تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     22-02-2020

جمہوریت کی واپسی ----یارِ من ترکی…(2)

جون 1997 میں، استنبول میں تین روزہ قیام کا بیشتر وقت، وزیر اعظم (نواز شریف) کی سرکاری مصروفیات کی نذر ہو گیا تھا۔ D-8 سمٹ کا شیڈول خاصا ٹائٹ تھا۔ وزیر اعظم کی سرکاری مصروفیات کی پریس کوریج سے کچھ وقت نکال کر ''تین کا ٹولہ‘‘ (حامد میر، پرویز بشیر اور ان سطور کا راقم) لیموزین پکڑتے اور ساتھ ہی واپسی کی فکر شروع ہو جاتی؛ چنانچہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار، بلیو مسجد اور دیگر تاریخی مقامات کی ایک نظر زیارت کا شرف ہی حاصل کر پائے۔
مارچ2010ء میں ہفتے بھر کا دورہ ''مطالعاتی‘‘ تھا، جس میں حالات و معاملات کو قریب سے (اور تفصیل سے) دیکھنے اور جانچنے کا موقع ملا۔ فتح اللہ گولن کی تحریک، وزیر اعظم طیب اردوان کی کولیشن پارٹنر تھی۔ اس کی ذیلی شاخوں میں ایک رومی فائونڈیشن نے اس مطالعاتی دورے کا اہتمام کیا تھا۔ (گولن تحریک طیب اردوان کے خلاف 15 جولائی2016 کی (ناکام) فوجی بغاوت کی ذمہ دار قرار پائی جس کے بعد اس سے وابستہ اداروں (اور افراد) کے خلاف کریک ڈائون ایک الگ کہانی ہے)۔
کولیشن پارٹنرشپ کے دنوں میں مختلف شعبوں میں اپنے اثر و نفوذ کا فروغ (کسی بھی نظریاتی تحریک کی طرح) گولن تحریک کا بھی ہدف تھا۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے اس کی توجہ کا خاص مرکز تھے۔ ان میں فاتح یونیورسٹی بھی تھی اور ''زمان‘‘ اخبار بھی۔ سلطان محمد فاتح کے نام پر یہ یونیورسٹی، بلا شبہ اپنی فیکلٹی اور دیگر سہولتوں کے اعتبار سے ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ تھی اور یہی کیفیت ''زمان‘‘ میں نظر آئی۔ ''زمان‘‘ کی پالیسی کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ ''کنزرویٹو/ پروگریسیو‘‘ ہے۔ ایڈیٹر کا کہنا تھا کہ اس جدید ترین عمارت کے اندر مسلمان دل اور دماغ رکھنے والے لوگ سرگرم ہیں جو تہذیبوں کے تصادم میں نہیں، تہذیبوں کی مفاہمت میں یقین رکھتے ہیں۔ ''زمان‘‘ کے علاوہ یہاں کے دیگر مین سٹریم میڈیا کا جائزہ لینے کا موقع بھی ملا۔ اس حوالے سے یہاں کے اصحاب علم و دانش سے بھی بات ہوئی، ان میں اخبار نویس بھی تھے، اساتذہ اور ریسرچ سکالرز بھی۔ عمومی تاثر یہ تھا کہ ترک میڈیا کا کردار بحیثیت مجموعی ذمہ دارانہ ہے۔ وہ اپنے قارئین اور ناظرین کو ہمہ وقت ہیجان اور اضطراب کا شکار نہیں کئے رکھتا۔ سوسائٹی میں تحمل، برداشت اور مسائل کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینے کا ماحول پیدا کرنا اس کے ایجنڈے کا بنیادی نکتہ ہے۔
استنبول میں ہمیں ترک پرچموں کی بہار نظر آئی، یہ ترک نیشنلزم کا اظہار تھا۔ معلوم ہوا کہ کچھ عرصہ قبل کرد باغیوں نے ترک پرچم نذرِ آتش کیا تھا جس کا جواب ترک عوام نے جا بجا اپنا قومی پرچم لہرا کر دیا۔
طیب اردوان کی زیر قیادت، ایک نیا ترکی ابھر رہا تھا۔ کہنے والے انہیں ترکی کا معمارِ ثانی بھی کہتے۔ سرد جنگ کے دنوں سے ترکی نیٹو میں امریکہ کا اتحادی چلا آ رہا تھا (رسمی حد تک یہ تعلق اب بھی موجود ہے) لیکن سوویت یونین کے انہدام (اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد) اب روس کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر تھا (ان دنوں باہم تجارت کا حجم 25 بلین ڈالر سالانہ تھا) تقریباً30 لاکھ روسی، سیاحت کے لیے ترکی کا رخ کرتے (سیاحت بھی ترکی کے زر مبادلہ کا اہم ذریعہ ہے)۔ طیب اردوان کی قیادت میں ترکی کا گروتھ ریٹ 8 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ عالمی کساد بازاری کے اس دور میں بھی یہ 7 فیصد تھا، یورپ کے دیگر ملکوں کی نسبت کہیں زیادہ۔ تب جرمنی کا گروتھ ریٹ دو، اڑھائی فیصد سے زیادہ نہیں تھا۔
ترکی میں 15 جولائی (2016) کی (ناکام) بغاوت کی مزاحمت کی کہانی بھی ولولہ انگیز ہے۔ جب ترک عوام اپنے لیڈر کی پکار پر گھروں سے نکل آئے اور ٹینکوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئے تھے۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں کی فائرنگ بھی انہیں خوف زدہ نہ کر سکی تھی۔ 
طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے رکن پارلیمنٹ مسٹر برہان کیا ترک، اس نا کام فوجی بغاوت کے دوسرے ہفتے لاہور میں تھے (وہ چوتھی بار ترک پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے) انہوں نے لاہور کی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(UET)سے انجینئرنگ کی جس کے بعد چار پانچ سال یہاں بطور انجینئر خدمات انجام دیں۔ برہان کی لاہور آمد پر پلڈاٹ والے احمد بلال محبوب نے عشائیے پر ان سے ملاقات کا اہتمام کیا۔ (احمد بلال بھی UET سے فارغ التحصیل تھے اور یہاں کی سٹوڈنٹ یونین کے صدر رہے تھے)مسٹر برہان 15 جولائی کی ناکام بغاوت کا احوال سنا رہے تھے۔ اپنے لیڈر کی پکار پر برہان بھی گھر سے نکل کر پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ تب سڑکوں پر دندناتے باغی ٹینکوں کے مقابل، یہ واقعی شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے والی بات تھی۔ یہ آئین، جمہوریت، اپنی پارٹی اور لیڈر کے ساتھ وفا کی آزمائش کا وقت تھاجس میں برہان پورے اترے۔ وفا شعار شریک حیات اور جان نثار بھائی بھی ان کے شانہ بشانہ تھے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے گرد ونواح میں تصادم کی کیفیت تھی۔ اپنے منتخب نمائندے کو، اپنے درمیان پا کر مزاحمت کا جذبہ دو چند ہو گیا تھا اور یہ صورتِ حال ٹینکوں میں موجود باغیوں کے حوصلے پست کرنے کا باعث تھی۔ برہان کو پارلیمنٹ ہائوس کے اندر داخل ہونے میں تقریباً سوا گھنٹہ لگ گیا۔ اس دوران جہازوں سے بم بھی برسائے گئے۔ گن شپ ہیلی کاپٹروں سے کی جانے والی فائرنگ اس کے علاوہ تھی۔ پارلیمنٹ کا بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔
برہان کے بقول! ایک کروڑ سے زائد عوام کی پُر جوش مزاحمت نے باغیوں کے حوصلے توڑ دیئے۔ ساڑھے دس بجے شب شروع ہونے والی بغاوت تین بجے صبح تک دم توڑ چکی تھی۔ اس میں عوام کی بہادری کے علاوہ قیادت کی جرأت اور جواں مردی نے بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
صدر اردوان چھٹیوں پر مرمریس (ازمیر) میں تھے۔ وزیر اعظم بھی استنبول آئے ہوئے تھے۔ باغیوں نے اردوان کے ہوٹل کو نشانہ بنایا لیکن وہ 15 منٹ پہلے وہاں سے نکل آئے تھے۔ دارالحکومت کی طرف پرواز کے دوران ہوائی جہازوں نے اردوان کے پائلٹ سے دریافت کیا: کیا یہ صدر کا جہاز ہے؟ پائلٹ نے حواس خطا نہ ہونے دیئے۔ بغاوت کے ہنگام، انقرہ کی طرف پرواز کا فیصلہ جرأت مندانہ تھا، صدر کی جرأت مندی نے پائلٹ کے حوصلے کو بھی دو چند کر دیا تھا۔ ''نہیں! یہ صدر کا نہیں، ٹرکش ایئر لائن کا مسافر طیارہ ہے‘‘ پائلٹ نے پرواز کا فرضی نمبر بھی بتا دیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن پر باغیوں کا قبضہ تھا جہاں سے انہوں نے ''انقلاب‘‘ کی کامیابی کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن صدر اردوان سی این این (ترک) کی خاتون اینکر کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
بغاوت کی ناکامی دنیا بھر میں جمہوریت پسندوں کے لیے مسرت کا باعث تھی لیکن اس کے بعد نافذ ہونے والی ایمرجنسی میں بعض اقدامات تشویش ناک بھی تھے۔ بنیادی حقوق معطل اور میڈیا سمیت بعض ادارے وسیع پیمانے پر کریک ڈائون کی زد میں تھے۔ مسٹر برہان کا کہنا تھا کہ یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں رہے گی اور ترکی معمول کی صورتِ حال کی طرف لوٹ آئے گا، تب ایک نیا آغاز ہو گا، نئی جمہوری پیش رفت کا آغاز۔ 
اور ترکی جمہوریت کی طرف لوٹ آیا، 31 مارچ 2019 کو لوکل باڈیز انتخابات میں، جناب طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انقرہ، استنبول اور ازمیر جیسے بڑے شہروں میں میئر کا الیکشن ہار گئی۔ یہ وہاں انتخابات کے آزادانہ منصفانہ انعقاد کا ثبوت تھا۔ 
کمال اتا ترک کے جدید ترکی میں جمہوریت (اور اسلام) پسندوں کو اس منزل تک پہنچنے میں بہت کٹھن مراحل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں ان کی ہمت و عزیمت کے ساتھ فہم و فراست، موقع شناسی اور دور اندیشی کا دخل بھی تھا۔ اس کا کچھ احوال آئندہ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved