تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-02-2020

سرخیاں‘ متن اور ابرارؔ احمد کی نظم

پاکستان مشکل وقت سے نکل آیا ہے: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''پاکستان مشکل وقت سے نکل آیا ہے‘‘ اور اب مشکل ترین وقت میں داخل ہو گیا ہے اور یہ ہمارا نہیں صرف وقت کا قصور ہے کہ مشکل وقت کے نکلنے کے بعد بھی آسان اور اچھا وقت نہیں آ رہا اور وقت پر اختیار صرف اللہ میاں کا ہے‘ ہم ناچیز بندے کیا کر سکتے ہیں‘ ویسے ہمیں اس کام کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا‘ بلکہ سچ پوچھیں تو ہمیں کسی بھی کام کا تجربہ نہیں تھا‘ جس کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں ‘جس میں خاصی مشکلات در پیش ہیں ‘کیونکہ کچھ سیکھنے کے لیے بھی تھوڑا تجربہ درکار ہوتا ہے‘ اس لیے ہماری یہ باری تو اسی نیک کام میں گزر جائے گی اور انشاء اللہ تجربہ کار ہو کر آئندہ سب کچھ آسانی سے کر لیں گے؛ اگرچہ آسانی سے کرنے کے لیے بھی قدرے تجربہ چاہیے ہوتا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ اگلی باری سے اگلی بار ہی تسلی بخش طور پر عوام کی خدمت کر سکیں گے۔ آپ اگلے روز ایک غیر ملکی ادارے کو انٹرویو دے رہے تھے۔
پسماندہ علاقوں کی محرومیاں دور کرنا مشن ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''پسماندہ علاقوں کی محرومیاں دور کرنا مشن ہے‘‘ جس کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ترقی یافتہ علاقوں کو بھی پسماندہ علاقوں کی سطح پر لے آیا جائے ‘تا کہ پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی دور ہو سکے ‘کیونکہ ترقی یافتہ علاقوں کی حالت ِ زار دیکھ کر ان کا کلیجہ ٹھنڈا ہو جائے گا‘ کیونکہ پسماندہ علاقوں کا احساس محرومی دور کرنا کوئی آسان کام نہیں اور جب دونوں علاقوں کی محرومیاں دور ہو جائیں تو یہ منظر قابلِ دید ہوگا: ع
سب کر رہے ہیں آہ و فُغاں‘ سب مزے میں ہیں
آپ اگلے روز لیہ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
لنگر خانے کھول کر دنیا بھر میں ایٹمی پاکستان 
کے وقار کو دھبہ لگایا گیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''لنگر خانے کھول کر دنیا بھر میں ایٹمی پاکستان کے وقار کو دھبہ لگایا گیا‘‘ اور اس طرح بھوک کے ہاتھوں شہید ہو کر فردوس بریں میں پہنچنے کے سارے امکانات عوام کے لیے ختم کر دیئے گئے ہیں اور اسی طرح پناہ گاہیں بنا کر غریب عوام کو فٹ پاتھوں پر سونے اور کھلی فضا میں سانس لینے سے محروم کر دیا گیا ہے اور اب خالی ہاتھ دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے؛ حالانکہ یہ کلیجے کا کام ہی نہیں‘ جس کا فریضہ صرف خون بنانا ہے‘ تا کہ عوام جب چاہیں خون کے آنسو رو سکیں ‘جبکہ میرا اپنا ارادہ بھی یہی ہے جس سے خون کی کمی ہونے کے قطرے سے دوچار ہونے کے پیش نظر میں نے خون کی پانچ سات بوتلیں بھی لگوا لی ہیں‘ جس کے لیے کوئی پچاس کے قریب ڈونرز کو زحمت دینا پڑی ہے ۔ آپ اگلے روز چترال میں جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
جی لگتا نہیں ہے
ہے وحشت سی کوئی‘ سینے سے ٹکراتی
دلِ بے حال سے الجھی
در و دیوار سے گرتی ہے حیرانی
تھکے اعصاب میں
اینٹھن سی اک سوئی ہوئی ہے
نیند کی صورت-----
شباہت کی رعایت سے
محبت کی علامت سے
جنہیں پہلو میں رکھا تھا
کہ جن میں سانس ڈالی تھی
کہ جن میں جان رکھی تھی
بلاتے ہیں انہیں‘ رستے
وہی رستے‘ جدھر کو ہم گئے تھے
لوٹ کر آئے نہیں تھے
حدِ امکان سے آگے کہیں
ہنستے ہوئے‘ روتے ہوئے
اَن دیکھی دنیائوں میں رقصاں
اِدھر-----
سر پھوڑتی ہے‘
گونجتی ہے بے کلی کوئی 
الجھتی ہے رگ و پے سے
اُدھیڑے جا رہی ہے‘ چادرِ شب کو
ٹپکتی ہے‘ اندھیرے سے بھری آنکھوں میں
اک سیّال کی صورت
خلا کی گونج بن کر‘ چار سو رقصاں ہے
رنجِ خواب کی صورت
کسی گرداب کی صورت
حساب رفتہ و موجود میں‘
فردا نہیں کچھ بھی
فریبِ آرزو کیا ہے‘
رخِ زیبا نہیں کچھ بھی
نہ چشم و لب بلاتے ہیں
نہ اب کوئی طلب آواز دیتی ہے
ہے گھبراہٹ کوئی‘ جس نے
کہیں کا بھی نہیں چھوڑا-----
نہ اب گھر بار ہی کچھ ہے
نہ کوئے یار ہی کچھ ہے
ادھر بھی کیا رہا باقی
نہ اب اس پار ہی کچھ ہے!
آج کا مقطع
گلی گلی مرے ذرے بکھر گئے تھے‘ ظفرؔ
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved