تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-02-2020

سرخیاں‘ متن اور علی ارمانؔ کی تازہ غزل

نواز شریف بھی سلیکٹڈ وزیراعظم تھے: بلاول بھٹو زرداری
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف بھی سلیکٹڈ وزیراعظم تھے‘‘ اس لیے میرا بھی حق بنتا ہے اور وہ جو اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات تھی‘ وہ والد صاحب نے کہی تھی‘ میرا اس میں کوئی حصہ نہ تھا۔ ویسے‘ انہوں نے بھی یہ بیان واپس لے لیا تھا‘ بلکہ کچھ عرصے کیلئے بیرون ملک بھی چلے گئے تھے‘ جبکہ اصولی اور اخلاقی طور پر بھی اب میری باری ہے‘ کیونکہ نواز شریف اور عمران خان کے بعد میرا بھی خیال رکھا جانا چاہیے‘ کیونکہ میں بھی کافی عرصے سے ان کا خیال رکھ رہا ہوں‘ جبکہ پیسے واپس لینے میں بھی اتنی جلدی کی ضرورت نہیں‘ کیونکہ نواز شریف کو بھی پیسے واپس لیے بغیر ہی وزیراعظم بنا دیا گیا تھا۔ اس لیے انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک بار مجھے وزیراعظم بنا یا جائے۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس‘ لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
مہنگائی اور غربت نے عوام سے روٹی بھی چھین لی: ایاز پلیجو
قومی عوامی تحریک کے سربراہ لطیف ایاز پلیجو نے کہا ہے کہ ''مہنگائی اور غربت نے عوام سے روٹی بھی چھین لی‘‘ اور اب وہ صرف ہیوی ناشتہ کرتے ہیں اور سہ پہر کو ہائی ٹی‘ اور دو وقت کی روٹی سے محروم ہو گئے ہیں ؛ اگرچہ ہیوی ناشتے اور ہائی ٹی کے بعد روٹی وغیرہ کھانے کی چنداں ضرورت بھی نہیں رہتی ‘جبکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے؛ اگرچہ ایجاد کے باپ کا اب تک کوئی پتا نہیں چل سکا کہ کوئی تھا بھی یا نہیں؟ اس لیے میرا محاوروں سے اعتقاد اٹھ گیا ہے اور جس بات پر ہمارا اعتقاد ہمیشہ سے باقی ہے‘ اسے ساری دنیا جانتی ہے نیب ہے ‘ جو اپنی کارروائی کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے اور پیپلز پارٹی خورشید شاہ کو کوس رہی ہے‘ جنہوں نے چیئر مین نیب کو منتخب کیا تھا‘جو کہ سراسر ظلم تھا اور اب خورشید شاہ اس کا نتیجہ بھی بھگت رہے ہیں‘ بلکہ ساتھ ہی ہم سب کو بھی بھگتا رہے ہیں اور‘ اب وہ ہم سے اور ہم اُن سے کہہ رہے ہیں کہ ہور چوپو۔ آپ اگلے روز سینئر سیاستدان اور دانشور رسول بخش پلیجو کی برسی کے موقعہ پر خطاب کر رہے تھے۔
محرومیاں دور کرنے کے لیے کاغذی 
کارروائی نہیں کرنے دوں گا: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار نے کہا ہے کہ ''محرومیاں دور کرنے کیلئے کاغذی کارروائی نہیں کرنے دوں گا‘‘ کیونکہ کاغذ پہلے ہی بہت مہنگا ہے ‘اس لیے میں نہیں چاہتا کہ آٹے اور چینی کے بعد کاغذ کا بھی بحران پیدا ہو جائے اور ہم اس کے ذمہ داروں کا بھی کھوج لگاتے پھریں ؛اگرچہ وہ بھی ہمارے اپنے ہی آدمی ہوں گے‘ کیونکہ اگر زبانی ہر بات یاد رکھی جا سکتی ہے تو کاغذی کارروائی کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ پھر زبانی کارروائی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا اور گڑ بڑ کی صورت میں کارروائی بھی زبانی ہی کرنا پڑتی ہے ‘اس لیے آدمی کو زبان کا پکّا ہونا چاہیے اور کانوں کا کچا‘ جبکہ درمیانی راستہ یہی ہے کہ آدمی زبان کا پکا بھی ہو اور کانوں کا کچا بھی‘ یعنی کچا پکا۔ آپ اگلے روز کوٹ ادو اور جتوئی میں مختلف منصوبوں کا افتتاح کر رہے تھے۔
درستی
عزیزم سعد اللہ شاہ نے کالم میں ایک شعر اسطرح درج کیا ہے:؎
کس کس ادا پہ تیری میں واروں نہ اپنا دل
تجھ پر ختم خامشی‘ تجھ پر سخن تمام
اس شعر کادوسرا مصرعہ ایک لفظ چھوٹ جانے سے بے وزن ہو گیا ہے ‘جو اس طرح سے ہو سکتا ہے ع
مجھ پر ہے ختم خامشی‘ تجھ پر سخن تمام
ہمارے مزاج نگار دوست اشفاق احمد ورک نے اپنے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے؎
اس امر کا تذکرہ ہر طرف ہونا چاہیے
ڈوب مرنے کے لیے بھی ظرف ہونا چاہیے
ایسا لگتا ہے کہ یہ شعر موصوف کے اپنے ہی زورِ قلم کا نتیجہ ہے‘ کیونکہ پہلے مصرعہ میں ''امر‘‘ اور ''ظرف‘‘ کو غلط وزن پر باندھا گیا ہے‘ جس سے مصرعہ وزن کے مدار سے نکل گیا ہے۔
اور‘ اب آخر میں علی ارمانؔ کی یہ تازہ غزل
کہو فقیرو! مرے بعد کیسی کٹ رہی ہے
سنا ہے پھر وہاں جوتوں میں دال بٹ رہی ہے
سمیٹ دیتا ہوں منظر میں ایک مصرعے میں
چراغ کانپ رہے ہیں‘ ہوا جھپٹ رہی ہے
تو کوئی راست تناسب ہمارے بیچ میں ہے
جو کاٹ کاٹ کے مجھ کو جدائی کٹ رہی ہے
دکھائی دینے لگی ہے تمہاری دُھوپ مجھے
مری نظر سے مری اپنی دُھند چھٹ رہی ہے
میں زندگی کی گلی میں ابھی کھڑا ہوں‘ مگر
یہ رفتہ رفتہ دریچے سے اپنے ہٹ رہی ہے
یہ روز و شب تری آنکھوں میں جمع ہو رہے ہیں
یہ زندگی تری تصویر میں سمٹ رہی ہے
نظر نظر میں بغلگیر ہو رہے ہیں ہم
مرے لہو سے چراغوں کی لو لپٹ رہی ہے
جہاں جہاں بھی یہ انسان جا کے بس رہے ہیں
وہاں وہاں پہ درختوں کی عُمر گھٹ رہی ہے
نہیں تھکن کوئی ارمانؔ اگر سمندر کو
ہر ایک لہر کنارے سے کیوں لپٹ رہی ہے
آج کا مقطع
سر میں جھکڑ جو چلا کرتا ہے‘ دن رات‘ ظفرؔ
یہ گرائے گا ابھی برگِ نوا اور بہت

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved