تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     21-02-2020

سوشل میڈیا ریگولیشن

جو لوگ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے پر شور مچا رہے ہیں وہ صرف اتنا بتا دیں کہ اگر ان کے یا ان کی فیملی کے حوالے سے کوئی بھی شخص نازیبا الفاظ کہے‘ کوئی ذاتی ویڈیوز بنائے یا الزامات لگا کر کچھ بھی انٹرنیٹ پر رکھ دے تو وہ کہاں جائیں گے۔ ظاہر ہے وہ غصے میں آ جائیں گے اور سیدھا تھانے کا رخ کریں گے اور اگر تھانے میں یہ کہہ کر ان کی درخواست پر کارروائی نہ کی گئی کہ اس حوالے سے تو کوئی قانون ہی موجود نہیں اس لئے ہم آپ کی مدد نہیں کر سکتے تو ان کا کیا رسپانس ہو گا۔ سوشل میڈیا بذات خود اتنی بری چیز نہیں جتنا ہم نے اسے بنا دیا ہے۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک میں تو ایسا طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے کہ خدا کی پناہ۔ ایسے لڑکے لڑکیاں جو کوئی سیدھا کام نہیں کرنا چاہتے یا پڑھائی میں جن کا کبھی دل نہیں لگتا وہ سوشل میڈیا پر اکائونٹ بناتے ہیں اور اپنے پیج پر صارفین کی تعداد بڑھانے کیلئے عجیب و غریب حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ بہتر صورتحال ہے‘ بھارت میں تو اخلاقیات کی آخری حدیں بھی کب کی پار ہو چکی ہیں۔ بھارتی نوجوان اس حد تک گر چکے ہیں کہ وہ تعلیمی اداروں‘ پارکوں یا راہ چلتے نوجوانوں سے جنسی سوالات کرتے ہیں اور ویڈیو کے آخر میں کوئی ملتی جلتی بات کرکے کہتے ہیں کہ ہم تو فلاں چیز کے بارے میں پوچھ رہے تھے‘ آپ کا دھیان دوسری طرف کیوں چلا گیا؟ اس طرح کی چیزیں دیکھی بھی بہت زیادہ جا رہی ہیں جس کا یہ مطلب نہیں کہ دیکھنے والے زیادہ ہیں اس لئے یہ جائز ہو گئی۔ دیکھی تو پورن سائٹس بھی بہت زیادہ جاتی ہیں اس کا یہ مطلب کیسے ہو سکتا ہے کہ پورنوگرافی کو عام کر دیا جائے اور قانونی حیثیت دے دی جائے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سوشل میڈیا وغیرہ کا استعمال نوے فیصد نوجوان طبقہ کر رہا ہے جن کی عمریں چودہ سے چالیس برس تک ہیں۔ یہ نوجوان شارٹ کٹ کی تلاش میں ایسی ایسی حرکتیں کر رہے ہیں کہ جن سے ان کے پیج کے لائیکس میں تو اضافہ ہو جاتا ہے لیکن معاشرے میں جو گراوٹ آ رہی ہے اس کا کسی کو اندازہ نہیں۔ بھارتی نوجوانوں کی سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی حرکات پر مبنی ویڈیوز کے اثرات اب پاکستانی نوجوانوں میں بھی آنے لگے ہیں اور کچھ ایسی ویڈیوز حال ہی میں سامنے آئی ہیں جن میں ریٹنگ حاصل کرنے کیلئے غیراخلاقی حرکات سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا۔ یہ لوگ پرینکس کے نام پر لوگوں سے مذاق کرتے ہیں‘ چلتے چلتے کسی پر پانی یا کچرا پھینک دیتے ہیں‘ اچانک قریب آ کر کان پھاڑ دینے والا ہارن بجا دیتے ہیں‘ سر پر کپڑا ڈال کر مارنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر پولیس کی جعلی وردی پہن کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے شر سے پبلک مقامات‘ تفریحی پارکس حتیٰ کہ گھروں کے باہر سڑکیں اور فٹ پاتھ بھی محفوظ نہیں۔ آپ پتہ نہیں کن خیالوں میں جا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک یہ آپ پر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور بعد میں معذرت کرنے کی بجائے کیمرے کی جانب ہاتھ ہلانے کا کہتے ہیں اور لوگ نفسیاتی طور پر ان کی باتوں میں آ کر ہاتھ ہلا بھی دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا مرکزِ نگاہ کیوں بنتا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ اس سے ہونے والی آمدن‘ کم اخراجات اور کم وقت میں عالمگیر تشہیر ہے۔ یہ سارے کام کسی اور پلیٹ فارم پر ممکن نہیں۔ عام نوجوان یا تو فری لانسنگ کی طرف آ رہے ہیں یا پھر مجبوری میں چھوٹی موٹی نوکری پر گزارہ کر رہے ہیں۔ عام نوکریاں اس وقت ملک میں تو کیا پوری دنیا میں بھی موجود نہیں۔ جو لوگ پہلے سے نوکریوں پر لگے ہیں وہ چھوڑنے کو تیار نہیں کیونکہ آگے کہیں جانا خطرے سے خالی نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسے نوجوان بھی لاکھوں کما رہے ہیں‘ جنہیں عام طور پر دس بیس ہزار سے زیادہ کی نوکری نہیں مل سکتی۔ یہ نوجوان شرارتیں اور مذاق کرکے لوگوں کا دل بہلاتے ہیں‘ یوں ان کی ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں اور انہیں آمدن بھی ہو جاتی ہے؛ تاہم یہ کام ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ پچانوے فیصد لوگ ویسے بھی کیمرے کے سامنے آنے سے گھبراتے ہیں۔ ان لوگوں کو روایتی نوکری نہیں ملتی تو ان کے پاس بھی آ جا کے فری لانسنگ کا کام ہی رہ جاتا ہے‘ جو ایک طرح سے اپنے کاروبار کے مترادف ہے۔ آپ جتنا زیادہ کام کریں گے اتنا ہی زیادہ کما سکیں گے۔ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرتے ہوئے حکومت کو ایسے نوجوانوں کا خیال رکھنا چاہیے جو بغیر کسی شرارت کے سیدھے سادے انداز میں سوشل میڈیا یا فری لانسنگ ویب سائٹس پر کام کر رہے ہیں کیونکہ یہ لوگ نہ صرف ملک کیلئے زرمبادلہ کما رہے ہیں بلکہ اور لوگوں کو بھی روزگار دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سوشل میڈیا یا فری لانسنگ پر کام اتنا آسان نہیں‘ جتنا سمجھا جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس میں اگر آمدن ہو تو کافی معقول ہوتی ہے لیکن اس میں آپ کو اپنی نیند اور اپنی سوشل لائف پر بھی کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے اگر کوئی لوگو ڈیزائن کرنا ہے اور یہ کام چھ گھنٹے میں کرکے دینے کا وعدہ کیا ہے تو آپ کو اسے چھ گھنٹے میں ہی ڈلیور کرنا ہے بصورت دیگر آپ سے کوئی بھی دوبارہ کام نہیں کروائے گا۔ فری لانسنگ نوکری کی طرح ٹائم پاس کرنے سے نہیں ہوتی۔ جو لوگ عام نوکریاں کرنے اور صرف آٹھ نو گھنٹے دفتر میں پورے کرنے کے عادی ہیں‘ جو صرف یہ سمجھتے ہیں کہ وقت پر آ گئے اور وقت پر چلے گئے درمیان میں چار گھنٹے گپیں مار کر یا چائے وغیرہ پی کر گزار لئے ایسے لوگ فری لانسنگ میں بری طرح ناکام ہوتے ہیں۔ پھر ایک مرتبہ آپ کام کرنے لگتے ہیں تو ایک تسلسل درکار ہوتا ہے۔ آپ کو آرڈر ملتا ہے اور آپ کو گھر میں کوئی ضروری کام یا شادی وغیرہ پر جانا ہے تو آپ اسے کینسل نہیں کر سکتے۔ آپ کو ہر حال میں اسے پورا کرنا ہے تبھی جا کر آپ ڈالر کما سکتے ہیں۔ ڈالر کی قیمت اوپر جانے سے پورا ملک چیخنے لگتا ہے کیونکہ اس سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے؛ تاہم اس وقت ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے جو ڈالر کے اوپر جانے پر قہقہے اور چھلانگیں لگاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا کاروبار یا کام بیرون ملک سے وابستہ ہے۔ ایکسپورٹرز جو کپڑے یا دیگر اشیا بیرون ملک بھیجتے ہیں اور بدلے میں ڈالر وصول کرتے ہیں انہیں ڈالر کے اوپر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا‘ لیکن ان کے ساتھ ساتھ وہ فری لانسرز بھی ڈالر کے اوپر جانے پر خوش ہیں جنہیں بیرون ملک سے آمدن ہوتی ہے۔ ایک سال قبل وہ اگر ایک ماہ میں ہزار ڈالر کما رہے تھے اور انہیں اس کے بدلے ایک لاکھ دس ہزار مل رہے تھے تو اب انہیں ایک ہزار ڈالر کے عوض ڈیڑھ لاکھ روپے ملتے ہیں۔ فری لانسنگ میں پاکستان تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان فری لانسنگ کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر سے نکل کر تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ حکومت سوشل میڈیا کو اخلاقیات کے حوالے سے ضرور ریگولیٹ کرے لیکن اس کی زد میں ایسے نوجوان بالکل نہیں آنے چاہئیں جو انتہائی سخت محنت کے ساتھ فری لانسنگ کا کام کر رہے ہیں‘ جو فیس بک‘ ایمزون‘ یوٹیوب یا کسی اور پلیٹ فارم پر کام کرکے زرمبادلہ کما رہے ہیں اور جو کسی کی دل آزاری کا باعث نہیں بن رہے‘ انہیں حکومت کو مزید سہولتیں دینی چاہئیں تاکہ پاکستان فری لانسنگ میں دنیا میں پہلے نمبر پر آ سکے اور پاکستان کو زرمبادلہ کی خطیر رقم فری لانسنگ کی مد میں مل سکے۔ شرارتی لوگ اور کالی بھیڑیں ہر شعبے میں ہوتی ہیں‘ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس دو چار فیصد طبقے کی وجہ سے اس شعبے پر اتنی قدغنیں لگا دی جائیں کہ پچانوے فیصد درست کام کرنے والے لوگ بھی ملیامیٹ ہو جائیں۔ صارفین کو بھی کسی ایسی غیر اخلاقی‘ الزامات پر مبنی غیر مصدقہ ویڈیو‘ پوسٹ یا آڈیو آگے شیئر کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچنا چاہیے کیونکہ آج اگر ہم کسی کی غیر مصدقہ بات‘ الزام یا پوسٹ کو صرف چسکے یا مزے لینے کے لئے آگے بھیجتے ہیں تو یہ جرم تو ہے ہی لیکن کل کو ہم اپنے ہاتھوں سے کھودے گئے اس گڑھے میں خود بھی گر سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved