تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     23-02-2020

ترکی سے سیکھے جانے والے اسباق!!

ترکی میں گزشتہ تین دہائیوں سے مقیم پاکستانیوں میں سے ایک کا کہناتھا کہ '' چند ایک عشرے پہلے استنبول ایک یورپی شہر سے زیادہ کوئی افریقی شہر دکھائی دیتا تھا۔‘‘
جب آپ دنیا کے بڑے ایئرپورٹس میں سے ایک سے باہر آتے ہیں‘تو اس جملے پر یقین کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ یہاں دنیا بھر کے شہریوں کو سفری سہولیات فراہم کرنے میں ترکش ایئرلائن نے توامارات کو بھی مات دے دی ہے۔ استنبول پہنچ کر گمان ہوتا ہے کہ یہ ترکی کا دارالحکومت ہوگا ‘ لیکن ایسا نہیں؛ ترکی کا دارالحکومت انقرہ ہے ۔ ترکی کسی ایک شہر کو اہمیت دینے کے تصور سے نکل چکا ۔ ترک خوبصورتی‘ تاریخ اور ثقافتی ورثے سے لطف ہونے والے سیاح اناطولیہ اور کونیا کا بھی رخ کرتے ہیں۔
اسلامی دنیا میں شاید ہی کوئی اور ملک ہو‘ جو بہت قلیل مدت میں سیاسی اور معاشی طور پر یورپی ممالک کے ہم پلہ ہوگیا ہو۔طیب اردوان کا طرز ِ حکومت بحث کا موضوع رہا ہے‘ اسی طرح اپنے ممالک پر عشروں تک حکومت کرنے والے حکمرانوں‘ جیسا سنگاپور کے پہلے وزیر اعظم لی کان یو اور مہاتیر محمد کی سخت گیر سول اتھارٹی پر بھی بات کی جاتی رہی ہے ۔ طرز ِحکمرانی ایک طرف‘ حقیقت یہ ہے کہ اُن کی کامیابی کوئی معمولی کارنامہ نہیں ۔ بطور ملک ہمیں ان کے مثبت پہلو کو دیکھنے اور اُن سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ عشروں پہلے ترکی کو کن چیلنجز کا سامنا تھا اور انہوں نے اُن سے نبردآزما ہونے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی تھی؟ جن دو امور پر پاکستان کو توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ وہ معیشت اور انسانی وسائل کی ترقی ہیں ۔ آئیے دیکھیں کہ اس ضمن میں ترکی نے کیا کیا ہے‘ا ور یہاں پاکستان کیا کرسکتا ہے :۔ 
پاکستان کی موجودہ حکومت قرض کے بوجھ تلی دبی ہوئی ہے ۔ یکے بعد دیگرے مختلف حکومت کی طرف سے لیے گئے اس قرض کا حجم ایک سوبلین ڈالر تک پہنچ چکا۔ ترکی کوبھی قدرے چھوٹے پیمانے پر ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا۔ 1961 ء کے بعد ترکی نے آئی ایم ایف سے 19 پیکیج لیے ‘ جبکہ پاکستان کو قرض کیلئے 18 مرتبہ اس مالیاتی ادارے کے پاس جانا پڑا۔ 2003 ء میں طیب اردوان کی حکومت کو 23.5 بلین ڈالر کا قرض وراثت میں ملا ‘ لیکن 2012 ء میں اس کا حجم محض 0.9 بلین رہ گیا۔ اردوان کی قیادت میں مہنگائی 32فیصد سے کم ہوکر 2006 ء میں 9 فیصد تک آگئی۔ اُس کے بعد سے ترکی میں مہنگائی کی شرح 9 فیصد کے آس پاس رہی ہے ۔ بہرحال یہ ابھی بھی خطے میں مہنگائی کی سب سے زیادہ شرح ہے ۔ ترکی کا حکومتی قرضہ 2002 ء میں جی ڈی پی کا 74 فیصد تھا‘ لیکن 2009 ء میں یہ کم ہوکر جی ڈی پی کا 39 فیصد رہ گیا‘ اسی طرح ہم ترکی سے یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ معیشت اور قرض کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے‘ لیکن اس کیلئے ایک عشرے تک بلاروک ٹوک اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے ۔ 
روز ِاوّ ل سے ہی ترکی میں انسانی وسائل کی ترقی کو ترجیح دی گئی۔ اردوان نے نو سال کے دوران وزارت ِتعلیم کا بجٹ 7.5 بلین لیرا سے بڑھا کر 34 بلین لیرا کردیا۔ قومی بجٹ کا سب سے بڑا حصہ اسی وزارت کو دیا گیا۔ اس کیلئے فوج سے بھی زیادہ رقم مختص کی گئی ۔ لازمی تعلیم آٹھ سال سے بڑھا کر بارہ سال کردی گئی ۔ 2003 ء میں ترک حکومت نے یونیسف سے ملکر ''لڑکیو آئو‘ سکول چلیں‘‘ مہم شروع کی ۔ اس مہم کا مقصد خاص طور پر جنوب مشرقی ترکی کے پرائمری سکولوں میں داخلوں سے جنسی امتیاز ختم کرنا اور لڑکیوں کی تعلیم کا معیار بڑھاناتھا۔ پاکستان میں مسئلہ صرف بجٹ اور صنفی امتیاز کا ہی نہیں‘ تعلیم کے معیار کا بھی ہے ۔ سرکاری سکولوں اور مدرسوں سے نکلنے والے طلبا کیلئے ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ اور نہ ہی وہ نجی سکولوں میں پڑھنے والے اشرافیہ کے بچوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ اگلے پانچ سال کیلئے سرکاری اور نجی تعلیم کا معیار برابر کرنے کیلئے حکومت کو پوری توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔
2003 ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اردوان حکومت نے صحت عامہ میں اصلاحات کا جامع پروگرام شروع کیا جو ''ہیلتھ ٹرانسفارمیشن پروگرام‘‘ کہلایا۔ اس کا مقصد تمام شہریوں کی صحت کا معیار بہتربنانا اور اُنہیں مالیاتی نقصانات سے بچانا تھا۔ ان اصلاحات کا ایک حصہ ''گرین کارڈ پروگرام‘‘ تھاجو غریب افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کرتا تھا۔ اس میں 2004 ء میں توسیع کی گئی ۔ اصلاحات کے پروگرام کا مقصد نجی اور سرکاری صحت کی سہولیات کو بہتربنانا‘ سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی طویل قطاروں کو ختم کرناتھا۔ 
پاکستان میں غریبوں کو سہولت فراہم کرنے کیلئے صحت کارڈ کا اجرا کیا گیا ۔ یہ کارڈ 2013-18 ء میں خیبرپختونخوا میں متعارف کرایا گیاتھا۔ اس نے غربت زدہ افراد کو کامیابی سے صحت کی سہولت فراہم کی ۔ اس کے بعد اس کا دائرہ دیگر آبادی تک بھی پھیلا دیا گیا‘ تاہم سرکاری شفاخانوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے صرف یہی اقدام کافی نہیں۔ اس کیلئے قدرے سخت اصلاحات‘ جیسا کہ ایم آئی ٹی (میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوشن) کی طرف سے سرکاری شفاخانوں میں معالجوں کی جانچ پڑتال درکار ہے ‘ اگر پاکستان ترک ماڈل سے سیکھنا چاہتا ہے تو اسے قابل ِعمل امکانات پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی: 
1۔ سماجی اور معاشی ترقی کیلئے مزید وسائل پیدا کرنا: معیشت پہلے ہی افراط ِزر کی وجہ سے ڈگمگا رہی ہے ۔ عام آدمی پر مزید ٹیکسز لگانے سے مسلۂ حل نہیں ہوگا‘اسی طرح مزید قرض لینے سے بیرونی سہاروں کی ضرورت بڑھے گی ۔ اس مرحلے پر ترکی نے ریاست کی انٹرپرائزز فروخت کرکے مالیاتی وسائل پیدا کیے تھے ۔ پاکستان نے بھی اُن کمپنیوں کی فہرست تیار کی ہے‘ جنہیں فروخت کیے جانے کی ضرورت ہے ۔
2۔ چھوٹے اور درمیانی حجم کی انٹرپرائز کو ترقی دینا: کاروبار کو بڑھانے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کیلئے چھوٹے اور درمیانی حجم کی انٹرپرائز کو ترقی دینا ضروری ہے۔ پاکستان میں 80 فیصد کاروبار چھوٹے اور درمیانی حجم کی انٹرپرائز کے ذریعے ہی چلتا ہے ۔ ''کامیاب جوان پروگرام‘‘ کا مقصد صرف قرضہ دینا ہی نہیں ‘بلکہ کاروبار چلانے کی صلاحیت پیدا کرنا بھی ہونا چاہیے‘ تاکہ درمیانی حجم کے کاروبار پائیدار ترقی کرسکیں۔ 
3۔ سیاحت کی صنعت کو بڑھانا: دبئی کی طرح ترکی نے بھی ایسی وجوہ پیدا کی ہیں کہ لوگ اُن کے ملک کا سفر اختیار کریں۔ ترکش ائیرلائن کو بہتر بناتے ہوئے ترکی بھی اتنی تعداد میں غیر ملکی مسافروں کو اپنے ہاں آنے کی ترغیب دے رہا ہے‘ جتنے دبئی کا رخ کرتے ہیں۔ فی الحال ہماری قومی ایئر لائن اس شمار قطار میں بھی نہیں ‘ لیکن لوگوں کو پاکستان آنے کی دعوت دینے کا اصول اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ 
تاہم ذہن نشین رہے کہ ترکی میں ہونے والی تمام پیش رفت قابل ِ تقلید نہیں‘ لیکن قابل ِ غور بات یہ ہے کہ 2002ء سے لے کر 2011 ء کے دوران ترکی ایک ڈگمگاتے ہوئے ملک سے اسلامی دنیا کے سب سے مستحکم اور مضبوط ملک میں کیسے تبدیل ہوگیا؟ایک اور سبق یہ ہے کہ قرض کی بنیاد پر دکھائی جانے والی کوئی بھی ترقی مختصر مدت کی ہوگی۔ پاکستان کے گزشتہ دس سال کا جائزہ اسی حقیقت کا اظہار ہے ۔ الغرض ملکی خزانے پر بوجھ بننے والی انٹرپرائزز سے جان چھڑانا اور چھوٹے اور درمیانے حجم کی انٹرپرائزز ہی پائیدار ترقی کی ضمانت ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved