی کُھل گئے! سب کی زبان پر ایک ہی شِکوہ ہے کہ مینڈیٹ پر شب خُون مارا گیا۔ دِن کے اُجالے میں ہونے والی پولنگ کے ذریعے شب خُون کیسے مارا جاسکتا ہے؟ یہ تو عوام کو طے کرنا ہے کہ کون حکمراں ہوگا اور کون اقتدار سے محروم رہے گا۔ کوئی بھی سیاسی جماعت یا ذاتی حیثیت میں الیکشن لڑنے والا سیاست دان کِس طور طے کرسکتا ہے کہ عوام اُسی کو چاہیں گے؟ عوام نے یہ نُکتہ سمجھ لیا ہے کہ جو توقعات پر پُورا نہ اُترے اور مینڈیٹ کو نِیّت کے مکمل اِخلاص کے ساتھ عمل سے ہمکنار نہ کرے اُس سے انتقام لینا چاہیے۔ جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے کی پُشت پر یہی فلسفہ کام کر رہا ہے۔ دُنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو لوگ عوام کی توقعات پر پُورے نہیں اُترتے اُنہیں عوام بیلٹ پیپر کے ذریعے رَدّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔ ہمارے اہل سیاست کا معاملہ ’’میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھوتھو‘‘ والا ہے۔ خود کو جن کا نمائندہ قرار دیتے نہیں تھکتے جب وہی لوگ مخالف رائے دیتے ہیں تو اُس رائے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مینڈیٹ میں نقب لگائی گئی یا شب خُون مارا گیا تو یہ سمجھ لیجیے کہ وہ عوام پر نقب لگانے اور شب خُون مارنے کا الزام عائد کر رہا ہے! منتخب ایوانوں میں واضح اکثریت کے ساتھ اُبھرنے والی جماعتوں کو حکومت سازی کے ریگ زار سے گزرنا ہوتا ہے۔ اِس کٹھن سفر کی تیاری کرنے کے بجائے وہ دھاندلی کے الزامات لگاکر، احتجاج کا اہتمام کرکے سیاسی فضا کو مزید مُکدّر کر رہی ہیں۔ پُراسرار قوتیں پھر متحرک ہوگئی ہیں۔ مینڈیٹ چُرانے کا الزام ایک خاص حد تک دُرست ہو سکتا ہے۔ اگر یہ راگ زیادہ دیر یا مینڈیٹ کی پُوری میعاد کے دوران الاپا گیا تو اُن مسائل کا کیا ہوگا جن کا حل عوام کے لیے زندگی اور موت کا معاملہ ہے؟ لوگوں کو احتجاج نہیں، کام چاہیے۔ مسائل حل ہونے چاہئیں۔ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی وباء کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ یہ ایسی روش نہیں جس پر زیادہ دیر گامزن رہا جائے۔ جمہوریت کے نام پر عوام نے پانچ سال تک غم کی سیاہ رات کاٹی ہے۔ خُدا خُدا کرکے ایک عہدِ ابتلا ختم ہوا۔ اب جمہوریت کا سُورج پھر طلوع ہوا ہے، صبح کا نُور پھیلا ہے تو اِسے دُھندلانے کی کوشش نہ کی جائے۔ عوام ایسی کوئی صدا سُننے کو تیار نہیں کہ ع چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی! دُکاندار بھی جب صبح دُکان کھولتے ہیں تو ابتدائی لمحات میں کِسی گاہک سے اُلجھنا پسند نہیں کرتے۔ دھندے کے آغاز میں ایسا کرنا بدشگونی سمجھا جاتا ہے۔ اور عام طور پر دِن کے پہلے گاہک کو اُدھار دینے سے گریز کیا جاتا ہے۔ مینڈیٹ کی چابی نے ایک نئے جمہوری عہد کو غیر مَقفّل کردیا ہے۔ منتخب ایوانوں کی دُکانیں کُھلنے والی ہیں۔ ابھی جمہوری دھندے کا آغاز بھی نہیں ہوا اور سب ایک دوسرے پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں! جب ایک دوسرے کا مینڈیٹ ہی تسلیم نہیں کیا جائے گا تو پانچ سالہ مُدت میں منتخب ایوان کیا کریں گے؟ جمہوریت کے کھیت میں احتجاج کے بیج ڈالے جائیں گے تو ہم آہنگی کی فصل کیسے اُگے گی؟ ایک عشرے کے دوران قوم نے جو کچھ بُھگتا ہے اُس کا ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ سب کچھ بُھول کر جمہوریت کو یاد رکھا جائے۔ جنہیں عوام نے اپنی نمائندگی کا اعزاز بخشا ہے اُنہیں منتخب ایوانوں میں ایک دوسرے کا احتساب کرنا ہے۔ اِس احتساب ہی کی بنیاد پر طے ہوگا کہ کِس نے قوم کو کِس حد تک فائدہ یا نقصان پہنچایا ہے۔ عوام کی خواہش صرف اِتنی ہے کہ اُن کے مسائل حل ہوں اور اِس کے لیے لازم ہے کہ منتخب ایوانوں میں احتساب کی روایت کا احیاء ہو۔ ایسا نہ ہو کہ ابھی تو ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالا جارہا ہے، ٹانگ کھینچنے کی کوشش کی جارہی ہے اور حکومت سازی کے مراحل مکمل ہونے پر مفاہمت کو فروغ دینے کے نام پر سب اپنا اپنا حِصّہ طے کرکے سُکون سے بیٹھ جائیں! عوام اب فرینڈلی اپوزیشن نام کی کِسی بلا کو گلے لگانے کے لیے تیار نہیں۔ قومی مفاد کے معاملات پر اشتراکِ عمل الگ چیز ہے۔ مفاہمت کی سیاست کے نام پر حِصّہ لیکر چُپ بیٹھے رہنا کوئی اور ہی کیفیت ہے۔ پیپلز پارٹی کا سندھ تک محدود ہو جانا سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ لوگ کام چاہتے ہیں، دُشنام طرازی اور احتجاج نہیں۔ لانگ مارچ، مظاہرے اور دھرنے کی سیاست اور کسی کی ہو تو ہو، عوام کی ترجیح نہیں۔ اہل سیاست انتخاب کے مرحلے سے گزر چکے۔ بس، اب اُنہیں سیاست چھوڑ کر کام شروع کرنا چاہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved