تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     23-02-2020

ٹرمپ کا دورہ بھارت اور پاکستان کی امیدیں

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ بھارتی میڈیا اس دورے کو بھارت کی بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر کے دورے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ صدر ٹرمپ کو احمد آباد میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کا موقع دیا جا رہا ہے اور ٹرمپ اس پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے دو بار اس عوامی اجتماع پر بات کی اور ایک بار کہا کہ ستر لاکھ لوگ ان کے استقبال کے لیے جمع ہوں گے۔ دوسری بار کہا‘ ایک کروڑ لوگ ان کے لیے سڑکوں پر کھڑے ہوں گے۔ احمد آباد کی کل آبادی نوے لاکھ سے زیادہ نہیں، اور پورا شہر امریکی صدر کے استقبال کے لیے کھڑا ہو یہ ممکن نہیں، اس پر امریکی میڈیا میں صدر ٹرمپ کا مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے ان دعووں پر بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ شاید ٹھیک سے سمجھ نہیں پائے اور انہوں نے سات لاکھ کو ستر لاکھ بنا دیا۔
بڑی الیکشن ریلیوں کے شوقین صدر ٹرمپ بھارت میں ستر لاکھ کے مجمع کے لیے پُر جوش ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ صدر ٹرمپ کے نزدیک مقبولیت کا یہی پیمانہ ہے اور اس کے لیے وہ جھوٹی معلومات کا استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ چند دن پہلے ہی صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہیں فیس بک کے مالک مارک زکربرگ نے مبارکباد دی کہ وہ فیس بک پر مقبولیت میں پہلے نمبر پر ہیں اور بھارتی وزیر اعظم دوسرے نمبر پر۔ فیس بک پر فالوورز یا پیج لائیکس کے اعتبار سے یہ دعویٰ درست نہیں‘ لیکن صدر ٹرمپ کو فرق نہیں پڑتا۔
صدر ٹرمپ کا دورہ بھارت نریندر مودی کے لیے کس قدر سود مند رہتا ہے؟ یہ تو دورے کے بعد واضح ہو گا لیکن دورے سے پہلے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور بھارت میں شہریت کا متنازع قانون (سی اے اے) اور شہریت رجسٹریشن کا قانون (این آر سی) ضرور خبروں میں ہیں۔ اس طرح کشمیریوں اور بھارت کی اقلیتوں کا مقدمہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے اجاگر ہوا ہے۔ کشمیر اور سی اے اے پر مودی کو نہ صرف اندرون ملک شدید تنقید اور مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مودی حکومت کو کئی بار شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت سے مودی اور بھارتیوں کی امیدیں وابستہ ہیں تو پاکستان کے لیے بھی یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے۔ دورے سے پہلے اس بات کے کھلے اشارے مل رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت سے پہلے امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں نے میڈیا کو بریفنگ دی۔ بھارتی میڈیا کو فون کال پر بریفنگ دینے والی امریکی عہدے دار نے کہا کہ صدر ٹرمپ دورہ کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ مذاکرات کی بحالی اور کشیدگی میں کمی پر زور دیں گے۔ دونوں ملکوں کو لائن آف کنٹرول پر جارحانہ اقدامات اور کشیدگی بڑھانے والے بیانات سے گریز کے لیے کہا جائے گا۔ 
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے پہلے دو بار پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ بھارت دو طرفہ مسائل میں ثالثی کا آپشن نہیں چاہتا۔ اس بار امریکی صدر بھی اس پیشکش سے گریز کریں گے جیسا کہ امریکی عہدے داروں کی بریفنگ سے بھی واضح ہے، امریکی صدر کی طرف سے مذاکرات کی بحالی پر زور دینا خطے میں امن کے لیے اہم قدم ہو گا۔ بھارت کی طرف سے بار بار یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے؛ تاہم صدر ٹرمپ کے دورہ سے پہلے ایف اے ٹی ایف اجلاس میں بھارت اس موقف پر منہ کی کھا چکا ہے۔ بین الاقوامی برادری نے بھارت کے اس پروپیگنڈا کو اہمیت نہیں دی اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کی بھارتی کوششیں ناکام ہوئیں۔
ایف اے ٹی ایف کے فورم پر پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اپنے کوششوں کی تفصیلات بتا چکا ہے جبکہ دہشت گردوں کی مالی مدد اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے بھی مؤثر اقدامات کئے گئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے مذاکرات بحالی کے لیے دباؤ کے بعد بھارت کے پاس کوئی بہانہ باقی نہیں بچے گا۔
صدر ٹرمپ کے دورے میں کشمیر کی صورت حال بھی زیر بحث آئے گی۔ مودی نے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی کو ایک کھلی جیل بنا رکھا ہے۔ ہزاروں کشمیریوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ باقی سب بھارتی فورسز کی نگرانی میں ہیں۔ بھارت نے سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی روک تھام کے نام پر ایک اور کریک ڈاؤن شروع کیا ہے اور کشمیری نوجوانوں کو ایک اوپن ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان گرفتاریوں کی تعداد بھی میڈیا کو نہیں بتائی جا رہی بلکہ کشمیری میڈیا کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے استعمال میں محتاط رہیں۔ بین الاقوامی برادری کے دباؤ پر مودی حکومت نے پانچ ماہ بعد مقبوضہ وادی میں فون اور انٹرنیٹ سروس بحال کی جس سے کشمیریوں کی مشکلات کچھ کم ہوئیں۔ اب اگر ایک بار پھر بھارت پر دباؤ بڑھتا ہے تو کشمیریوں کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔
صدر ٹرمپ اپنے دورے کے دوران بھارت کے متنازع شہریت قانون (سی اے اے) شہریت رجسٹریشن (این آر سی) پر بھی بات کریں گے اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان تمام امور پر مودی سے ملاقات اور میڈیا بریفنگ کے دوران بات کی جائے گی۔ اگر ہم یہ سمجھیں کہ صدر ٹرمپ کو پاکستان، مسلمانوں یا کشمیریوں سے کوئی خاص ہمدردی ہے تو ایسا بالکل نہیں۔ صدر ٹرمپ کا مقصد بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا ہے۔ صدر ٹرمپ کا نعرہ ''میک امریکا گریٹ اگین‘‘ اور مودی کا نعرہ ''میک ان انڈیا‘‘ آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ دونوں لیڈروں کے مقاصد اور ترجیحات مختلف ہیں اور صدر ٹرمپ سمجھوتے کے لیے آمادہ نہیں؛ اگرچہ بھارت کو کچھ رعایت ضرور دے رہے ہیں۔ 
تجارتی معاہدے پر صدر ٹرمپ خود کہہ چکے ہیں کہ بھارت ہمارے ساتھ اچھی طرح پیش نہیں آیا، بھارت کے ساتھ بڑے تجارتی معاہدے کو بعد کے لیے بچا کر رکھ رہے ہیں اور ابھی کچھ پتہ نہیں کہ نومبر کے صدارتی الیکشن سے پہلے یہ معاہدہ ہو پاتا ہے یا نہیں۔ اس طرح یہ تو واضح ہے کہ اس دورے میں تجارتی معاہدہ خارج از امکان ہے۔ دراصل صدر ٹرمپ امریکی مصنوعات پر بھارت میں عائد ٹیکسوں میں کمی چاہتے ہیں‘ لیکن امریکی مصنوعات پر ٹیکس میں کمی اور ڈیوٹیوں کے خاتمے سے مودی کا 'میک ان انڈیا‘ نعرہ اس قسم کے تجارتی معاہدے سے متاثر ہو گا۔ صدر ٹرمپ بھارت کو تجارتی معاہدے پر لانے کے لیے بھارت کا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی ختم کر چکے ہیں اور بھارت کی پانچ اعشاریہ چھ ارب ڈالر کی برآمدات متاثر ہوئی ہیں۔ بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے اس سال کے بجٹ میں امریکا سے درآمدہ میڈیکل آلات، کھلونوں اور الیکٹرانکس پر ڈیوٹی عائد کی ہے۔
بھارت اور امریکا کے سٹریٹیجک مفادات چین کے حوالے سے جڑے ہوئے ہیں اور امریکا بھارت کو نان نیٹو اتحادی کا درجہ بھی دے چکا ہے۔ بھارت ایک بڑی مارکیٹ ہے اس لیے بھی امریکا بھارت کو ترجیح دیتا آیا ہے لیکن اس وقت مودی حکومت صدر ٹرمپ کے الیکشن ایجنڈے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ ٹرمپ نومبر کے الیکشن سے پہلے امریکی ووٹروں کے سامنے معاشی کارنامے رکھنا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ نومبر تک بھارت کے ساتھ تجارتی معاہدہ ٹرمپ کی ترجیح ہے۔ یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کو بہترین سفارتی حکمت عملی اپناتے ہوئے بھارت کے ساتھ معاملات پر امریکی مدد لینے کی کوشش کرنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved