انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد‘ نوازشریف نے جس تحمل‘ رواداری اور فراخ دلی کی جھلکیاں دکھائی ہیں‘ ان سے عام لوگ یہی اندازے لگا رہے ہیں کہ اس مرتبہ وہ ماضی جیسا رویہ اختیار نہیں کریں گے‘ جس کے تحت انہوں نے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں۔ میڈیا کے ساتھ سخت گیری کے مظاہرے کئے اور مخالفین کو سبق سکھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی طرف سے بعض فیصلوں کا خطرہ دیکھتے ہوئے‘ اپنے تحفظ کی خاطر‘ ججوں کی باہمی چپقلش سے فائدہ بھی اٹھا لیا۔ اس دور میں انہوں نے ’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہے‘‘ کے اصول پر حسب ضرورت عمل کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب پرویزمشرف نے برطرفی سے بچنے کے لئے چند جنرلوں کے ساتھ مل کر حکومت کے خلاف سازش کی اور نوازشریف کو برطرف کر کے انہیں اذیتیں پہنچائیں‘ تو ملک میں نتیجہ خیز احتجاج نہ ہو سکا۔ حد یہ تھی کہ جب بیگم کلثوم نواز نے تن تنہا سڑکوں پر نکل کر مظاہرے شروع کئے‘ تو عام لوگوں نے بے شک ان کا بھرپور ساتھ دیا لیکن ان کی پارٹی کے بیشتر قابل ذکر لیڈر‘ دوردور ہی رہے۔طویل جلاوطنی کے زمانے میں انہوں نے اپنے اقتدار کے دونوں ادوار پر غور و فکر کیا اور یقینی طور پر کچھ نتائج بھی اخذ کئے ہوں گے۔ متعدد انٹرویوز میں انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا اور پھر سعودی عرب میں ہی بے نظیر کے نمائندوں سے ملاقات کی ۔ جس میں انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ہم دونوں کو اپنے سابقہ طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے‘ بحالی جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنا چاہیے اور جمہوری نظام کو چلانے کے لئے بھی اپنے اختلافات کو حدود کے اندر رکھتے ہوئے‘ انہیں نفرت اور انتقام سے بچا کر ‘ آمریت کے لئے مواقع پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح کے خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے آگے چل کر لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے گئے۔ ماننا پڑے گا کہ اس شاندار مسودے کے بہت سے نکات پر دونوں طرف سے عمل بھی کیا گیا۔ نوازشریف نے مخلوط حکومت میں شمولیت بھی اختیار کی اور جمہوری نظام کو مل کر چلانے کی کوشش ہوتی رہی‘ جو مختلف وجوہ کی بنا پر سرے نہ چڑھی۔ دونوں فریقوں کے پاس اپنے اپنے حق میں دلائل موجود ہیں‘ جو وہ آج بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مل کر حکومت کرنے کا تجربہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد بھی نوازشریف نے میثاق جمہوریت کے ایک اصول پر سختی سے عمل کیا کہ منتخب حکومت کو اقتدار کی مدت پوری کرنے سے پہلے ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے۔ زرداری حکومت تیزی کے ساتھ عوامی اعتماد سے محروم ہوتی گئی ۔ جمہوریت مخالف قوتوںاور مایوس عناصر نے زرداری حکومت کو ختم کرنے کے لئے کافی جتن کئے۔ نوازشریف کو بارہا مدد کے لئے پکارا ۔ لیکن وہ کسی بھی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بننے پر آمادہ نہ ہوئے۔ مایوس ہو کر ان عناصر نے فوجی مداخلت کے لئے حالات پیدا کرنا چاہے اور نوازشریف کو ترغیب دی کہ وہ اس تبدیلی کی حمایت کرنے پر تیار ہو جائیں۔ انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ جواب میں انہیں مشتعل کرنے کے لئے الزام لگایا گیا کہ وہ اپوزیشن نہیں بلکہ ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ ہیں۔ درحقیقت وہ زرداری حکومت کو سہارا دے رہے ہیں۔ پھر ان کی جماعت کے اندر سے بھی‘ ان کی پالیسیوں پر بے اطمینانی کا اظہار کیا گیا۔ مگر نوازشریف نے کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ میں نے اس ثابت قدمی پر نوازشریف کے موقف کو ہمیشہ سراہا اور آج بھی مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اگر منتخب حکومت اور اداروں نے اپنی معینہ مدت پوری کی ہے‘ تو اس میں صدرزرداری کے ساتھ‘ نوازشریف کا بھی برابر کا حصہ ہے۔ ایک جمہوری حکومت سے ‘ دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار کا جو موقع مل رہا ہے‘ اس کا کریڈٹ ان دونوں لیڈروں کو جاتا ہے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد‘ نوازشریف نے جس طرح سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پیش کش کی۔ چھوٹے گروپوں کے ساتھ رابطے شروع کئے۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے‘ حکومت سازی کے لئے اس کا حق تسلیم کیا۔انتخابی مہم کے دوران شدید بدمزگی اور اختلافات کے باوجود ‘ عمران خان کی عیادت کے لئے پہلے شہبازشریف اور پھر نوازشریف ‘ شوکت خانم ہسپتال گئے۔ عمران سے ملاقات کے بعد نوازشریف نے انتخابی مہم کی بدمزگیاں ختم کر کے‘ دوستانہ میچ کھیلنے کی بات کی۔ اس سے بھی اندازہ ہوا کہ وہ مفاہمت کے جذبے سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ روز چینی وزیراعظم کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کے موقع پر انہوں نے صدر زرداری سے علیحدگی میں ملاقات کر کے خیرسگالی کا اظہار کیا۔ ان سب باتوں سے یہی پتہ چل رہا ہے کہ وہ اس مرتبہ ایک مختلف سیاستدان کی حیثیت میں سامنے آئیں گے اور ملک کو ایک انتظامی سربراہ ہی نہیں بلکہ ایک مدبر کی قیادت بھی مل جائے گی۔ لیکن ایک چھوٹی سی خبر نے مجھے چونکا دیا۔ خبر یہ ہے کہ نوازشریف اپنی موٹر میں بیٹھ کر چک شہزاد گئے اور وہاں انہوں نے پرویزمشرف کے فارم ہائوس کی بلند و بالا دیواروں اور اس کے دروازے پر کھڑے ہوئے جیل کے پہریداروں کو دیکھا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بظاہر ان کے وہاں جانے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ وہ پرویزمشرف کے فارم ہائوس سے ‘ جو ایک سب جیل بن چکا ہے ‘ گزرتے ہوئے آگے گئے اور کسی دوسرے فارم ہائوس کے گیٹ سے واپس مڑ کر پھر پرویزمشرف کے فارم ہائوس کی دیواروں کو دیکھتے ہوئے واپس چلے گئے۔ میں نہیں جانتا اس کا مقصد کیا تھا؟ لیکن اگر اس کا مقصد یہ تھا کہ انہیں برطرفی کے بعد تاریک کمروں میں بند رکھنے ‘ اذیت ناک کال کوٹھڑیوں میں قید کرنے اور ہتھکڑیاں لگانے والے شخص کو بے بسی کی عبرتناک حالت میں‘ ایک نظر دیکھنا مطلوب تھا‘ تو اسے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ اس مدبر کے شایان شان نہیں‘ جو عوام نوازشریف کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ خود کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی ذاتی تکلیفوں اور اذیتوں کو بھولتے ہوئے پرویزمشرف کو معاف کر دیا ہے۔ لیکن ملک و قوم کے خلاف اس کے جرائم پر فیصلہ قانون دے گا۔ ان کے اس بیان کی روشنی میں بھی اپنے ہی گھر میں قید ہوئے پڑے پرویزمشرف کی بے بسی کا نظارہ‘ عظیم شخصیتوں کو زیب نہیں دیتا۔ اس منظر کو دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ انتخابات کے بعد سے اب تک ‘ جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں‘ کیا وہ عارضی تو نہیں؟ کیا تیسری مرتبہ اقتدار میں نوازشریف کی پوزیشن مستحکم ہونے کے بعد‘ ہمیں وہی کچھ تو دیکھنے کے لئے نہیں ملے گا‘ جو ہم 90ء کے عشرے میں دیکھ چکے ہیں؟ کیا ایک بار پھر وزیراعظم نوازشریف ‘ سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کے ساتھ اسی نوعیت کے مسائل پیدا کر بیٹھیں گے‘ جن کا ہم مشاہدہ کر چکے ہیں؟ خدانخواستہ اگر ایسا ہوا‘ تو یہ ہم سب کی بدقسمتی ہو گی۔ آج ملک اس حالت میں نہیں کہ مختلف اداروں کے درمیان تصادم کا متحمل ہو سکے۔ اداروں کے درمیان طاقتوں کا وہ عدم توازن بھی باقی نہیں ‘جو ماضی میں پایا جاتا تھا۔اس دور کی عدلیہ بے بس ہوا کرتی تھی جبکہ آج کی عدلیہ اپنے آئینی اختیارات اور طاقت کو اعتماد سے استعمال کر رہی ہے۔ میڈیا بھی ماضی کی طرح نہیں رہ گیا۔ آج اس کے اعتماد اور طاقت میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور عوام بھی ریاستی اداروں کو باہم برسرپیکار دیکھنا برداشت نہیں کریں گے۔ خدا کرے میرے یہ خدشات غلط ثابت ہوں اور نوازشریف کا حقیقی روپ وہی ہو‘ جو ہم انتخابات میں کامیابی کے بعد دیکھ رہے ہیں۔ ماضی کے سارے شکوے‘ شکایتیں اور تکالیف کو بھول جانے والا نوازشریف اور مفاہمت کے جذبے کے تحت آگے بڑھنے کا عزم رکھنے والا نوازشریف۔وہ نوازشریف جو ملک کی تعمیروترقی کے لئے انتھک کام کرنے کے عزائم رکھتا ہے اور صلاحیت بھی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved