تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-02-2020

زندگی کا بیانیہ !

بہت کچھ ہے ‘جو ہمیں بظاہر زیادہ محنت کے بغیر مل گیا ہے اور دوسرا بہت کچھ ہے‘ جو ہمیں صرف اُس وقت مل سکتا ہے ‘جب ہم چاہیں‘ یعنی منصوبہ سازی کے تحت کماحقہ محنت کریں۔ دوسری بہت سی چیزوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرہ اصطلاحات کا بھی غلام رہا ہے۔ جو لفظ چل پڑے ‘سب اُس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ ایک طرف تو عوام کی بے ذہنی ہے کہ قیامت ڈھانے پر تُلی رہتی ہے اور رہی سہی کسر میڈیا والے پوری کردیتے ہیں۔ اگر کوئی لفظ یا اصطلاح مقبول ہو جائے تو سبھی اُسے مزید بڑھاوا دینے پر اُتر آتے ہیں۔ چار پانچ سال پہلے ''پیج‘‘ عام ہوا تو سب نے یوں اپنایا کہ بات بات پر حوالہ دینا شروع کردیا۔ سیاسی اور عسکری قیادت کے ایک پیج پر ہونے کی بات کی جانے لگی۔
پیج کا زور کچھ ٹوٹا تو ''بیانیے‘‘ کی باری آئی۔ یہ لفظ ایسا عام ہوا کہ عام آدمی بھی سوچے سمجھے بغیر استعمال کرنے لگا۔ اب ‘معاملہ یہ ہے کہ جس کی بات کوئی نہ سُنتا ہو اور جسے برائے نام بھی سوچنا نہ آتا ہو‘ وہ بھی جب بولنے کھڑا ہوتا ہے تو اپنے بے ڈھنگے خیالات کو بیانیہ قرار دینے اور اِسی حیثیت میں تسلیم کیے جانے پر بضد رہتا ہے! 
بیانیہ محض لفظ نہیں‘ طرزِ فکر اور رویّے کا نام ہے۔ جب ہم کسی ملک کے بیانیے کی بات کرتے ہیں تو محض حکومتی موقف کی بات نہیں ہو رہی ہوتی ‘بلکہ پورے ملک ‘یعنی معاشرے یا قوم کی سوچ کا حوالہ دیا جارہا ہوتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے حوالے سے جب بھارت کے بیانیے کی بات ہوتی ہے تو اشارہ پوری ہندوستانی یا بھارتی قوم کی طرف ہوتا ہے۔ پاکستان کے بارے میں جو سوچ پورے بھارت میں پنپتی ہے یا پروان چڑھائی جاتی ہے‘ اُسے بھارتی بیانیہ کہا جائے گا۔ چند ایک شخصیات کی ذاتی آراء کو ہم احترام کی نظر سے تو دیکھ سکتے ہیں‘ مگر پوری قوم کا بیانیہ قرار دے کر مطمئن نہیں ہوسکتے۔ 
یہ معاملہ زندگی کا بھی ہے۔ زندگی اپنے آپ میں ایک بیانیہ ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے بہت سے امور اہم ہوا کرتے ہیں‘ مگر سب سے بڑی بات ہے بیانیہ۔ ہر انسان کو یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اُس کی زندگی میں کن امور کو زیادہ اہمیت حاصل رہے گی اور کن باتوں کو بس سرسری طور پر دیکھ کر آگے بڑھنا درست ہوگا۔ شخصی ارتقاء کے عمل میں اس امر کی اہمیت غیر معمولی ہے کہ انسان اپنے وجود کو باقی تمام جانداروں اور معاملات پر ترجیح دے۔ خالص دُنیوی نقطۂ نظر سے دیکھیے اور سوچیے تو کسی بھی انسان کے لیے اُس کا اپنا وجود ہی باقی تمام معاملات پر مقدم ہونا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دوسروں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے مفادات پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اپنے وجود کو سب سے بڑھ کر سمجھنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ کسی کو ضرورت محسوس ہو تو اُس کے کام نہ آیا جائے۔ 
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ انسان جب اپنے وجود پر غور کرتا ہے تو حقوق و فرائض کا جائزہ لیتا ہے۔ اپنے آپ کو غیر معمولی اہمیت دینا فطری اور عقلی امر ہے‘ مگر ساتھ ہی ساتھ دوسروں کے کام آنا بھی تو دانش ہی کا تقاضا ہے۔ کوئی انسان جب کسی کے لیے جان دیتا ہے تو دراصل اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر اپنے وجود ہی کا احترام کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے جان دینا اللہ کی عبدیت اور دین سے محبت کا بنیادی تقاضا ہے اور اس تقاضے کو پورا کرنا انسان کے لیے غیرت کا معاملہ ہے‘ یعنی ایسا کرنے سے اُس کے وجود کے لیے تقویت کا سامان ہوتا ہے۔ 
زندگی کا بیانیہ وہ ہے ‘جو ہم تیار کرتے ہیں۔ ہر انسان پیدائش کے وقت کورے کاغذ کے مانند ہوتا ہے۔ اُس کے ذہن کی تختی پر کچھ بھی لکھا ہوا نہیں ہوتا۔ وہ ماحول سے بہت کچھ اخذ کرتا ہے۔ بولنا بھی وہ دوسروں کو سُن کر سیکھتا ہے۔ عقل سے کام لینے کا ہنر بھی اُسے ماحول کی معرفت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ ہر انسان اپنے لیے جو کچھ سوچتا ہے‘ زندگی کے سفر کے لیے جو راہ منتخب کرتا ہے‘ جن اصولوں کو اپنے لیے بنیادی ستونوں کا درجہ دیتا ہے اور جن اعمال پر اپنی بھرپور دُنیوی و اُخروی کامیابی کی بنیاد رکھتا ہے‘ وہ سب مل کر بیانیہ ترتیب دیتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنا بیانیہ خود ترتیب دینا اور لکھنا ہوتا ہے۔ یہ کام کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ کرے بھی تو کیسے؟ کسی بھی انسان کی حتمی ترجیحات کوئی اور کیسے جان سکتا ہے؟ کسی کی حتمی پسند و ناپسند کا علم کسی اور کو کبھی نہیں ہوسکتا۔ بالکل یہی معاملہ بیانیے کا بھی ہے۔ 
ہمارا بیانیہ ہماری سوچ کو جامعیت کے ساتھ ظاہر کرتا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کے تمام تقاضوں کو نبھانے یا پورا کی کوشش کرتے ہوئے ہم جو رائے قائم اور ظاہر کرتے ہیں وہی بیانیہ کہلاتی ہے۔ محض رائے کا اظہار کچھ اور شے ہے اور بیانیے کا اظہار کچھ اور چیز۔ کسی بھی معاملے میں ہمارا بیانیہ ہماری پوری سوچ‘ پسند و ناپسند‘ ترجیحات اور مقاصد کو واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب کسی بھی حوالے سے کسی فرد‘ معاشرے یا ریاست کا بیانیہ پیش کیا جارہا ہوتا ہے ‘تب ہم ہمہ تن گوش ہوکر سنتے ہیں‘ متوجہ رہتے ہیں۔ 
ہمارا بیانیہ ‘چونکہ وہی ہوتا ہے ‘جو ہم تیار کرتے ہیں‘ اِس لیے یہ معاملہ ہماری بھرپور توجہ کا طالب ہوتا ہے۔ سنجیدگی اس معاملے میں انتہائی بنیادی شرط ہے۔ جب ہم کسی معاملے میں اپنی بات کو بیانیے کے سے انداز سے بیان کرتے ہیں تب لوگ متوجہ ہوکر سنتے ہیں تاکہ ہمارے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرسکیں۔ سرسری طور پر کوئی بات کہنے اور بیانیہ پیش کرنے میں بہت فرق ہے۔ بیانیے کے حوالے سے بولنے کے علاوہ لکھنے کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ 
ہمیں زندگی بھر سیکھنا ہوتا ہے اور ہم جس قدر سیکھتے جاتے ہیں ہمارا بیانیہ اُسی قدر تبدیل اور مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ ہم کسی معاملے میں اپنی رائے سر بہ سر تبدیل نہ کریں مگر رائے میں پائی جانے والی خامیاں اور کمزوریاں تو دور کی جاسکتی ہیں اور اُسے زیادہ مضبوط یا جامع بنایا جاسکتا ہے۔ 
یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بیانیہ انتہائی وسیع رائے اور قدرے جامعیت کی حامل چیز ہونے کے باوجود تبدل پذیر رہتا ہے‘ یعنی اُسی گھٹایا‘ بڑھایا اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی معاملے میں ہماری کوئی بھی رائے حرفِ آخر نہیں ہوسکتی ‘مگر ہاں‘ کسی بھی صورتِ حال کے مطابق ‘اپنائی جانے والی رائے متعلقہ صورتِ حال کے حوالے سے جامع ہونی چاہیے‘ اِسی کو بیانیہ کہا جاتا ہے۔ 
ہم زندگی بھر دوسروں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں یا پھر اُن کی آراء سے متاثر ہوکر اپنی رائے بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ‘مگر حتمی تجزیے میں تو ہمارا اپنا وجود ہی مقدم ہے‘ یعنی ہمیں اپنے حالات کے مطابق‘ اپنے بارے میں کوئی رائے قائم کرنی ہوتی ہے‘ تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ ہم کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کے بیانیوں کا احترام اپنی جگہ‘ مگر اولین ترجیح اس امر کو دی جانی چاہیے کہ ہمارا بیانیہ توانا ہو۔ ع 
اپنی ذات سے عشق ہے سَچّا‘ باقی سب افسانے ہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved