بڑے ڈاکوؤں کو پکڑنا شروع کر دیا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''بڑے ڈاکوؤں کو پکڑنا شروع کر دیا‘ غلطیوں سے سیکھنے والا ناکام نہیں ہوتا‘‘ اور ہم بھی ابھی اپنی غلطیوں سے سیکھ رہے ہیں‘ تاکہ کہیں ناکام نہ ہو جائیں؛ اگرچہ فی الحال تو ہم غلطیاں کر رہے ہیں‘ جب یہ مکمل ہو جائیں گی‘ تو ان سے سیکھنا بھی شروع کر دیں گے اور اس کیلئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں چاہیے‘ بس چند سال ہی کی تو بات ہے؛ چنانچہ اب ہم سنجیدگی سے اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ مزید غلطیاں کرنا بند کر دیں؛ بشرطیکہ کابینہ اس پر رضامند ہو گئی‘ کیونکہ وہ کچھ زیادہ ہی بندے بشر واقع ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روزپودا لگانے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
معیشت کی تباہی کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑ رہی ہے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''معیشت کی تباہی کی قیمت قوم کو ادا کرنا پڑ رہی ہے‘‘ کیونکہ قوم کا کام بھی یہی ہے اور یہ ہوتی ہی اسی لئے ہے اور اسے ہم نے ہی اسے اس کام پر لگایا تھا ‘جو پوری جانفشانی کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہے اور میں لندن میں بیٹھا اس کا نظارہ کر رہا ہوں‘ کیونکہ مجھے بھی کام سے عشق ہے اور میں لوگوں کو کام کرتے دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہوں اور واپس اس لیے نہیں آ رہا کہ بھائی صاحب کا آپریشن ہونے والا ہے ‘جس کے بعد کئی اور بیماریاں بھی سر اٹھانے والی ہیں‘ جبکہ بھائی صاحب کے بعد میری باری بھی آنے والی ہے‘ جبکہ میری تیمارداری کیلئے برخوردار حمزہ شہباز کا یہاں ہونا بے حد ضروری ہے اور صحت کے معاملات صرف اللہ میاں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
درکار
یہ اقرار مصطفی کا مجموعہ غزل ہے‘ جسے سخن پبلی کیشنز لاہور نے چھاپا ہے۔ انتساب والد محترم کے نام ہے۔ دیباچے ڈاکٹر غلام بشیر اسد اور وقاص عزیز نے تحریر کئے ہیں۔ شروع میں مختلف احباب کیلئے اظہارِ تشکر ہے۔ شاعر نے پس سرورق اپنی تصویر کے ساتھ اپنا جو شعر لکھا ہے‘ اُسے شاعر کا طرئہ امتیاز ہی کہنا چاہیے اور جو اسطرح سے ہے ؎
کب کہا یہ کہ زمانے سے ہے درکار مجھے
ایک ہی شخص نبھانے سے ہے درکار مجھے
اس کا دوسرا مصرعہ محلِ نظر ہے۔ شاعر شاید کہنا یہ چاہتا تھا کہ ع
ایک ہی شخص نبھانے کو ہے درکار مجھے
لیکن ردیف کی پابندی آڑے آ گئی اور گرامر کی چھٹی ہو گئی۔
شاعری اچھی یا بُری نہیں ہوتی۔ یہ تو ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اور جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ شعر یا تو فسٹ کلاس ہوتا ہے یا تھرڈ کلاس۔ اس میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا‘ کیونکہ درمیانہ درجہ محض قافیہ پیمائی ہوتا ہے‘ تاہم جذبات کے اظہار پر کوئی پابندی نہیں ‘ بلکہ یہ ہونا چاہیے‘ شاعر کو جدید غزل کے مطالعہ کی شدید ضرورت ہے۔
درستی
جناب عبدالحفیظ ظفرؔ نے جاویدؔ شاہین پر اپنے مضمون میں ان کا ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے ؎
اتنی زیادہ بھیڑ تھی بات نہ اُس سے ہو سکی
پل بھر میں وہ تیز وقت کی رہ گزر میں ملا
اس شعر کے دوسرے مصرعے میں دو غلطیاں رہ گئی ہیں۔ ع
پل بھر وہ تیز وقت کی راہ گزار میں ملا
ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے آج اپنے ایک کالم میں ایک شعر اس طرح سے درج کیا ہے ؎
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بُو
آنکہ از خاکش بیروید آرزو
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ''بیروید‘‘ کی بجائے ''بروید‘‘ ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے ایک اور شعر اس طرح درج کیا ہے
''لا نبی بعدی‘‘ زاحسانِ خدا است
پردئہ ناموسِ دین مصطفیٰ است
اس میں خدا است اور مصطفی است کی بجائے 'خداست‘‘ اور ''مصطفی ست‘‘ ہونا چاہیے۔اور اب آخر میں نعیم ضرار کی شاعری:
ہم سے مل لیتے ہیں جو تیری طلب رکھتے ہیں
ہم ترے بعد بھی جینے کا سبب رکھتے ہیں
دل وہی دل ہے جو سینے سے نکل کر دھڑکے
ورنہ رکھنے کو یہاں سینے میں سب رکھتے ہیں
دوست تو دوست ہے‘ ہم اپنے لئے دشمن بھی
اپنے معیار کا رکھتے ہیں کہ جب رکھتے ہیں
جا کے دہلیز سے دیدار اٹھا لاتا ہوں
دیکھیے اب کے یہ خیرات وہ کب رکھتے ہیں
دن میں آ جاتا ہوں میں‘ رات میں آ جاتا ہوں
میں ترا ذکر ہوں‘ ہر بات میں آ جاتا ہوں
شور جب شہرِ خیالات میں بڑھ جاتا ہے
اٹھ کے میں اپنے مضافات میں آ جاتا ہوں
تُو بھی ہر بار مجھے توڑ کے رکھ دیتا ہے
میں بھی چپ چاپ ترے ہاتھ میں آ جاتا ہوں
مشکلوں سے میں نکل جاؤں تو گھبراتا ہوں
لوٹ کر پھر اُنہی حالات میں آ جاتا ہوں
اس کے چہرے سے خبر ملتی نہیں اندر کی
میں ہی ایسا ہوں کہ جذبات میں آ جاتا ہوں
آج کا مقطع
نظر انداز ہوئے اپنے ہی گھر میں تو‘ ظفرؔ
در و دیوار سے ناچار جھلکنے لگے ہم