تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     23-02-2020

راستے تو سب کھل چکے ہیں!

پچھلے پندرہ برس کے طویل عرصے میں پاکستان امریکہ کی جانب سے دبائو میں رہا ہے۔ اس دوران نہ صرف ''کچھ اور کرو!‘‘ (Do More) کا ورد روزانہ کی بنیاد پر اس سب سے بڑی عالمی طاقت کے ہر نوع کے نمائندوں کی زبان پہ جاری تھا‘ بلکہ مغربی ذرائع ابلاغ اور مقامی گماشتوں کو ملک کے خلاف گوناگوں منفی پروپیگنڈا کرنے اور نفرت آمیز لیبل چسپاں کرنے میں بھی مصروف رکھا گیا۔ بد قسمتی سے ہمارے اندر ہی ''مفکرین‘‘ کا ایک ایسا طبقہ ابھر آیا‘ جو خود منفی سوچ کا شکار اور کچھ نظریاتی ابہام اور خود شکنی کا مارا ہوا تھا۔ وہ پاکستان کے خلاف تزویراتی جارحیت کے نئے انداز کو بھی نہ سمجھ سکا۔ بھارت نے‘ جو ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتا ہے کہ پاکستان کو کیسے اندر سے اور بیرونی محاذ آرائی اور اتحادوں کے ذریعے کمزور کیا جائے‘ ہمارے مغربی حلیفوں کے ہمارے خلاف بیانیے سے خوب فائدہ اٹھایا۔ بجائے اس کے کہ ہمارے اندر مکالمہ ہوتا کہ ہماری افغانستان کے بارے میں کیا پالیسی ہے اور ہم امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے اثرات سے اپنے آپ کو کس طرح محفوظ کر سکتے ہیں‘ ہم نے اپنے آپ کو ہی لتاڑنا شروع کر دیا۔ تاثر یہ پیدا کیا گیا کہ افغانستان کے اندر چالیس ملکوں کی فوجوں کی ناکامی کی بنیادی وجہ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی حمایت ہے۔ اس نوعیت کا بیانیہ کشمیر کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں اور دنیا بھر میں غالب رہا‘ کہ ہماری مداخلت سے ہی کشمیری بھارت کے خلاف تحریک چلاتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ کشمیر ہو یا افغانستان حقائق کچھ اور رہے ہیں‘ اور سادگی سے آپ ان پیچیدہ امور کے بارے میں حتمی نتیجہ نہیں نکال سکتے۔
افغانستان کے بارے میں ہمارا موقف شروع سے یہ تھا کہ جنگ سے مسائل حل نہیں ہوں گے‘ امریکہ کو طالبان سے مذاکرات کا راستہ تلاش کرنا چاہئے‘ اور یہ کہ انہیں بھی افغانستان میں اقتدار میں شمولیت کا اتنا ہی حق ہے‘ جتنا ان کے مخالفین کو۔ دو دہائیاں اور لاکھوں انسانوں کی بربادی کے بعد‘ اب امریکہ اور دیگر طاقتیں اس مسئلے کے سیاسی حل کی طرف سمت تبدیل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ افغانستان‘ پاکستان اور اس علاقے کی سلامتی اور امن کا بہت نقصان ہو چکا‘ ازالہ کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ 
گزشتہ دو برسوں میں امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بہتر ہو چکے ہیں۔ ہم امریکہ اور افغان طالبان کے مابین مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کے سلسلے میں جتنی بھی اعانت کر سکتے تھے‘ کرتے رہے ہیں۔ اب دونوں فریق لمبی اور تاریک سرنگ کے آخری سرے تک پہنچتے نظر آ رہے ہیں‘ اور اس کے ساتھ امن کے قیام کے واضح امکانات بھی روشن تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ناچیز اور کچھ دیگر مبصرین خاصے عرصے سے یہ کہہ رہے تھے کہ جونہی امریکہ افغانستان کی خود ہی پیدا کردہ دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہو گا‘ پاکستان کے خلاف بیانیہ خود بخود دم توڑ جائے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے آپ نے امریکہ کی جانب سے ''کچھ اور کرو‘‘ کی تکرار نہ سنی ہو گی۔ اگر ایسی کوئی تکرار اعلیٰ امریکی قیادت کی سطح پر یا سفارتی طور پر ہے‘ تو وہ یہ ہے کہ افغانستان میں جنگ بندی کرائیں‘ اور معاہدہ طے کرانے میں طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ اس وقت ایسا ہی کیا جا رہا ہے اور یہ ہمارے اپنے مفاد میں ہے۔
افغانستان میں ریاست اور حکومت کی تعمیر ہوئی ہے۔ ادارے بھی وہاں پہلے سے کہیں بہتر ہیں۔ معیشت‘ تعلیم اور دیگر شعبوں کی مغربی امداد سے تعمیرِ نو کا عمل تیز ہوا ہے۔ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان جنگ کی کیفیت یا حالت میں رہے‘ یا امریکہ کے یہاں سے رخصت ہونے کے بعد یہ ملک خدانخواستہ خانہ جنگی کا دوبارہ شکار ہو جائے۔ ایسی صورت میں الزامات کی ہمارے خلاف ہی بھرمار ہو گی اور مہاجرین کا طوفان ہم سے سنبھالا نہیں جا سکے گا۔ وہاں امن کے روشن ہوتے ہوئے امکانات سے ہی ہم ایک مرتبہ پھر اپنے آپ کو عالمی سیاست میں متحرک کر چکے ہیں اور بھارت کی جانب سے ہمیں عالمی دھارے سے علیحدہ رکھنے کی کاوشیں اور کوششیں دم توڑ چکی ہیں۔ اب بھارتیوں کی زیادہ تر سفارت کاری‘ وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کے دفاع میں استعمال ہو رہی ہے۔ دنیا کا کوئی ایسا قابلِ ذکر جمہوری ملک نہیں‘ جہاں ان کی کشمیریوں کو قید کرنے اور ان کی سرزمین کو قید خانے میں تبدیل کرنے کی پالیسی اور مسلمان اقلیت کے خلاف غیر آئینی اور عالم گیر انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف قانون سازی کی مذمت میں مظاہرے نہ ہوئے ہوں۔ بھارت کے اندر ہی سے سیکولر‘ لبرل اور جمہوریت پسند طبقات نے‘ جو مذہبی تقسیم سے بلند سوچ رکھتے ہیں‘ وہاں کے موجودہ حکمرانوں کی فسطائیت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا کردار بھارت کے نوجوان طبقے نے ادا کیا ہے۔ امریکہ کو بھارت کی نوخیزی کی چمک‘ جو کبھی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی تھی‘ اب ہر حوالے سے ماند نظر آتی ہے۔ غالباً بھارت کی قیادت چین کا حریف اور امریکہ کا مہرہ بننے کے لئے آمادہ نہیں؛ البتہ بھارت میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے‘ جس کا خیال ہے کہ تزویراتی اتحاد امریکہ کے ساتھ ہو تو بھارت کی اوپر کی طرف پرواز تیز رفتار ہو گی۔ اس طرح اس کے عالمی طاقت بن جانے کا خواب پورا ہو گا اور صنعتی ترقی میں بھی اضافہ ہو گا۔ ایسے کسی اتحاد سے ہمیں چوکنا رہنا ہو گا‘ اس کے مضمرات کے بارے میں آگاہ رہنا ہو گا اور ان پر مسلسل نظر رکھنا ہو گی۔ ہمیں یہ بھی خیال کرنا ہو گا کہ ہم چین کے ساتھ گہرے اور مزید بڑھتے ہوئے تعلقات اور امریکہ کے ساتھ دوستی میں توازن کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔ میرے نزدیک سرد جنگ کے حوالے‘ پُرانی تاریخ کا دہرائو یا کوئی نئی نظریاتی تقسیم دیوانوں کے خواب ہیں۔ دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ محرکات اس وقت سرمایہ کاری‘ صنعتی ترقی‘ جمہوریت‘ انسانی حقوق‘ یکساں اور سب کے لئے آزادیاں اور تجارت کے میدان میں ہمواری ہے۔ 
ہمارے خلاف بیرونی دبائو ختم ہو چکا ہے اور وہ اتنا سخت بھی نہ تھا کہ ہم تجارت‘ لین دین‘ سفارت کاری یا بیرونی سرمایہ کاری میں اضافہ نہ کر سکتے۔ ہمیں کم از کم خود اختیار کردہ اس نفسیاتی خول کو اتار کر پھینک دینا چاہیے۔ ان دبائو کے برسوں میں بھی دنیا اتنا ہمارے خلاف نہ تھی‘ جتنا ہم ایک دوسرے کے خلاف اور جس قدر ہمارے حکمران اپنے ہی ملک‘ عوام اور معیشت کی بے دردی کے ساتھ لوٹ کھسوٹ میں مصروف تھے۔ یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ملک اور ریاست‘ دونوں اندر سے ہی کمزور ہوتے ہیں اور کرائے جاتے ہیں۔ اصل دشمن اندر ہی ہوتا ہے‘ اور وہی کاری ضرب لگاتا ہے۔ چالیس سالہ دورِ تاریکی میں پتا نہیں کتنے دشمن اندر سے ہی پیدا ہوئے۔ دولت اور اقتدار بھی ان کے پاس تھا اور معتبر بھی وہی ٹھہرے۔ عزت اور طاقتِ حکمرانی ہم نے انہیں ہی تفویض کر رکھا ہے۔ یہ صرف ہماری نہیں‘ سب ہمارے جیسے اپنے اندر کی برائیوں اور لڑائیوں کی آگ میں بھسم ہوتے ہوئے ملکوں کی کہانی ہے۔ نہ وسائل کی کمی ہے‘ نہ اہلِ دانش اور محنتی افرادی قوت کی۔ ہمارے ملک میں تو زیادہ تر آبادی نوجوانوں کی ہے۔ ایسا طبقہ جو نہ صرف اپنے لئے بلکہ قوم اور ریاست کے لئے بھی اپنی آنکھوں میں سنہرے خواب سجاتا ہے۔ مایوسی ہے تو صرف حکمران طبقات‘ حریص اشرافیہ اور روایتی مقتدر سیاسی خاندانوں سے ہے کہ خود غرضی اور لوٹ مار کی ایسی داستانیں قائم کیں کہ ان کی کہانیاں سننے والے با ضمیر شرم سے سر جھکا لیتے ہیں۔ 
بیرونی دنیا پاکستان کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ مخالف ہر ریاست کے ہوتے ہیں اور ہمارے حصے میں بھی کچھ ضرور ہیں مگر قوموں کا بننا‘ بگڑنا‘ سنورنا اور آگے بڑھنا اندر ہی سے ہوتا ہے۔ پُر عزم قیادت‘ با ہمت اور امانت دار اشرافیہ اور متحرک‘ محب وطن ریاستی اہل کاروں کی ریاضت اور عصری مسائل سے نمٹنے کی روایت درکار ہے۔ سب راستے کھلے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved