حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر اور مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے‘‘ اور یہی سب سے زیادہ تشویشناک بات ہے‘ کیونکہ کوئی ٹھہری ہوئی چیز تو اپنی جگہ سے ہلتی ہی نہیں‘ اس لیے اس کے جانے کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے اور اسی لیے حکومت اپنی جگہ پر ڈٹی ہوئی ہے اور الٹا ہمارا منہ چڑا رہی ہے؛ حالانکہ منہ صرف بچے چڑاتے ہیں اور لگتا ہے کہ حکومت ابھی اپنے بچپن سے باہر نہیں نکلی اور شاید اسی لیے بچوں کا کھیل بنی ہوئی ہے اور ہماری حرکتوں کی وجہ سے روز بروز جوان ہوتی جا رہی ہے؛ چنانچہ ہمیں اس کے بوڑھا ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا ‘جس دوران وہ اپنی تین چار باریاں بھگتا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنما عارف خان کے بھائی کی تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کوئی ڈیل نہیں کی‘ مریم جلد سیاست شروع کریں گی: ایاز صادق
سابق سپیکر قومی اسمبلی اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ '' کوئی ڈیل نہیں کی‘ مریم جلد سیاست شروع کریں گی‘‘ جو محض شدید سردی کی وجہ سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور اب ذرا دھوپ وغیرہ نکلے گی تو وہ بھی رفتہ رفتہ بولیں گی اور اگلی پچھلی ساری کسر نکال کر رکھ دیں گی‘ جبکہ اس سردی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی سرد مہری بھی ہے‘ جو ان کے لندن جانے کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے اور اس بات کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ حکومت نے آخر اتنے روڑے کہاں سے لیے ہیں؟ اگرچہ حکومت خود کہاں کی اینٹ اور کہاں کا روڑا پر مشتمل ہے ‘جبکہ روڑا صرف ٹھوکر کھانے کیلئے ہوتا ہے‘ اس لیے اسے روڑے کا صحیح استعمال کرتے ہوئے ٹھوکریں کھانے تک محدود رہنا چاہیے اور اپنے حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے‘ جس کا نتیجہ ہم تو بھگت ہی رہے ہیں‘ کم از کم ہم سے ہی عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک میں انصاف چاہیے‘ انتقام نہیں: سید خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ''ملک میں انصاف چاہیے‘ انتقام نہیں‘‘ کیونکہ اثاثوں پر گرفت کرنا کسی کے رزق پر لات مارنے کے مترادف ہے‘ جبکہ لات صرف حاتم کی قبر پر مارنی چاہیے‘ لیکن حکومت صرف ہمیں لاتوں کا بھوت سمجھے ہوئے ہے ؛حالانکہ ہم باتوں سے بھی مان سکتے ہیں؛ اگرچہ حساب کتاب دینے کی باتیں ہمیں ہرگز اچھی نہیں لگتیں ‘کیونکہ حساب کتاب تو صرف اللہ میاں ہی لے سکتے ہیں‘ جس کے لیے انہوں نے روزِ حشر مقرر کر رکھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہاں بھی اثاثوں کا حساب نہیں لیا جائے گا‘ کیونکہ یہ اسی کی دین ہے اور اپنے ہی کیے ہوئے کام پر کوئی کیسے پوچھ گچھ کر سکتا ہے‘ کیونکہ جب وہ کسی کو چھپّر پھاڑ کر دیتا ہے‘ تو اسی کو دیتا ہے‘ جسے وہ اس کا مستحق سمجھتا ہے‘ آپ اگلے روز سکھر میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کی پیشی بھگتنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
لذّتِ غم
یہ سیدہ مصباح حسین کی غزلوں کا مجموعہ ہے‘ جسے المعارج پبلی کیشنز لاہور‘ اسلام آباد‘ لندن نے چھاپا ہے۔ انتساب واصف علی واصف کے ایک شعر کی شکل میں ہے۔ پس سرورق سید اشفاق حسین کی تعارفی تحریر ہے۔ اس کتاب کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس کا ایک بھی مصرعہ وزن میں نہیں ہے‘ جس کا یہ مطلب نہیں کہ شاعرہ کو وزن کا پتا نہیں یا ان کی طبع موزوں نہیں۔ ہم کافی غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شاعرہ نے ایک نیا تجربہ کیا ہے اور یہ نثری غزلیں ہیں‘ کیونکہ اگر نثری نظمیں چار دانگ ِعالم میں اپنا ڈنکا بجا سکتی ہیں تو نثری غزلیں کیوں نہیں‘ بلکہ اس مجموعے سے متاثر ہو کر میرا اپنا ارادہ ہے کہ نثری غزلیں لکھنا شروع کر دوں اور مجھے یقین ہے کہ میں اور سیدہ مصباح حسین مل کر نثری غزل کی اس نیّا کو پار لگا سکتے ہیں۔ سو‘قدم بڑھائو سیدہ مصباح حسین‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ نمونۂ کلام:؎
یوں تو اک جہاں ہے منتظر ہماری آمد کا
سفر سے منزل تک ہماری پہچان کافی ہے
نہ برسیں بادل تو کیا کافی ہے
دل کی بستی بسانے میں ایک مہمان کافی ہے
اور‘ اب آخر میں انجم قریشی کے مجموعے ''میں تے املتاس‘‘ میں سے ایک پنجابی نظم ''ہاڑا‘‘ پیش خدمت ہے:۔
منّی ساڑے دُھپ دا سیکا
ویری لگے سوہرا پیکا
کراں دُعاواں لا لا ہیکاں
گل بن دی نہیں لگدی
مینہ دا زور تے چھپر پاٹا
بھج گئے سارے چول تے آٹا
جتھے جاواں ہر تھاں گھاٹا
رات گزاراں جگدی
آئی ہنیری اُڈ گئے لیڑے
کرماں دے وچ پے گئے کیڑے
جھٹ کُو ساہ تے آئون دے پیڑے
رگ پھڑکے رگ رگ دی
بھن پیندی تے جی کرلاوے
کوئی تے سنیہا لے کے آوے
جے اوہ آ کے گل نال لاوے
ٹھنڈ پاوے مینوں اگ دی
جس سے ساہ نال ساہ اے ولیا
جس دے ناں وچ ناں اے رلیا
جس جی میرا جُثہ ملیا
خیر ہووے اوہدی پگ دی
آج کا مقطع
جھوٹ موٹ آخر گلے مل کر بذعمِ خود‘ ظفرؔ
اگلا پچھلا سب حساب اُس نے برابر کر دیا