پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جب سے آئی ہے میڈیا اور سوشل میڈیا سے خائف نظر آتی ہے؛حالانکہ پی ٹی آئی کو الیکشن سے پہلے اسی میڈیا کی مکمل سپورٹ حاصل تھی ۔پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنے کو اسی میڈیا نے پل پل لائیو براڈ کاسٹ کیا۔ان کا بیانیہ ہر چینل پر مفت میں نشر ہوتا تھا۔جہاں دوسری سیاسی جماعتیں لاکھوں کے اشتہار دے کر اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں ‘وہاں پی ٹی آئی کے جلسوں اور دھرنے کو گھنٹوں مفت میں لائیو نشر کیا جاتا تھا۔بہت سے صحافی اور کالم نگار پی ٹی آئی کیلئے سافٹ کارنر رکھتے تھے اور اس کے نظریے کے حامی تھے‘ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے جلسوں تک میں وہ نظر آتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا بھی پی ٹی آئی کی ایک بڑی قوت بن چکا تھا۔ ہزاروں ‘ بلکہ لاکھوں افراد پی ٹی آئی کیلئے فیس بک اور ٹوئٹر پر ویڈیو پیغام پوسٹ کرتے ‘ کوئی ٹوئٹ کرتا تو کوئی سٹیٹس لگا تا کہ تبدیلی آنے والی ہے ۔الغرض دن رات پی ٹی آئی کے چیئرمین جناب عمران خان اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں کی تعریف ہوتی اور اگر کوئی پی ٹی آئی پر تنقید کرتا‘ تو سینکڑوں بے نامی اکاؤنٹس سے انہیں برا بھلا کہا جاتا تھا ۔
سوشل میڈیا پر جناب عمران خان اور پی ٹی آئی ٹاپ ٹرینڈ ہوتے‘ اور ایک حد تک الیکشن سے پہلے ہی پی ٹی آئی میڈیا اور سوشل میڈیا پر الیکشن جیت چکی تھی‘ یہی وجہ تھی کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا صارفین کو اپنی طاقت مانتی تھی ۔ان میں سے بہت سے لوگ اصل اکاؤنٹ کے ساتھ تھے اور بہت سے فیک اکاؤنٹس کے ساتھ پی ٹی آئی کی سپورٹ میں سرگرمِ عمل تھے‘ نیز پی ٹی آئی کی آفیشل سوشل میڈیا ٹیم بھی تھی‘ جو اپنی پارٹی کے حوالے سے خبریں شیئر کرتی رہتی تھی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان ہر دل عزیز شخصیت ہیں ۔بیرون ملک تارکین ِوطن کی بڑی تعداد ان کی فین ہے ۔یہی وجہ تھی کہ وہ بھی پی ٹی آئی کیلئے رضا کارانہ طور پر سوشل میڈیا پر آواز بلند کرتے رہے ۔ہر کوئی تبدیلی کے سحر میں مبتلا تھا۔ یوٹیوبرز‘انسٹاگرام انفلواینسرز‘بلاگرز‘سوشل میڈیا سٹارز یہاں تک کہ فیشن ڈیزائنرز اور فنکاروں نے بھی تبدیلی کی خاطر پی ٹی آئی کی سپورٹ جاری رکھی ہوئی تھی ‘ اس وقت کی حکومت نے جب سائبر قوانین متعارف کروائے‘ تو پی ٹی آئی نے اس پر انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اوراس کو آزادیٔ اظہاررائے پر قدغن قرار دیا تھا ؛ تاہم میں نے ان دنوں اس حوالے سے ٹوئٹ کیا تھا کہ سوشل میڈیا کیلئے قوانین ہونے چاہئیں‘ نیز اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ عام صارفین اس کی زد میں آجائیں گے اور پھر میرا یہ خدشہ سر دست ثابت ہوا اور تب بہت سے سوشل میڈیا کارکنوں کو گرفتار کیا گیا‘ جو حکومت کے حامی تھے‘ لیکن پی ٹی آئی ذاتی مخالفت کے باوجود ان مسلم لیگی کارکنوں کو بچانے کیلئے میدان میں آئی۔اس کے ساتھ کچھ بلاگرز کو بھی گرفتار کیا گیا‘ جن کو غیر ملکی میڈیا نے ہیرو بنا دیا تھا ۔ وہ آزاد ہونے کے بعد بیرونی ممالک چلے گئے تھے اور آج پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں۔
سائبر قوانین متعارف کروانے کے بعد سینکڑوں لوگوں کو سوشل میڈیا پر نازیبا کلمات کی وجہ سے پوچھ گچھ کیلئے بلایا گیا ۔مسلم لیگ (ن) کے رہنمااور یوتھ ونگ کے صوبائی صدر کو سائبر کرائم ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیاکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر غیر مناسب گفتگو کی تھی ۔میرے خیال میں جو لوگ سوشل میڈیا پر فحش گوئی کرتے تھے ہیں یاکسی پر بہتان باندھتے ہیں‘ ان کو سزا ملنی چاہیے اور ‘جو لوگ ریاست کیخلاف سرگرم ہیں‘ ان کو بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے ‘ نیزجو لوگ خواتین کی کردار کشی کرتے ہیں یا ان کی تصاویر سے فیک اکاونٹ چلاتے ہیں اوران کو بلیک میل کرتے ہیں‘ ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔جو ٹرولز سوشل میڈیا پر سیاسی رہنماؤں‘صحافیوں اور اداکاروں پر سائبر حملے کرتے ہیں ‘ انہیں بھی ٹریس کرکے سزا دینا ضروری ہے ۔جو لوگ فیک ٹرینڈ بناتے ہیں یا پیسے لے کر کسی کے خلاف ٹرینڈ چلاتے ہیں‘ ان پر چیک اینڈ بیلنس ہونا ضروری ہے ؟ تاہم وہ صحافی جو اپنا نقطہ نظر رکھتے ہیں یا جو لوگ سیاسی بصیرت رکھتے ہیں‘ ان کو بولنے‘ لکھنے کی آزادی ہونی چاہیے‘ کیونکہ شائستگی کے ساتھ اختلاف کی اجازت ناگزیر ہے ۔
جب سے پی ٹی آئی کے حکومت آئی ہے ‘میڈیا اور سوشل میڈیا پر گرج برس رہی ہے ۔حکومتی وزیر و مشیر ہر چیز کا ذمہ دار میڈیا اور سوشل میڈیا کو قرار دینے لگ گئے ہیں اور اپنی کارکردگی پر نظر ثانی کیلئے تیار نہیں‘ بس ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کا رواج بن گیاہے ‘جبکہ میڈیا تو خود اس وقت معاشی بدحالی کا شکار ہے‘ تاہم سچ سامنے لانے کیلئے یہی قومی میڈیا دن رات کام کررہا ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات بھی اپنے بیانات میں میڈیا کو اکثر تجاویز و مشورے دیتی رہتی ہیں ۔فواد چوہدری جو وفاقی وزیر ہیں‘ نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی اینکر کو تھپڑ رسید کیا‘ جبکہ کچھ دن قبل ایک تقریب میں ایک اور اینکرپرسن کے ساتھ بھی بدتمیزی کی تھی۔کہا جاتا ہے کہ کئی اینکرز ‘ جو حکومت پر تنقید کرتے تھے‘ ان کے شوز بند کر دئیے گئے اور اب وہ یوٹیوب کے ذریعے سے عوام سے مخاطب ہیں ۔ان کی ویور شپ میں کمی نہیں ہوئی ‘ بلکہ ان کے فینز ان کو اب بھی دیکھ اور سن رہے ہیں ‘ یعنی جب سوشل میڈیا پر حکومتی کارکردگی سامنے لائی جانے لگی ہے‘ تو وہ بھی سوشل میڈیا پر قدغن لگانے کیلئے تیار ہو گئی ہے ۔اس سے پہلے حکومت کو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔فیک اکاؤنٹس والے کئی سیاست دانوں‘ اداکاروں اور صحافیوں کی کردار کشی کرتے رہے‘ لیکن خاموشی چھائی رہی‘خواتین صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا‘ لیکن کوئی حکومتی نمائندہ بولا تک نہیں ‘لیکن پاکستان کی صحافت کے بڑے نام جب سوشل میڈیا پر متحرک ہوگئے تو حکمرانوں کو یہ فکر لگ گی کہ یہ سوشل میڈیا تو بے لگام ہورہا ہے ۔ سوشل میڈیا پر قدغن کے مشورے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی دینے والے بہت تھے ۔ان کے دور میں میڈیا اور سوشل میڈیا پرگھٹن اتنی بڑھ گئی تھی کہ عام سی بات کرنابھی مشکل تھا۔ان کی جماعت کا سوشل میڈیاسیل صارفین کو بولنے تک نہیں دیتا تھا۔ ان کے کارندے حکومت پر تنقید کرنیوالوں کی کردار کشی شروع کردیتے تھے۔ اور اب غالباًتیاری کی جارہی کہ میڈیا اور سوشل میڈیا کو چپ کروایا جائے ‘ اگر قدغن لگانی ہے تو بعض سیاسی جماعتوں اور اداروں کی ان سوشل میڈیا ٹیموں پر پابندی لگائیں یاخواتین کی کردار کشی کرنے والے اکاونٹس کو بند کرائیں ۔غلط مواد شیئر کرنے والوں پر کاری ضرب لگائیں‘ لیکن غالباًایسا کچھ نہیں ہوگا‘ کیونکہ بجلی صرف ان پر گرے گی‘ جو حکومت پر تنقید کرتے ہیں ۔
اب اگر ان سماجی رابطے کی ویب سائٹس کو بند کرنے کی کوشش کی تو پاکستانی معیشت کومزید نقصان ہونے کا اندیشہ ہے ۔ اگر ان سائٹس پر بین لگا تو ہم عالمی طور پر پاکستان کی مقدمہ نہیں لڑ سکیں گے اورانفارمیشن کی وار میں پیچھے رہ جائیں گے ‘ ہم کشمیر میں بھارتی مظالم کو منظر عام پر نہیں لاسکیں گے اور عالمی طور پر تنہائی کا شکار ہوجائیں گے۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے یوٹیوبرز جو اس وقت لاکھوں روپے کما رہے ہیں اور ان کی پے منٹ بینکنگ چینل کے ذریعے سے پاکستان آتی ہے ‘اس میں کمی آجائے گی ۔ حکومت کے سوشل میڈیا پر امیج سے بھی بڑے بڑے مسائل ہیں ۔ عوام مہنگائی کے ستائے ہوئے‘ لیکن اونچی دیواروں والے محلات تک شاید عوام کی آوازیں نہیں پہنچ پاتی۔یہ کیسا ڈیجیٹل پاکستان ہے ‘جس میں بولنا منع ہے۔
میری نظر میں یہ تو مذاق ہی ہے کہ ایک طرف ڈیجیٹل میڈیا کے نام پر سیمینار ہورہے ہیں‘ دوسری طرف سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے پر بھی غور ہورہا ہے۔التماس صرف یہ ہے کہ آزادیٔ رائے کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے میڈیا پر پابندیاں عاید نہ کی جائیں‘ تاکہ سب کی آواز سب تک پہنچتی رہے۔