یہ 1971ء کے موسم گرما کی بات ہے۔ سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ ہنری کسنجر اسلام آبادسے ایک خفیہ اُڑان کے ذریعہ چینی رہنمائوں سے ملاقات کے لیے بیجنگ پہنچے۔ پیپلز ہال میں جب بات چیت ختم ہوئی تو مائوزے تنگ نے ہنری کسنجر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: ’’جس پُل سے گذر کر آپ چین پہنچے ہیں، اُسے مت بھولیے‘‘۔ یہ پُل پاکستان تھا جس نے امریکہ اور چین کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کے اس کردار کی قدر کرتے ہوئے چین نے نہ صرف خُود اسے اب تک یاد رکھا ہے بلکہ اُنہوں نے امریکہ پر بھی واضح کر دیا کہ وہ پاکستان کے کردار کو نہایت اہم سمجھتے ہیں۔اس طرح کے کئی اور مواقع ہیں جہاں چین نے آزمائش کی گھڑی میںپاکستان کا ساتھ دیا۔ مثلاً1971ء کی جنگ کے نتیجے میں90ہزار سے زائد پاکستانی بھارت کی قیدمیں تھے اور مغربی پاکستان کے ساتھ سرحدی علاقوں کے ایک بڑے رقبے پر بھارت کا قبضہ تھا۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اس کو ایک Bargaining Chip کے طورپر استعمال کرنا چاہتی تھی۔اُس نے ان مسائل کو حل کیے بغیر بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کا رکن بنوانا چاہا تاکہ پاکستان پر مزید پریشر ڈالا جا سکے۔لیکن چین نے بنگلہ دیش کی درخواست کو سلامتی کونسل میں ویٹو کر کے بھارت کو مجبور کر دیا کہ وہ دیگر تمام اقدامات سے پہلے پاکستانی جنگی قیدیوں کی رہائی اور پاکستانی علاقوں پر قبضہ ختم کرنے کے لیے پاکستان سے بات چیت کا آغاز کرے۔ اس طرح پاکستان نے بھی نتائج کی پروا کیے بغیر چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔1960ء کی دہائی میں اسلام آباد، بیجنگ رُوٹ پر پی آئی اے کی سروس کا آغاز اس کی نمایاں مثال ہے۔اُس وقت پاکستان امریکہ کا قریبی ساتھی تھا۔ اور پاکستان،چین کے اس فضائی معاہدہ پر امریکہ نے جس طرح خفگی اور بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا اُس کا نقشہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں خوب کھینچا ہے۔ پاک چین دوستی ساٹھ برس سے زائد پرانی ہے۔مگر دونوں ملکوں کے درمیان خلوص،محبت اور جذبہ خیر سگالی ہمیشہ کی طرح تروتازہ ہے اور حالات جیسے بھی ہوں،پاکستان اور چین میں کوئی بھی حکومت برسراقتدار ہو‘ اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان خوشگوار ،دوستانہ اور قریبی تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوتے۔ اس کا ثبوت چینی وزیراعظم لی چی کوئینگ کے حالیہ دورے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔مارچ میں اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے اور اس دورے میں پاکستان کی شمولیت چین کی نظر میں نہ صرف دوطرفہ تعلقات بلکہ خطے میں پاکستان کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔حالانکہ اس وقت پاکستان میں ایک عبوری حکومت ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی بنیاد آج سے تقریباََ60سال قبل رکھی گئی تھی۔ اس عرصہ کے دوران میں ہمالیہ کے گلیشیر پگھل پگھل کر کئی دفعہ برصغیر کی گرم اور خشک زمین کی پیاس بجھا چکے ہیں۔دونوں ملکوں میں اب دوسری نہیں بلکہ تیسری نسل جوان ہو چکی ہے۔ اس میں سے بہت سے نوجوان مائوزے تُنگ،چو این لائی اور ذوالفقارعلی بھٹو کے نام سے بھی شاید واقف نہ ہوں گے۔اس لیے کہ دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور خود چین تبدیلی کے ایک بہت بڑے انقلاب سے گزر چکا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان حکومتی سطح پر تو تعلقات بہترین اور بے مثال ہیں لیکن عوامی سطح پر دونوںملکوں کے درمیان جو رابطے اور تعلقات ہونے چاہئیں وہ ناپید ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سیاسی،دفاعی اور سفارتی تعلقات پر زور دیا جاتا رہا ہے؛ تاہم کچھ عرصہ سے دونوں طرف سے اقتصادی، تجارتی، سائنس، ٹیکنالوجی، سرمایہ کاری اور زرعی شعبے میں باہمی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد میں چینی وزیراعظم نے اپنی تقریر میں بجا طور پر پاکستان اور چین کے درمیان توانائی اور اقتصادی شعبہ میں تعاون کو اولین ترجیح دینے کی تجویز پیش کی ہے۔اس کے علاوہ جن گیارہ معاہدات اور مفاہمت کی دستاویزات (MOU)پر دستخط کیے گئے ہیں اُن میں سے بھی بیشتر کا تعلق اقتصادی،تجارتی اور سرمایہ کاری کے شعبوں سے ہے۔ان معاہدات سے دوسرے ملکوں کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں چین کی ترجیحات کا پتہ چلتا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے علاوہ عالمی اور علاقائی مسائل پر بھی چین کی ترجیحات میں تبدیلی آچکی ہے۔اب چین محاذ آرائی اور جنگ کی بجائے تعاون اور امن کا خواہاں ہے۔یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ چین کی نئی قیادت‘ جس نے مارچ میں اقتدار سنبھالا تھا‘ نے اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز اپنے ہمسایہ ملکوں سے کیا ہے۔وزیر اعظم لی سے پہلے صدر چی نے بھی اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے پہلے پڑائو کے لیے ہمسایہ ملک روس کا انتخاب کیا تھا۔بے شک اس سے چین کی ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ چین اپنے ارد گرد کے علاقوں میں امن،تعاون اور دوستی کا خواہشمند ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ چین کو ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے ابھی علاقائی اور عالمی سطح پر امن کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں سب سے اہم اور نمایاں مثال چین بھارت تعلقات ہیں۔گذشتہ ایک دہائی میں چین اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تعلقات خصوصاََ تجارت کے شعبہ میںبہت اضافہ ہوا تھا۔لیکن کچھ عرصہ سے تجارت کے ساتھ سفارتی شعبے میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری کے آثار نظر آنے لگے تھے۔خصوصاََ لداخ کے علاقے میں چین کے کچھ فوجی دستوں کا ایک ایسے علاقے میں‘ جنہیں بھارت اپنا سمجھتا ہے‘ گھس کر آنا اور پھر تقریباََ تین ہفتے تک قیام کرنا چین،بھارت کشیدگی کا باعث بنا تھا۔ چینی حکومت نے نہ صرف ان علاقوں سے چینی دستوں کو واپس بلایا بلکہ وزیراعظم لی نے اپناغیر ملکی دورہ بھارت سے ہی شروع کیا۔اس کے علاوہ اس دورے کے دوران میں اُنہوں نے بھارتی قیادت کو یقین دلایا کہ وہ چین کو اپناحریف نہیں بلکہ پارٹنر سمجھیں۔دورے کے اختتام پر ایک طویل مشترکہ بیان کے مندرجات سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت اور چین کے تعلقات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہو گا۔ پاکستان کو نہ صرف اپنی علاقائی حکمت عملی بلکہ چین کے ساتھ اپنے آئندہ تعلقات کی سمت متعین کرتے ہوئے ان حقائق کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔چینی وزیر اعظم نے اپنی تقاریر میں علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے مواصلاتی رابطوں کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔یہ مواصلاتی رابطے صرف چین اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں ہونے چاہئیں بلکہ ان میں بھارت،بنگلہ دیش، نیپال، افغانستان،ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کے بارے پالیسی میں ایک بنیادی اور انقلابی تبدیلی لانا پڑے گی۔چینی وزیراعظم کی تقریروں میں یہی پیغام پنہاں ہے ۔اُمید ہے کہ آنے والی حکومت اس کا پوری طرح ادراک کر کے اپنی ترجیحات کو مرتب کرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved