تحریر : صابر شاکر تاریخ اشاعت     25-02-2020

مشتری ہوشیار باش!

پاورکوریڈورز کی صورتحال اس وقت ریسلنگ کے اس رِنگ کا منظر پیش کررہی ہے‘ جس میں مقابلہ صرف دو ریسلرز کے درمیان نہیں ہوتا کہ جس میں ایک مقررہ وقت تک دونوں کو لڑنا ہوتا ہے اور جو پہلے پچھاڑ دے ‘وہ فاتح قرار پاتا ہے‘بلکہ پاورکوریڈورزمیں اس وقت فری سٹائل ریسلنگ کا وہ منظر ہے‘ جس میں بہت سے ریسلرز رِنگ میں اترے ہوتے ہیں اور باہم لڑائی کررہے ہوتے ہیں اورتمام کھلاڑی ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتے ہیں ‘لیکن وہ عین وقت پر اس مخالف ریسلرکی مدد کو پہنچ جاتے ہیں‘ جس کو مار پڑرہی ہوتی ہے اور اس کو مات ہونے کو ہوتی ہے کہ فوراً دوسرا ریسلر رِنگ میں پہنچ جاتا ہے اورمتوقع فاتح ریسلر کی فتح میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اس کے خواب چکنا چور کردیتاہے ۔
دراصل ریسکیو کے لئے آنے والے ریسلر کو دبوچے جانے والے ریسلر سے کوئی دلچسپی یا ہمدردی نہیں ہوتی ‘بلکہ اس دبوچے جانے والے ریسلر کی شکست کے ساتھ ہی لڑائی میں شامل دیگر تمام ریسلرز کی بھی شکست کا اعلان کردیا جاتا ہے ‘جس میں اس کی اپنی شکست بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لیے اس کئی مُکھی ریسلنگ میں فاتح بننے کیلئے فاتح ریسلر کو فتح حاصل کرنے کیلئے اپنے تمام مخالفین کو نڈھال کرکے رِنگ سے باہر پھینکنا پڑتاہے اور آخری کو رنگ کے اندر مات دینا پڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کثیرالتعداد ریسلرز کی لڑائی کے کوئی خاص قاعدے اور ضابطے نہیں ہوتے اس میں فاؤل کا تصور نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔بس اَنھے واہ مخالفین کو مارنا ہوتا ہے اور رِنگ سے باہر پھینکنا ہوتا ہے۔اس سارے کھیل میں سب سے مشکل میں ریسلنگ کے امپائر ہوتے ہیں ‘جو اِدھر ادھر بھاگتے نظر آتے ہیں اور مسلسل چوکس نظر آتے ہیں اور کبھی کبھی یہ ریفری بھی ریسلرز کی مار پیٹ کی زد میں آجاتے ہیں اوراسی مار پیٹ سے بچنے کیلئے امپائر کو اپنے آپ کو بچا کر رکھنا پڑتا ہے‘ کیونکہ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ امپائر کسی ریسلر کی فتح کیلئے کاؤنٹ ڈاؤن شروع کرتا ہے تو دوسرا ریسلر آکر امپائر کو بھی اٹھا کر باہر پھینک دیتا ہے ۔
ہماری اقتدار کی راہداریوں میں بھی دیکھنے کو کچھ ایسے ہی مناظر ہیں تمام کھلاڑیوں کی زور آزمائی عروج پر ہے۔ سیاست کے تمام کھلاڑیوں کو رِنگ میں اتار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ جو بچے گا‘ وہی کھیلے گا‘ کبھی توازن ایک طرف جاتا ہے تو اگلے ہی لمحے ایک جھٹکا لگتا ہے اوردوسرا کھلاڑی آکر پہلے کا کام خراب کرتا ہے‘ طاقت کا توازن دوسری جانب سِرک جاتا ہے‘تمام ٹیموں نے اپنے منجھے ہوئے مضبوط کھلاڑی میدان میں اتارے ہوئے ہیں اور جیتنے کیلئے باہم گتھم گتھا ہیں ہر طرح سے جتن کیے جارہے ہیں کہ وہ اس کھیل کا فاتح قرار پائے سیاست کے اس تازہ دنگل میں فری سٹائل کھیل ہے ۔فاؤلز کم سے کم رکھے گئے ہیں۔کبھی ایک پلیئر اور کبھی دوسرا پلیئر حاوی نظر آتا ہے۔جب ایک کھلاڑی دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ مدمقابل جیتنے کے قریب ہے اور کامیابی سے پاور پلیئر کی توجہ حاصل کررہا ہے تو دوسرے کھلاڑی فورا رِنگ میں اترتے ہیں اور اس کا کام خراب کردیتے ہیں‘ امپائر ابھی فیصلہ کرنے کا سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ کھیل پھر بگڑجاتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان دھرنا لیکر آئے تو باقی کھلاڑیوں کو شبہ گزرا کہ مولانا کا آنا اور کامیابی کے بلند بانگ دعوے کرنا بلاسبب نہیں اور یہ سارا کھیل کسی اور کی فتح کیلئے کھیلا جارہا ہے‘ جس کے نتیجے میں باقی تمام کھلاڑیوں نے ان سے کنارہ کشی کی اور پی پی پی اور مسلم لیگ نواز نے ان کے دھرنے کو ناکام اور بے نتیجہ ختم کروا دیااور ساتھ ہی ساتھ پاور پلیئر کو پیغام دیا کہ ایسا نہیں چلے گا۔ شریف فیملی اور مسلم لیگ (ن )کے خلاف احتساب کا جب عمل شروع ہوا توسب نے شادیانے بجائے ‘خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے بڑھ چڑھ کرمسلم لیگ (ن )اور شریف فیملی کو رِنگ سے باہر پھینکنے میں ایک دوسرے کی مدد کی‘ پھر جب پی ٹی آئی نے مدمقابل کھلاڑیوں کو پچھاڑنے کی کوشش کی تو پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) نے ملکر ایک دوسرے کی مدد کی اور پی پی پی نے فوائد حاصل کئے اور اب پی ٹی آئی اور خاص طور پر پی پی پی کو جب محسوس ہورہا ہے تو دونوں ملکر مسلم لیگ (ن) کے خلاف مل کر میدان میں اترچکے ہیں اور شریف فیملی کو وکٹری سٹینڈ پر جانے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
پانامہ سے احتساب عدالتوں کی طرف سزاؤں تک کے عمل کے بعد سے اچانک جب شریف فیملی کو حاصل ہونے والی رعایتیں منظر عام پر آنا شروع ہوئیں تو بلاول بھٹو زرداری نے اب وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ نواز شریف کو بھی سلیکٹڈ قرار دیکر یہ اعلان کردیا ہے کہ سلیکٹڈ عمران کے بعد کسی اور سلیکٹڈ کو قبول نہیں کریں گے ‘جس کا مطلب واضح ہے کہ انہیں یہ اطلاعات موصول ہوچکی ہیں کہ شہباز شریف دوبارہ طاقت کے مراکز کے قریب ہوچکے ہیں اور واپس ایوانوں میں آنا چاہتے ہیں۔ بلاول رِنگ میں اتر کر شریف فیملی کا کام خراب کرنے کی ابتدا کرچکے ہیں‘کیونکہ بھٹو زرداری خاندان کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ زیر عتاب مسلم لیگ (ن) اور سزا یافتہ شریف فیملی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہو اور وہ پاور پلیئرزکے ساتھ اپنے معاملات اکیلے اکیلے طے کر لیں۔ آصف علی زرداری سمجھتے ہیں کہ اگر مریم سیاست سے آؤٹ رہی تو بلاول کا مستقبل قدر روشن ہے اور اگر مریم نوازآئندہ الیکشن میں سیاست میں آتی ہیں تو پھر پی پی پی کا سکوپ کم ہوجائے گا۔اس لیے مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کا حکومت میں برقرار رہنا اور موجودہ سیٹ آپ کا جاری رہنا پی پی پی کیلئے زیادہ فائدہ مند ہے‘کیونکہ اس وقت پاور رِنگ میں پی پی پی‘ پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ( ق)‘ جی ڈی اے تو موجود ہیں ہی‘اگر نہیں ‘ تومسلم لیگ (ن )اور مولانا نہیں۔اس لئے پاور رِنگ میں موجود متضاد نظریات کی حامل سیاسی قوتیں تمام تر اختلافات الزامات کے باوجود ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
کثیرالتعداد سیاسی کھلاڑیوں کے اس فری سٹائل ریسلنگ میں پاور پلیئر بھی بہت زیادہ محتاط نظر آرہے ہیں اور دور دور سے کھیل کا نظارہ کررہے ہیں‘کیونکہ اس وقت ماحول نہ تو میچ فکسنگ کا ہے اور نہ ہی سپاٹ فکسنگ کیلئے موزوں نظر آرہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ سپاٹ فکسنگ پکڑی جا چکی ہے۔سو ‘احتیاط لازم ہے اور ویسے بھی اس گھمسان کے دنگل میں زیادہ تر کی خواہش یہ بھی کہ جب تک صورتحال واضح نہیں ہوتی اور کسی کی واضح برتری نظر نہیں آتی تب تک کسی بھی طرف اپنا واضح جھکاؤ ظاہر نہ کیا جائے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مریم بی بی اب تک لندن جانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں ‘کیونکہ پہلے فیز کی تکمیل کے بعد دوسرے مرحلے میں مریم بی بی کا لندن جاناطے تھا‘ لیکن وزیراعظم عمران خان اب یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ نواز شریف کے معاملے میں ہوا وہ صحیح نہیں ہوا اور ساری سٹیبلشمنٹ ان سے بالا بالا کی گئی‘ جس کا ان کو کافی صدمہ بھی ہے اور غصہ بھی۔نواز شریف کے لندن جانے کے معاملے نے عمران خان کو پاور پلیئرز سے کْچھ دور کردیا ہے اور اعتماد کے غیر متزلزل احساس کو اپنی جگہ سے ہلا دیا ہے۔رِنگ میں تمام کھلاڑی موجود ہیں اور ایک دوسرے کو مات دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔اسی دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کیس میں بھی حکومت اور سپریم کورٹ میں تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا اور فوری طور اٹارنی جنرل انور منصور خان کو مستعفی ہونا پڑانئے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کی تقرری اور ان کا وزیر قانون کو خط کچھ اور واقعات اور استعفوں کی خبر دے رہا ہے‘ کیونکہ اس معاملے بھی وزیراعظم عمران خان کو پوری تصویر نہیں دکھائی گئی تھی اور سپاٹ فکسنگ کی اطلاعات وزیراعظم تک پہنچ چکی ہیں۔اس لئے مشتری ہوشیار باش! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved