تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     21-02-2020

سرخیاں‘متن اور علی ارمان ؔکی تازہ غزل

جب چاہوں ‘ حکومت گرا دوں: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''جب چاہوں ‘ حکومت گرا دوں‘‘ بس ذرا موقعہ ملنے کی دیر ہے‘ جو ملنے ہی والا تھا کہ بدبخت اتحادیوں نے حکومت سے صلح کر لی اور ہماری امیدوں پر پانی پھر دیا اور یہ پانی سمندر کا پانی ہے‘ کیونکہ پینے کا صاف پانی تو کراچی میں کہیں دستیاب ہی نہیں ہے؛ البتہ قیمتاً خریدا جا سکتا ہے ‘کیونکہ مفت خوری بہت بُری عادت ہے اور ایک با حمیّت شہری مفتا لگانے کی کبھی کوشش نہیں کرتا اور جہاں مفت لنچ کا کہیں رواج نہیں ہے‘ اسی طرف مفت پانی کی حریصانہ روایت بھی ختم کر دی گئی ہے‘ بلکہ اکثر اوقات تو پانی قیمتاً بھی دستیاب نہیں ہوتا اور جفا کش عوام کو پانی کے بغیر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے‘ جبکہ سردی کے موسم میں غسل تو ویسے ہی نا ممکن ہو کر رہ جاتا ہے‘لہٰذا عوام الناس کو غسل وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے‘ صرف مٹی کا ایک ڈھیلا درکار ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران مافیا نے لاہور کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا: مریم اونگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران مافیا نے پاکستان کے دل لاہور کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا‘‘ اگرچہ یہ صوبائی مسئلہ ہے ‘لیکن سارے مسائل کی جڑ تو وزیر اعظم عمران خان ہی ہیں ‘جبکہ ہمارے دور میں صفائی کا یہ عالم تھا کہ بقول شاعر ع
منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ
بلکہ ہاتھ کی صفائی بھی اس نقطۂ عروج کو پہنچ چکی تھی کہ ایک ہاتھ کی کارکردگی کا دوسرے ہاتھ کو پتا ہی نہیں چلتا تھا اور نہ ہی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا تھا۔ اور ملک کی معیشت نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیئے تھے اور جو اب تک کھڑے ہیں اور حکومت جنہیں بٹھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے اور ہمارے قائدین لندن میں بیٹھے حکومت کی ان ناکام کوششوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں‘ کیونکہ وہ لطف اندوز ہونے کے لیے ہی لندن گئے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
عوام اس حکومت سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے: قمر زمان کائرہ
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عوام اس حکومت سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے‘‘اگرچہ عوام مونث نہیں‘ بلکہ مذکر ہے‘ تاہم میرا اشارہ خاتون عوام کی طرف تھا‘ جو کہ لیڈیز فرسٹ کے اصول کے مطابق بھی ترجیحی سلوک کی مستحق ہیں‘ خاص طور پر وہ غریب خواتین جو اعلیٰ گریڈ کے افسران کی بیگمات ہیں‘ جو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت اپنی غربت دور کرتی رہی ہیں‘ اس کے علاوہ ایان علی جیسی خاتون عوام‘ جن کی خدمات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اب ان شرفا کو اس پروگرام سے الگ کر کے ایک اور انتقامی کارروائی کی گئی ہے‘ جبکہ ان مسکینوں کی آہ ہی حکومت کو لے ڈوبے گی اور حکومت کو گرانے کی کوئی بھی کوشش کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ کیونکہ مکافات عمل کا اصول اپنی جگہ پر موجود ہے‘ جس طرح پیپلز پارٹی کم از کم اندرونِ سندھ کی حد تک ضرور موجود ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
رانا ثناء اللہ جیسے لوگ الزام لگاتے اور 
بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں: فیاض الحسن چوہان
صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''رانا ثناء اللہ جیسے لوگ الزام لگاتے اور بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں‘‘ حالانکہ تماشا کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیے‘ تا کہ تماشائیوں سے بچنے کیلئے بھاگنے کی خاطر تاخیر نہ ہو جائے‘ تاہم اپنے اپنے ذوق اور پسند کی بات ہے ‘ورنہ کچھ لیٹ کر بھی تماشا دیکھنے کے عادی ہیں۔ کبھی یہ شعر کہا تھا؎
چل بھی دیئے دکھلا کے تماشا تو ظفرؔ ہم
بیٹھے رہے تادیر تماشائی ہمارے
یعنی بیٹھ کر تماشہ دیکھنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ ناشتہ ختم ہو جانے کے باوجود الٹا یاد ہی نہیں رہتا‘ بلکہ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ تماشا چلتے پھرتے ہی دیکھنا چاہیے کہ اس سے خاصی ورزش بھی ہو جاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں علی ارمانؔ کی یہ تازہ غزل:
مجھ پہ کل یُوں وہ مہربان کھلا
جیسے ریشم کا کوئی تھان کھلا
مر چکی تھی ہوا سمندر کی
جب سفینے کا بادبان کھلا
دھوپ میری نمی چرا چکی تھی
جب مرے سر پہ سائبان کھلا
گر زمیں تنگ ہے تو اُڑنا سیکھ
ہے تیرے سر پہ آسمان کھلا
شامِ شہر یقیں طلوع ہوئی
اور میخانۂ و گُمان کھلا
تنگیٔ دل کا کچھ علاج کرو
لے کے کرنا ہے کیا مکان کھلا
جُزو میں کُل کی رونمائی ہوئی
گود میں گُل کی گلستان کھلا
کہیں آئندگان کی صحبت میں
مجھ پہ رازِ گزشتگان کھلا
مجھ سے باہر نکال کر سب کو
مجھ پہ یارِ براجمان کھلا
عقدۂ تشنگی علی ارمانؔ
عین دریا کے درمیان کھلا
آج کا مقطع
خود کھِلا غنچۂ لب اُس کا‘ ظفرؔ
یہ شگوفہ نہیں چھوڑا میں نے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved