وفاقی اور تمام صوبائی حکومتیں ‘اگر واقعی مہنگائی کے جِن پر پر قابو پانا چاہتی ہیں‘ تو انہیں فوری طور پر بغیر وقت ضائع کئے ایک حکم نامہ جاری کرنا ہو گا‘ جس کے تحت کسی بھی جگہ پر قائم کئے گئے گودام کی متعلقہ ضلعی انتظامیہ کے پاس رجسٹریشن کروانی لازمی ہو گی اور ان تمام گودام مالکان کو قانونی طو رپر اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ہر ہفتے اپنے سٹاک کی رپورٹ کریں۔ ان کے لیے اپنے گوداموں کے اندر موجود کسی بھی جنس اور اس کی مقدار کو بھی بتانا لازمی ہو گا۔ ان گوداموں کے کھاتوں میں یہ باب درج کرنا ہو گا کہ کب اور کتنا مال ان کے اندر رکھا گیا اور کتنا باہر نکالا جا چکا۔ اگر حکومت نے اپنے ان احکامات کی پابندی کروا لی اور اس میں کسی قسم کی نرمی یا کوتاہی نہ آنے دی اور ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو موقع پر یا سمری ٹرائل کے ذریعے سخت ترین سزائیں دینا شروع کر دیں‘ تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ملک میں کہیں بھی اشیائے ضررویہ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہو گا ۔
یہ خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ذاتی حکم پر وزیر اعظم ہائوس کو با خبر رکھنے کیلئے دن میں دو ددفعہ وفاق اور صوبائی حکومتوں سے گوداموں میں ذخیرہ کی جانے والی اجناس کی رپورٹس منگوائی جا رہی ہیں‘ جس سے اتنا فرق پڑا ہے کہ پنجاب حکومت پہلے سے زیا دہ متحرک دکھائی دے رہی ہے۔چند روز قبل پنجاب حکومت کی انتظامیہ نے مختلف گوداموں میں چھپائی ہوئی گندم ‘ آٹے اور چینی کی ہزاروں بوریاں بر آمد کیں ہیں ‘لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایسے ذخیرہ اندوزوں کو صرف دس یا پندرہ ہزار روپے جرمانہ کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے تو انتہائی تکلیف محسوس ہوتی ہے کہ وہ لوگ جنہوں انسانی خوراک تو ایک طرف مویشیوں کیلئے تیار کئے جانے والے چارے کی قیمتیں بھی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بڑھا دی ہیں‘ اس قسم کے قومی مجرموں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ یا ایم پی اوکے تحت مقدمات درج ہونے چاہیے ۔دوسری طرف یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ (ن )کی گزشتہ حکومت جب اپنی مدت پوری کر کے رخصت ہوئی ‘تو پیپلزپارٹی کی حکومت سے ملنے والے وسائل کا بڑا حصہ کم ہو چکا تھا۔ گردشی قرضہ 500ارب روپے سے بڑھ کر ایک ہزار ارب روپے ہو گیا تھا‘ گیس کے شعبے میں اربوں روپے کا خسارہ ہوا‘ غیر پیداواری شعبے کے لیے حاصل کردہ غیر ملکی قرضوں نے جی ڈی پی کی شرح کو نگلنا شروع کر دیا تھا‘ جو شعبہ فائدہ دے سکتا تھا‘ اس کا فائدہ قرضوں کی اقساط کی صورت میں باہر جانے لگا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے لیے سب سے پہلا چیلنج ان قرضوں کی ادائیگی تھا‘ لہٰذا عمران خان‘ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد دوست ممالک کے پاس گئے‘ کچھ نے ادھار تیل دیا اور کچھ نے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد دی۔یوں پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار کے پہلے ہی برس قریباً 10ارب ڈالر کا قرضہ واپس کیا‘ لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سے زیادہ قرض اصلاحی پروگرام کے لیے لینا پڑا۔ یہ سچ ہے کہ عام آدمی کے لیے مالیاتی پالیسیوں اور معاشی معاملات کو سمجھنا آسان نہیں ۔ اس کے لیے ملک کی معاشی حالت کو سمجھنے کا ایک ہی فارمولہ معتبر ہے کہ آٹا‘ گھی‘ چینی اور دالیں اس کی قوت خرید میں رہیں۔ وطن ِعزیزمیں جو معاشی مسائل موجود ہیں‘ ان کی ذمہ داری سابق دو حکومتوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن )کے سرجاتی ہے‘ لیکن وہاں ایک عجیب طرز عمل دکھائی دیتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اور دیگر اپوزیشن رہنمائوں نے موجودہ بحران کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے سارا ملبہ موجودہ حکومت کے سر ڈال دیا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے رفقاء مذکورہ بالا صورت ِ حال میں حکومت کا نہ جانے کیوں دفاع نہیں کر پائے اور اپوزیشن عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے میں کسی حد تک کامیاب رہی کہ آٹا اور گندم بحران حکومت کے بعض اپنے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ آٹا بحران پر تنقید کو ملک کی مجموعی معاشی حالت کے ساتھ ملا کر ایسے بات کی جا رہی ہے کہ حکومت کو نا اہل اور ناتجربہ کار قرار دیا جا سکے۔ ماضی کے معاشی بوجھ کو اتارنے کی کوشش میں وہ طبقات کسی حد تک نظرانداز ہونے لگے‘ جن کی زندگی سے دکھوں کے کانٹے چننے کا وعدہ عمران خان نے کیا تھا۔ وہ تاجر اور کاروباری طبقات ایک بار پھر کاروبار بند کرنے کی دھمکیاں دے کر حکومت کو اس کی ٹیکس اصلاحات پر عملدرآمد روکنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔ اصول بہت سیدھا اور صاف ہے کہ ریاست کو ترقیاتی‘ دفاعی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے‘ مختلف شعبوں کی صلاحیت اور حجم کو سامنے رکھ کر ٹیکس لگا کر یہ ضرورت پوری کی جاتی ہے ‘جب ٹیکس کی ادائیگی سے لوگ انکار کریں گے تو صحت‘ تعلیم اور رہائش کی فراہمی کے لیے ریاست کے پاس کچھ نہیں ہو گا۔ ریاست کے مالیاتی وسائل کم ہونے لگیں گے تو وہ خوراک‘ سفری سہولیات اور عوامی بہبود کے مختلف منصوبوں پر سبسڈی دینے کے قابل نہیں رہے گی۔ اس سے کرائے بڑھتے ہیں اور عام آدمی کی جیب پر بوجھ پڑنے لگتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ اگر انتظامی ڈھانچہ فعال ہو تو بہت سے مسائل پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ ہر شعبے میں سیاسی مداخلت اور میرٹ کے قتل نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ کوئی گروہ جب چاہتا ہے‘ اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں مرضی کا اضافہ کر لیتا ہے۔ ایسے میں سبزی سے لے گوشت‘ ٹرانسپورٹ کرایوں سے لے کر سکولوں کی فیسوں تک ‘کسی معاملے پر حکومت کی گرفت نہیں رہتی ہے۔ قیمتیں کنٹرول کرنے کا نظام معطل دکھائی دیتا ہے۔ ذخیرہ اندوز اور گراں فروش بے خوف ہو کر عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ یہ صورت ِحال یقینا قابل رشک نہیں ہے۔عوام‘ وزیر اعظم عمران خان کے کہے پر بھروسہ کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مشکل حالات سے نبرد آزما ہے ‘لیکن مشکلات سے جنگ میں ایک ضرب اس ناجائز منافع خور پر بھی ضرور پڑنی چاہیے‘ جو عوام کی زندگی اجیرن بنا رہا ہے۔
انسانوں کی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کو روکے رکھنا اور ان کو مہنگے داموں بیچنے کیلئے ذخیرہ اندوزی کرنا اﷲتعالیٰ کے نزدیک گناہِ عظیم ہے‘ لیکن اس کے با وجود مسلمان اس ظلم اور بری عادت سے باز نہیں آتے۔ اب‘ ایسے لوگوں کیلئے جو انسانوں کو بھوک سے مارتے ہوں‘ جو معصوم بچوں کو دودھ کیلئے‘ چینی کے ایک ایک دانے کیلئے ترساتے ہوں‘ جو بھوکوں سے روٹی تک چھین لیتے ہوں‘ ایسے منا فع خور اور ذخیرہ انروز کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں ‘ لہٰذاان پر دہشت گردی کے مقدمات قائم ہونے چاہیے اور ا س کیلئے اگر فوری طور پر کوئی آرڈیننس جاری کرنا پڑے تو ذرا سا بھی دریغ نہ کیا جائے۔ جنگ ستمبر1965 میں مجھے کھیم کرن جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں کی منڈیوں اور گھروں کے اندر پاکستانی فلور ملز کی گندم کی بوریوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بھارت کا قصبہ نہیں ‘بلکہ پاکستان کا ہی کوئی ہے‘ جہاں ہر جانب پاکستانی گندم اور آٹا دکھائی دے رہا تھا اور یہ سب اس سمگلنگ کی وجہ سے ہوا تھا۔
میری نظر میں گزشتہ کچھ عرصہ سے گوداموں والوں کے ساتھ کچھ چھوٹے دکانداروں نے خو دہی اپنی ہر شے کی قیمت یہ کہتے ہوئے بڑھانا شروع کر دی ہے کہ '' تبدیلی کا مزہ چکھو‘‘ اور یہ سب کچھ مصنوعی ہے اور جان بوجھ کر ایسی قوتیں‘ جو موجودہ حکومت کی مخالف ہیں‘ ایسا کر رہی ہیں‘ لہٰذامصنوعی مہنگائی روکنے کیلئے ذخیرہ اندوزوں کو معمولی جرمانے نہیں‘ بلکہ قید سخت کی سزا ئیں دینا ہوں گی۔