آپ نے کھلتے ہوئے پھول کی تصویردیکھی ہوگی ۔ا یک ایسے چاندی کے پھول کا تصور کریں جس کی 27تر و تازہ پتّیاں ہوں جو تین تین کے جھرمٹوں میں مل کر نو پہلو ؤں والا پھول بناتی ہوں۔پھول بھی سنگ و خشت کا۔لیکن ایسا شاداب دکھائی دینے والا کہ شاید کوئی اور مثال ذہن میں نہ آئے ۔
لوٹس ٹیمپل دہلی ایک ایسی عمارت ہے۔جسے ایک بار دیکھ لو تو اس کی تصویر ذہن سے مٹنی آسان نہیں اور میں نے تو اسے کم ازکم دو بار دیکھا۔اس لیے میری یادوں میں یہ نقرئی پنکھڑیوں والی یہ عمارت اسی طرح محفوظ ہے جیسے کل کی بات ہو۔2001ء کے سروے کے مطابق یہ دنیا کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی عمارت ہے ۔لوٹس ٹیمپل بہائی مذہب کی عبادت گاہ ہے ۔عبادت گاہوں کے ساتھ تقدس کا پہلو ہر طرح جڑا رہتا ہے۔لیکن معاف کیجیے گا‘دور سے دیکھنے ‘محسوس کرنے ‘داخل ہونے اور لمس کا ذائقہ حاصل کرنے کے بعدکم کم ہی عبادت گاہیں ایسی ہوتی ہیں جن میں ایک کیفیت غلاف کی طرح آپ کو ڈھانپ لے۔یہ ضروری نہیں کہ آپ اس مذہب یا اس مسلک سے تعلق رکھتے ہوں۔ کتنے ہی واقعات ہیں جن میں کسی غیر مسلم کے دل پر اذان کی آواز اور الفاظ نے اس طرح اثر کیا کہ بے اختیار اس کے آنسو نکل آئے۔ جبکہ وہ نہ ان کے معنی جانتا تھا نہ وہ لفظ سمجھ میں آتے تھے۔
کم کم عمارتیں ایسی ہوتی ہیں جو دور سے اپنی طرف کھینچتی ہوں اور قریب جاکران کے دل میں اتریں تو وہ آپ کے دل میں اتر جائیں۔ اینٹ پتھر کا یہ پھول ایسی ہی عمارت ہے ۔کسی حد تک ڈیزائن میں اس کی مماثلت سڈنی‘ آسٹریلیاکے مشہور زمانہ اوپرا ہاؤس سے ہے۔مجھے اوپرا ہاؤس بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔کھلے بادبان والی کشتیوں جیسی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہے۔لیکن سبک پن اور نزاکت میں لوٹس ٹیمپل مبہوت کن ہے ۔کنول کا پھول بھی پانی میں اتنی خوبصورتی سے نہیں کھلتا ہوگا جیسے 9تالابوں کے درمیان یہ عمارت کھل اٹھی ہے۔اور پھر خاموشی کی وہ کیفیت ۔دل میں کیا کوئی گفتگو اترتی ہوگی جیسے یہ سناٹا اترتا ہے۔
بہا پور‘اوکھلا‘نئی دہلی میں واقع بہائی مذہب کی یہ عبادت گاہ 26ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس کے قریب کالی دیوی کے نام سے منسوب ایک قدیم مندر کالکا جی بھی واقع ہے ۔لوٹس ٹیمپل کے لیے آپ گاڑی پارکنگ کے حصے سے ایک بڑے‘حسین ‘سبزہ زار میں داخل ہوتے ہیں جس میں کافی دور سبزہ زار کے آخری سرے پر ایک بلند چبوترے پر یہ کنول کا پھول نصب ہے ۔ دھوپ میں چاندی کی طرح چمکتی اس کی پنکھڑیاں توجہ کسی اور طرف جانے نہیں دیتیں ۔ جیسے جیسے آپ اس کے قریب ہوتے ہیں ‘یہ آپ کو اسیر کرتی جاتی ہے ۔آپ سبزہ زار سے ایک بڑے تالاب کے پل سے اس چبوترے پر پہنچتے ہیں جہاں پہنچنے کے بعد آپ ان عظیم پنکھڑیوں کے سائے میں آجاتے ہیں جواپنی بلندی اور بڑائی کے باوجود نزاکت میں کمی کا احساس نہیں ہونے دیتیں ۔ میرے دوست اور اعلیٰ غزل گو اکبر معصوم مرحوم نے کہا تھا نا؎
کر رہا ہوں میں ایک پھول پہ کام
روز اک پنکھڑی بناتا ہوں
بس وہ شعریہاں یاد آجاتا ہے ۔ایرانی معمار فری بورز صاحبا سے 1976ء میں اس عبادت گاہ کا ڈیزائن بنانے کے لیے رابطہ کیا گیا۔اس نے یہ منفرد ڈیزائن تخلیق کیا اور جب ان پنکھڑیوں پر مسلسل کام کرنے کے بعد دسمبر 1986ء میں یہ عمارت عام لوگوں کے لیے کھولی گئی تو یہ ایک ایسے تعمیری شاہکار کی صورت تھی جسے مسلسل بہت سے بین الاقوامی ایوارڈز ملے ۔نو پہلو والے اس پھول کے40فٹ بلند مرکزی ہال میں آپ داخل ہوتے ہیں۔1300لوگوں کے بیٹھنے اور 2500 افراد کے سمانے کی وسعت ہے ۔اور ایک سکوت آپ کو غلاف کی طرح لپیٹ لیتا ہے۔ داخلے کے 9 دروازے ہیں ۔ 9 کے عدد کو بہائی مذہب میں بہت اہمیت حاصل ہے ۔ ان9 دروازوں کے باہر 9تالاب موجود ہیں جن میں اس پھول کا عکس جھلملاتا ہے ۔
بہائی تعلیمات کے مطابق تمام مذاہب کے افراد یہاں اجتماع کرسکتے ہیں اور عبادت کرسکتے ہیں ۔مذہب‘جنس اور دیگر تحفظات کے بغیر کوئی بھی فرد لوٹس ٹیمپل میں آسکتا ہے۔بلکہ بہائی مذہب کی کسی بھی عبادت گاہ میں ۔مزید منفرد بات یہ کہ کسی بھی مذہب اور کسی بھی زبان کی الہامی تحریریں یہاں پڑھی جاسکتی ہیں ۔لیکن خطبات اور لیکچرز کی اجازت نہیں ۔نیز فنڈ ریزنگ اجتماع‘موسیقی کے آلات وغیرہ کی اجازت نہیں ۔ لوٹس ٹیمپل کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ اس کی ضرورت کے 500کلو واٹ میں سے 120کلو واٹ شمسی توانائی سے حاصل ہوتے ہیں؛ چنانچہ دہلی کی یہ پہلی عمارت تھی جس نے شمسی توانائی سے اپنی بجلی حاصل کی ۔
ہم ایک سکوت کے ساتھ اس ہال میں داخل ہوئے اور جب تک یہاں موجود رہے ‘خامشی نے اپنا کلام جاری رکھا۔یہاں آکر سکوت کی طاقت پتہ چلتی ہے ۔سیاح خود بھی خاموشی کے اس باریک حریری پردے کا احترام کرتے ہیں ۔ایک بھری پری عمارت میں سینکڑوں سیاح موجود ہوں اور خامشی نہیں مکمل خامشی کے ساتھ موجود ہوں ‘یہ کم کم ہوتا ہے ۔سچ بات یہ ہے کہ دل نہیں چاہتا تھا کہ ہمراہیوں سے بھی کوئی بات کی جائے ؎
ماورائے سخن بھی ہے اک بات
بات یہ ہے کہ گفتگو نہ کریں
لوٹس ٹیمپل سے نکلا تو ابھی رات کے کھانے میں کچھ وقت باقی تھا۔میں نے ایک نظر کالکا جی کا قدیم مندر دیکھاجو قریب ہی واقع تھا۔پھر کناٹ پیلس کے پر رونق علاقے میں بازاردیکھا۔گہما گہمی ‘رونق‘روشنیاں اور دکانیں ۔ زیادہ دکانیں سکھوں کی دکھائی دیں‘ ویسے بھی میرا تاثر یہ ہے کہ دہلی سمیت ہندوستان کے کافی بڑے شہروں میں سکھ برادری کاروبار پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں ‘یہ ایک مکمل اور الگ موضوع ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ اس میں سکھ برادری کے اخلاق اور دیانت کابھی بڑا دخل ہے جو ان کی کاروباری ساکھ بنائے رکھتا ہے۔میں نے منصور کی فیملی اور زنیرہ کے لیے مغلیہ تاریخ پر ایک دو کتابیں خریدیں ۔لاہور میں اپنی فیملی کے لیے چند تحائف لیے‘لیکن ایک چپ ‘ایک خاموشی ‘ایک اداسی میرے اندر صحرا کی طرح ریت کے ٹیلے ادھر سے ادھر کیے جارہی تھی ۔یہ لوٹس ٹیمپل کا اثر تھا یا اجنبی دوستوں سے پھر نہ ملنے کا دکھ۔کچھ پتہ نہیں ۔پتہ ہے تو یہ کہ مجھ میں کچھ ٹوٹ کر بکھرا ہوا تھا؎
لیکن مری کیفیت عجب ہے
اک درد ہے اور بے سبب ہے
جی درد سے بھر گیا ہو جیسے
شیشہ سا بکھر گیا ہو جیسے
شام کے وقت میں جب مقررہ ریسٹورنٹ پر پہنچا جہاں منصور خان کے گھرانے سے ملاقات ہونی تھی تو میں اسی کیفیت کے حصار میں تھا۔لیکن منصور اور زنیرہ کی بذلہ سنجی نے اس میں پے در پے شگاف ڈالنے شروع کردئیے۔
اس ریسٹورنٹ کی تاریخی حیثیت کے بارے میں بھی کچھ ارشاد ہو۔زنیرہ نے جملہ پھینکا۔اس کی تاریخی حیثیت آج کے دن سے شروع ہوئی ہے جب سعود عثمانی نے اس میں قدم رنجہ فرمایا۔میں نے تحقیقی غور و فکر کے انداز میں جواب دیا۔چٹپٹے فقروں کے ساتھ ایک بار پھر ملاقات شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی ۔ پر تکلف کھانے بہت مزے دار تھے۔منصور نے نئی دہلی کے اس ریسٹورنٹ کا انتخاب بالکل درست کیا تھا۔نام یاد نہیں لیکن وہ نیم روشن گوشہ ابھی تک دل میں روشن ہے جہاں مدھر آواز میں ایک گیت بجتا تھا اور سرخ سنہری مچھلیاں شیشے کی دیوار کے ادھر تیرتی تھیں۔زنیرہ نے تجویز پیش کی کہ سب مل کر آگرہ چلتے ہیں ۔وہ میری طرح ایک بار تاج محل دیکھ چکی تھی لیکن دہلی سے آگرہ تک کے ایک ساتھ سفر کا خیال اس کی اصل خواہش تھی۔ میں اگر چہ آگرہ ایک بار ہو آیا تھا لیکن یہ خوب صورت خیال مجھے بھی اُکسا رہا تھا۔صرف مسئلہ یہ تھا کہ اس خیال کے لیے وقت کی گنجائش نکلنا مشکل تھا۔سو اسے رد کیے بغیر چارہ نہ تھا۔
ہم کتنے گھنٹے وہاں بیٹھے رہے ۔ کتنی باتیں کیں ۔کتنی دیر قریب کی ایک سنسان سڑک پر چہل قدمی کی ۔لیکن اتنے گھنٹے جیسے منٹوں میں ہوا ہوگئے ۔جب منصور نے مجھے میرے ہوٹل پر اتارا توایک چپ سب کو لگ چکی تھی ۔صحرا سب کے دلوں میں ریت کے ٹیلے ادھر سے ادھر سے پٹخ رہا تھا۔
کچھ ملاقاتیں جدائی کی طرح ہوتی ہیں ۔خراشیں ڈال کر گزرتی ہیں ۔ یہ ملاقات اور یہ جدائی ایسی ہی سینہ خراش تھی ۔یہ فیصلہ ہی نہیں ہوسکاکہ ملاقات کو یاد رکھوں یا جدائی کو۔
بہا پور‘اوکھلا‘نئی دہلی میں واقع بہائی مذہب کی یہ عبادت گاہ 26ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس کے قریب کالی دیوی کا مندر کالکا جی بھی واقع ہے۔ لوٹس ٹیمپل کیلئے آپ گاڑی پارکنگ کے حصے سے ایک بڑے‘ حسین ‘سبزہ زار میں داخل ہوتے ہیں جس میں کافی دور سبزہ زار کے آخری سرے پر ایک بلند چبوترے پر یہ کنول کا پھول نصب ہے ۔