تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-02-2020

آج صرف ڈیزرٹ ریلی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے

چولستان ڈیزرٹ ریلی عموماً ہر سال فروری کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر منعقد ہوتی ہے۔ اس سال فروری کی یکم تاریخ کو ہفتہ تھا اور پہلا ہفتہ محض دو دن پر مشتمل تھا اس لیے دوسرے کے بجائے تیسرے ہفتہ کے اختتام پر اس ریلی کا فائنل تھا۔ فائنل مرحلہ آخری دن یعنی اتوار کو ہوتا ہے اور باقی شیڈول اسی کے مطابق طے کیا جاتا ہے۔ گاڑیوں کی رجسٹریشن آن لائن ہوتی ہے۔ جمعرات سے باقاعدہ سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں اور کوالیفائنگ رائونڈ ہوتا ہے۔ تین کلومیٹر کے ٹریک پر جیپ دوڑانے والے تمام ڈرائیورز مختصر سی دوڑ لگاتے ہیں اور اس تین کلومیٹر کی دوڑ مکمل کرنے میں جو وقت لگتا ہے اس حساب سے اول سے لے کر آخری ڈرائیور تک کی ایک فہرست بن جاتی ہے اور اصل دوڑ اسی ترتیب کے مطابق ہوتی ہے۔ پہلے نمبر پر آنے والا ڈرائیور اگلے روز سب سے پہلے روانہ ہوتا ہے اور آخر میں آنے والا سب سے آخر میں۔ ہر ڈرائیور کے درمیان تین منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ جمعہ کے روز تیار شدہ (Prepared) گاڑیوں کی دوڑ کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ ہفتے والے روز سادہ گاڑیوں (Stock) کی اور خواتین کی دوڑ ہوتی ہے۔ اتوار کو، یعنی آخری روز تیار شدہ گاڑیوں کا دوسرا اور آخری مرحلہ ہوتا ہے۔ اسی شام تقسیم انعامات ہوتی ہے اور باقاعدہ طور پر چار روزہ یہ میلہ اختتام کو پہنچتا ہے۔
اس ایونٹ کا آغاز 1995ء میں ہوا تھا۔ یہ پہلی چولستان ڈیزرٹ ریلی تھی۔ کراچی کے رہائشی آغا توصیف نے اس سلسلے میں پہلی بار قلعہ دراوڑ میں اس دوڑ کا آغاز کیا۔ اس کے لیے مارون گولڈ والوں نے سپانسرشپ فراہم کی۔ اگلے سال بھی یہ ریلی انہی لوگوں نے کروائی۔ اس کے بعد کئی سال کا وقفہ رہا اور باقاعدگی برقرار نہ رہ سکی۔ 2005ء میں اس دوڑ کا انتظام و انصرام ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (TDCP) نے سنبھال لیا۔ درمیان میں شاید ایک آدھ بار یہ ریلی منعقد نہ ہو سکی۔ اس ریلی کے حوالے سے نادر مگسی نے ملک کے طول و عرض میں ایک شاندار اور بہترین ڈرائیور کے حوالے سے شہرت حاصل کی۔ گزشتہ چار سال سے نادر مگسی نے اس دوڑ میں پروفیشنل کلاس میں تیار شدہ گاڑی (prepared vehicles) کی ''اے‘‘ کیٹیگری میں اول آ کر اپنا ریکارڈ خود ہی بہتر کیا ہے۔ وہ پندرہ میں سے بارہ دوڑیں جیت چکا ہے۔ سب سے اہم کیٹیگری وہی ہے۔ اس ریلی میں حصہ لینے والی گاڑیوں کی بنیادی طور پر نو کیٹیگریز ہیں۔
اس کی بنیادی طور پر تین کلاسیں ہیں۔ تیار شدہ گاڑی کی کلاس۔ سادہ گاڑی کی کلاس اور خواتین کی کلاس۔ تیار شدہ اور سادہ گاڑیوں کی کلاس میں ہر ایک میں چار کیٹیگریز ہیں۔ اے، بی، سی اور ڈی کیٹیگری۔ ہر کیٹیگری گاڑیوں کی پاور یعنی سی سی کے مطابق ہے۔ تیار شدہ گاڑیوں سے مراد ایسی گاڑیاں ہیں جو سی سی کے اعتبار سے تو بنیادی طور پر اے، سے ڈی کیٹیگری میں منقسم ہیں، لیکن بے شمار دیگر تبدیلیوں اور ترمیموں کے ذریعے اسے بہت بہتر کر لیا جاتا ہے۔ شاک، سسپنشن، فیول پمپ، ٹربو سسٹم اور دیگر بے تحاشا اضافوں کے باعث اس کیٹیگری کی گاڑیاں عام گاڑی کے مقابلے میں یکسر تبدیل ہوتی ہیں۔ مزید برآں ان گاڑیوں کا وزن کم کرنے کی غرض سے ان کے باڈی کے کئی ایسے حصے جن کی ضرورت نہیں ہوتی، اتار دیئے جاتے ہیں۔ ہر گاڑی میں ایک ڈرائیور اور ایک کو ڈرائیور (Co-Driver) ہوتا ہے۔ کو ڈرائیور عام طور پر نیوی گیٹر کے فرائض سر انجام دیتا ہے۔ ہر گاڑی کے اندر سٹیل کے سیم لیس پائپ سے بنا ہوا حفاظتی پنجرہ لگانا اور مخصوص حفاظتی بیلٹس لگانا لازمی ہے تاکہ حادثے کی صورت میں جانی نقصان کا اندیشہ کم سے کم کیا جا سکے۔
تیارشدہ اور سادہ گاڑیوں کی ہر کلاس میں پٹرول اور ڈیزل گاڑیوں کو علیحدہ علیحدہ سی سی کے مطابق ان کی کیٹیگری میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ تیار شدہ گاڑیوں میں ڈی کیٹیگری کی گاڑیوں کی حد 1800 سی سی ہوتی ہے۔ سی کیٹیگری میں حصہ لینے والی پٹرول گاڑیوں کی پاور 1801 سے لے کر 2700 سی سی تک ہوتی ہے۔ بی کیٹیگری 2701 سے لے کر 3400 سی سی تک اور اے کیٹیگری 3401 سی سی سے لے کر لامحدود پاور تک ہوتی ہے۔ ڈیزل کی کئی کیٹیگریز میں پٹرول گاڑیوں کی نسبت سو سی سی کے قریب اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ 
یہ دوڑ قلعہ دراوڑ سے پانچ سات کلومیٹر پہلے ''دل وش سٹیڈیم‘‘ سے شروع کی جاتی ہے۔ پروفیشنل کلاس میں پہلا مرحلہ 245 اور دوسرا مرحلہ 225 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ پہلا مرحلہ ضلع بہاولپور اور دوسرے مرحلہ کا بیشتر حصہ ضلع بہاولنگر میں ہے۔ یہ سارا ٹریک صحرائے چولستان میں ہے۔ چولستان یعنی وسیب کی روہی۔ پہلے مرحلے کا روٹ کنڈی والا، بھانو والا، اکمل والا، سوڈکا چوک، گھڑمبی، بجنوٹ، بلّوٹا، مسووالی، رسول سر، قلعہ خان گڑھ، مامدی والا، بھانووالا اور دراوڑ تک ہے۔ دوسرا مرحلہ دل وش سٹیڈیم سے شروع ہوتا ہے۔ اندر کی بات تو یہ ہے کہ یہ سٹارٹنگ پوائنٹ جعلی ہے اور اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا اژدھام، موٹرسائیکل اور جیپ سوار تماشائیوں کی جانب سے ٹریک میں دخل اندازی اور دراندازی ہے‘ جس کے باعث اصل سٹارٹنگ پوائنٹ صحرا کے اندر پچیس تیس کلومیٹر کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ شیخان والی، مندووالا، ٹھل والا، گھوڑے والا، قلعہ جام گڑھ اور پھر قلعہ موج گڑھ سے ہوتا ہوا دوبارہ شیخاں والی اور پھر فنش پوائنٹ پر ختم ہوتا ہے۔ قریب 500 کلومیٹر کے اس ٹریک میں ریس ٹریک کی لمبائی چار سو ستر کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ اس بار اول آنے والے نادر مگسی نے یہ فاصلہ چار گھنٹے اور اٹھائیس منٹ میں طے کیا تھا۔
قارئین! میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو شاید میری یہ تفصیلات غیرضروری محسوس ہوں مگر میں کالم کے عنوان میں ہی آپ کو خبردار کرچکا ہوں کہ آج کا یہ کالم صرف اور صرف ڈیزرٹ ریلی کے شوقین حضرات کے لیے ہے۔ اگر آپ دلچسپی نہ ہونے کے باوجود یہ کالم پڑھ رہے ہیں تو اس بوریت کی ذمہ داری آپ بہر حال مجھ پر نہیں ڈال سکتے۔ کسی دن ایسا بھی ہوتا ہے کہ کالم لکھنے والا صرف اپنے لیے کالم لکھتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی سمجھیں۔ آج کا کالم میں نے اپنے لیے اور ریلی سے دلچسپی رکھنے اور محبت کرنے والوں کے لیے لکھا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر چولستان میں خاکوانی برادران (جو درجہ بدرجہ اس طرح ہیں کہ اطہر خاکوانی میرا دوست ہے اور اس کے دونوں چھوٹے بھائی انس خاکوانی اور اویس خاکوانی میرے چھوٹے بھائیوں جیسے ہیں) اس قدر محبت بھرا اہتمام نہ کرتے تو شاید دو تین بار جانے سے زیادہ ہمت نہ کرتا مگر یہ دوستوں کی محبت اور مہمانداری کا کرشمہ ہے کہ میں گزشتہ دو عشروں سے ایک چھوٹا سا بیگ اٹھاتا ہوں اور قلعہ دراوڑ کے سائے میں پہنچ جاتا ہوں۔ وگرنہ لوگ وہاں رات گزرنے کے لیے ٹینٹ اور سلیپنگ بیگ سے لے کر ہروہ چیز ہمراہ اٹھا کر جاتے ہیں‘ جس کی ضرورت کا محض امکان بھی ہو سکتا ہے مگر ان مہمان نواز دوستوں کے طفیل میں جو بیگ اپنے ساتھ لے کر جاتا ہوں اس میں ایک آدھ جیکٹ، ایک ٹی شرٹ اور پاجامہ، دوائوں کا ڈسپنسر، ایک فالتو کپڑوں کا جوڑا اور ٹوتھ پیسٹ برش ہوتا ہے۔ وہاں پر دو عشروں سے کیمپ لگانے میں مہارت رکھنے والے انس خاکوانی کی انتظامی صلاحیتوں کے طفیل ہروہ چیز دستیاب ہے ‘جس کا محض امکانی استعمال گمان میں آ سکتا ہے۔ گزشتہ سال سے پہلے تک انس خاکوانی کی ذمہ داری دُہری تھی۔ وہ تیارشدہ گاڑیوں کی کلاس میں اے کیٹیگری میں جیب بھی دوڑاتا تھا اور کیمپ کے انتظامی معاملات بھی چلاتا تھا‘ لیکن گزشتہ سال سے وہ صرف انتظامی معاملات کی نگرانی کر رہا ہے۔ خدا جانے کیا معاملہ ہے کہ اب وہ جیب دوڑانے سے احتراز کر رہا ہے۔ ہمارا کیمپ ایک شاندار جیپ ریسر سے محروم ہو گیا ہے۔ مجھے امید ہے میں اسے اگلے سال جیپ دوڑانے کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہو جائوں گا۔ دیکھیں کیا بنتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved