تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     21-02-2020

افغانستان میں امن کے روشن امکانات

طویل اور بُری جنگیں نہ تو آسانی سے ختم ہوتی ہیں اور نہ ہی ان کا خاتمہ کسی اچھے موڑ پر ہوتا ہے۔ ماضی میں ہونے والی ہر جنگ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جس جنگ کے بنیادی عوامل ملک کے اندر ہوں‘ وہاں زیادہ تر جنگجو دھڑے اسی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور پھر ان کے مفادات جنگی معیشت سے ہی وابستہ ہو جاتے ہیں۔ افغانستان کی چالیس سالہ جنگ کے محرکات داخلی سے زیادہ بیرونی ہیں‘ لیکن یہ محرکات داخلی اقتدار کی جنگ سے مکمل طور پر کبھی بھی نہ الگ اور نہ ہی علیحدہ دیکھے گئے۔ سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت چالیس سال قبل اس وقت شروع ہوئی جب اس کے پروردہ اشتراکی فوج کی مدد سے ریاست پر تو قابض ہو چکے تھے‘ لیکن اپنے خلاف اٹھنے والی مزاحمت پر قابو پانے کے قابل نہیں رہے تھے۔ چند مہینوں بعد ہی وہ آپس میں اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔ اس ساری صورت حال میں اصل المیہ افغانستان کا ایک کمزور‘ بلکہ اس خطے میں کمزور ترین ریاست ہونا تھا‘ جسے اپنی بقا کے لئے بیرونی امداد اور بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑ رہا تھا۔ تاریخ کا جائزہ لیں تو افغانستان کے بادشاہ صدیوں تک برطانیہ کے محتاج بنے رہے۔ افغان ریاست کی جدید ترقی اور ترتیب کا عمل تقریباً ایک صدی پہلے امان اللہ خان کی عظیم قیادت میں شروع ہوا۔ انہوں نے نہ صرف جنگ عظیم اول کے خاتمے کے ساتھ ہی افغانستان کی برطانیہ سے آزادی کا اعلان کیا‘ بلکہ ترکی اور ایران میں ترقی پسندانہ سوچ اور منصوبہ بندی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ملک کو جدید خطوط پر استوار کی جدوجہد میں دس سال تک مصروف عمل بھی رہے۔ اگر وہ اپنی ان کاوشوں میں کامیاب ہو جاتے تو نہ صرف افغانستان بلکہ اس پورے خطے کی سیاست اور ریاست کی ہیئت بھی تبدیل ہو جاتی اور اس سے مختلف ہوتی جو اس وقت ہے۔ 
افغانستان کے روایتی مذہبی حلقوں نے ہمیشہ جدیدیت کے خلاف پُر تشدد تحریکیں چلائیں۔ ان تحریکوں کا عصری اثر پاکستان سے ملحقہ علاقوں سے ابھر کر ہمارے معاشرے اور ریاستی رویوں کو بھی بڑی حد تک متاثر کرتا رہا ہے۔ امان اللہ خان ایک مذہبی تحریک کے نتیجے میں ہی اقتدار کھو بیٹھے تھے‘ اور پھر اقتدار پہ قابض امیر حبیب اللہ کے خلاف لشکر شمالی اور جنوبی وزیرستان میں منظم کئے گئے۔ ان لشکروں کے سربراہ نادر شاہ تھے۔ انہوں نے اقتدار چھین کر نئی موروثی بادشاہت کی بنیاد رکھی‘ جس کے آخری فرماں روا ظاہر شاہ تھے۔ سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ سے ہم خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ جس طرح افغانستان کی جنگوں کے شعلوں نے ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لئے رکھا‘ اس نے ہم آہنگی‘ امن و آشتی‘ رواداری اور معاشرتی اعتدال جیسی کئی اچھی روایات کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا۔
اس تناظر میں وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین امن معاہدے کی صورت میں پاکستان کی ریاست اور معاشرہ‘ دونوں ایک نئی‘ پُر امن اور اعتدال پسند جہت اختیار کر سکیں گے۔ کچھ لوگ ہمیشہ اس نکتے کا ورد کرتے ہیں کہ پاکستان‘ افغانستان میں ایک کلیدی کردار کی حیثیت اور اہلیت رکھتا ہے‘ اور اس امن منصوبے پر اگر متحارب گروہ اور امریکہ کی انتظامیہ عمل پیرا ہوتے ہیں تو پاکستان کا اثر و نفوذ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ بات درست سہی‘ لیکن چالیس سالہ جنگ میں بیرونی طاقتوں اور ان کے افغانستان کے اندر پالتو گروہوں نے ہم سے کہیں زیادہ وہاں کی طاقت کے توازن‘ امن و امان کے مسائل اور خصوصاً تعمیرِ نو اور معاشی ترقی میں حصہ ڈالا۔ میں یہ مانتا ہوں کہ افغانستان کے اندر اگر ایسے ممالک سرگرم رہتے ہیں‘ جو وہاں کی سرزمین کو پاکستان کے مفادات کے خلاف استعمال کرنے کے لیے اڈے قائم کرتے ہیں یا دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہوئے پاکستان کے اندر کارروائیاں کرواتے ہیں تو ہمیں جوابی کارروائی کا نہ صرف اختیار اور حق ہے بلکہ یہ ہماری قومی سلامتی کے لیے ضروری بھی ہے۔ اس پہ اختلاف ہو سکتا ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہیے‘ لیکن اس کی ضرورت اور اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
افغانستان کی سب جنگوں کے نتیجے میں ماحول ایسا بن گیا کہ علاقائی ممالک ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے اثر بڑھانے اور مخالف طاقتوں کا اثر زائل کرنے کے لیے مداخلت کی پالیسیوں پر گامزن رہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اور تاریخی طور پر بھی ریاستوں کے اندر خانہ جنگی‘ بیرونی عناصر کو کھینچ لاتی ہے۔ ایسی کوئی خانہ جنگی عصر حاضر میں نہیں جہاں علاقائی اور بڑی طاقتوں نے جنگ کی آگ کے شعلوں پہ وافر مقدار میں اور مسلسل کئی سالوں تک تیل نہ بہایا ہو۔ سب نے بے چارے افغانوں کو ان کی اپنی مملکت کے اندر ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں جوت رکھا ہے۔ باہر سے افغانستان میں جنگوں کی آگ بھڑکانے والے عرصے سے یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ''افغان تو صرف جنگ کرنا جانتے ہیں‘‘۔ یہ کتنا غیر انسانی اور متعصبانہ خیال ہے۔ سب قوموں اور انسانوں کی طرح افغان بھی امن اور سلامتی سے رہنا چاہتے ہیں‘ مگر باہر کی طاقتیں جب ان کے ملک پہ قابض ہو جائیں تو یہ ان کی عظیم روایتوں میں سے ایک ہے کہ وہ مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے غریب‘ پس ماندہ ہونے اور روایتی ہتھیاروں اور دولت میں کمزور ہونے کے باوجود جدید دنیا کی تین بڑی طاقتوں کو شکست دی۔ برطانیہ‘ سوویت یونین اور اب امریکہ‘ جو بلا مبالغہ دنیا کی طاقت ور ترین ریاست ہے۔ 
امریکی قیادت اپنا بیش بہا سرمایہ اور فوج کا خون رائیگاں کرنے کے بعد آخر کار صلح پہ آمادہ ہوئی ہے۔ عام پسند مفروضوں کے برعکس میرا خیال یہ ہے کہ امریکہ جزوی نہیں بلکہ افغانستان سے مکمل انخلا چاہتا ہے‘ مگر مرحلہ وار اور اس انداز میں کہ یہ یہ بد قسمت ملک ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا شکار نہ ہو جائے۔ پاکستان کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جائے‘ جنگ ختم ہو جائے اور یہ ملک معمول کے مطابق چلے۔ یہ اب سب کو معلوم ہے کہ اگر افغانستان جنگوں کی زد میں رہتا ہے تو ہم کیسے ان جنگوں کی تپش سے محفوظ رہ سکیں گے؟ میرے خیال میں گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی افغان پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان نے روز اول سے‘ جب امریکہ نے جنگ کر کے طالبان کی حکومت کو ختم کیا‘ اس بات پر اصرار کیا کہ طالبان کے ساتھ بات چیت ضروری ہے۔ امن صرف اسی صورت میں بحال ہو سکتا ہے جب افغانستان کی زمینی حقیقتوں کو بلا جھجک تسلیم کر لیا جائے۔ آخر امریکہ نے طالبان کی طاقت کا ادراک کر ہی لیا۔ لیکن یہ کہنا کہ طالبان بزورِ طاقت افغانستان پہ دوبارہ قابض ہو سکتے ہیں‘ غلط ہو گا۔ انہوں نے بھی افغانستان کے اندر امریکہ اور مغربی دنیا کے تعاون اور مدد سے جاری کسی حد تک ریاست‘ معیشت اور معاشرتی تنظیم نو کا عمل‘ جو دہائیوں پہ محیط ہے‘ کے اثرات کو تسلیم کر لیا ہے۔ امن معاہدے کے جو خد و خال سامنے آئے ہیں‘ ان کے مطابق طالبان جنگ جاری نہیں رکھیں گے‘ افغانستان کے آئین کو تسلیم کریں گے؛ اگرچہ اس میں تبدیلیاں ممکن ہیں‘ اور وہ جمہوری انداز میں اقتدار کے حصول کی مسابقت میں شامل ہو سکتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور طالبان امن معاہدے کے بعد بڑا مسئلہ افغانستان کی موجودہ حکومت‘ طالبان اور شمالی علاقوں میں طاقت ور حلقوں کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہو گا۔ اس مرحلہ وار امن منصوبے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔ اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ افغانستان کے حکمران طبقوں اور با اثر افراد اور گروہوں کے لیے امن بھی جنگ کی طرح ایک آزمائش ہے۔ ہماری اور سب کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افغانستان میں پائیدار امن قائم ہو جائے۔ اس کے امکانات آج روشن تر نظر آتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved