تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     25-02-2020

نظریاتی فتح اور اس کے مضمرات

اٹھارہ سال پہ محیط طویل اور جاں گسل کشمکش کے بعد بالآخر عالمی طاقتیں اُس افغان تنازع کی تحلیل پہ متفق ہو گئیں‘جس کی اساس نظریاتی کشمکش پہ رکھی گئی تھی۔اب ‘ہم کہہ سکتے ہیں کہ مغربی دنیا ‘طالبان سے نظریاتی جنگ ہار گئی‘یعنی طالبان کی اصولی فتح دراصل اُس پوری مہذب دنیا کی شکست تصور ہوگی‘جنہیں طالبان ‘وحشی‘دہشت گرد اورانسانیت کے دشمن نظر آتے تھے۔کبریائی رویّوں کے ساتھ افغانستان جیسی غریب مملکت پہ جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے حملہ آور ہونے والے امریکا نے اب امن معاہدہ کے ذریعے طالبان کے نظریاتی موقف اور سیاسی حیثیت کو تسلیم کرکے اپنی اخلاقی شکست پہ مہر تصدیق ثبت کر دی اور رعونت شعار امریکی اجڑے ہوئے دیوتا کی مانند سرجھکائے اب اس سنگلاخ سرزمین سے رخصت ہو جائیں گے‘مگر افسوس کہ کسی بھی نظریاتی پیش قدمی کو جغرافیائی حدود میں محدود رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے خدشہ ہے کہ افغان تنازع کے اختتام کے بعد بھی ہم چین کی سانس نہیں لے پائیں گے۔ کتاب''دی پٹھان‘‘ کے مصنف اولف کیرو (Olaf Caroe)نے کہا تھا:
unlike other wars, Afghan wars become serious only when they are over.
چار دہائیاں قبل ہم نے خود دیکھا کہ ایران کا وہ نظریاتی انقلاب‘جو فقط اپنے ملک کی شاہی اتھارٹی کی تسخیر کے بعد دنیا کے افق پہ نمودار ہوا‘اس نے پاکستان سمیت پورے مڈل ایسٹ‘ بلکہ دور افتادہ یورپی ممالک تک کو بھی متاثر کر کے پورے عالمی بیانیہ کو تبدیل کر دیا تھا۔چالیس سال بیت جانے کے باوجود اب بھی اُسی ایرانی انقلاب کی بازگشت ہماری سماعتوں سے ٹکراتی رہتی ہے۔اس کے برعکس افغانستان میں طالبان کو نظریاتی غلبہ دنیا بھر کی طاقتوں سے چالیس سال تک نبرد آزما رہنے کے بعد ملا؛ چنانچہ اس بے مثال فتح کے اثرات زیادہ دور رس اور عمیق ہوں گے۔طالبان کی نظریاتی اساس کو وسعت ملی تو سب سے پہلے پاکستان اور ایران سمیت اردگرد کی ریاستوں پہ ناقابل یقین اثرات مرتب ہوں گے۔یو ایس طالبان معاہدہ کی رو سے پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کئے جائیں گے‘ جن کے مستقبل کا فیصلہ طالبان خود کریں گے؛ان میں عرب‘ ازبک‘ تاجک‘ایغور اورتحریک طالبان پاکستان کے وہ جنگجو بھی شامل ہیں ‘جو پندرہ سال سے ہمارے ریاستی اداروں سے برسرپیکارچلے آ رہے ہیں۔اس لئے طالبان کے اسلامی افغانستان میں بھی پاکستان سمیت دیگر پڑوسی ممالک کیخلاف نہایت مدہم رفتار کے ساتھ ایک منفی بیانیہ پروان چڑھتا رہے گا۔ طالبان کا موقف ہے کہ وہ ان تمام غیر ملکی مجاہدین کو یہاں مستقل پناہ دیں گے‘ جنہوں نے نیٹو فورسز کے خلاف مزاحمت میں افغانوں کا ساتھ دیا۔یہی غیر معمولی پیش رفت عالمی سیاسیات میں کئی بڑی تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے‘جس کے اثرات نہایت عمیق ثابت ہوں گے‘انہی تغیرات کی ایک جھلک ہمیں امریکی مقتدرہ کے بدلتے رویّوں میں دیکھائی دینے لگی ہے۔امریکا ‘جس حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کیلئے ایک عرصہ تک پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہا‘ آج ''نیویارک ٹائمز‘‘ جیسا موقر اخبار‘ اسی گروہ کے سربراہ سراج الدین حقانی کی فاتحانہ سوچ کی اشاعت کے ذریعے امریکی تصورات میں رونما ہونے والی ممکنہ تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہا ہے۔
علیٰ ہذالقیاس!اس امن معاہدہ کے بعد پہلا جشن تو پاکستان میں منایا جائے گا‘ جہاں طالبان کے نظریاتی حامیوں کی بڑی تعداد موجود ہے اور دوسرا امریکا اور یوروپ میں بسنے والے وہ مسلمان منائیں گے‘ جنہیں ایک مدت تک مشتبہ دہشت گردوں سے فقط مذہبی مماثلت کی پاداش میں ناقابل برداشت دباؤ سہنا پڑا تھا‘لیکن طالبان کی کامیابی کے سب سے زیادہ گہرے اثرات افغانستان کی سرحدوں سے ملحق صوبہ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے ان پشتون علاقوں پہ پڑیں گے‘جہاں پی ٹی ایم کی صورت میں ایک ایسی لبرل نسلی تحریک ابھرتی ہوئی نظر آتی ہے‘جس کی منزل اور مقاصد دونوں ابھی پردہ اخفا میں ہیں اوراگر پشتون ایریا میں پی ٹی ایم کی نسلی تحریک غالب آ گئی تو افغانستان کی طرف سے آنیوالے نظریاتی سیلاب کی راہ روک لے گی‘ بصورت ِدیگر طالبان کی فتح ملک بھر میں بعض حلقوں کی استبدادی سوچ کی حوصلہ افزائی کا ذریعہ بنے گی‘ جس میں وہ طاقت کے ذریعے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہیں۔دوسری طرف وہ عام شہری کھڑے ہیں‘ جو ووٹ کی پرچی کے ذریعے لیڈر شپ کے انتخاب کے حامی اور ہمہ وقت بنیادی حقوق اور جمہوری آزادیوں میں وسعت کے طلبگار رہتے ہیں‘ جبکہ تیسری جانب انڈیا اور چین جیسے پڑوسی ممالک کے علاوہ وہ عالمی طاقتیں ہیں ‘جو ہمیں سیکولرازم کی گود میں دھکیلنے کی کوشش کرتی ہیں‘اگر ہمارے پالیسی سازوں نے عقل کی راہ نہ لی تو اس ہمہ جہت دباؤ میں مملکت کیلئے ریاستی نظام میں توازن قائم رکھنا دشوار ہوتا جائے گا۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ طالبان نے اٹھارہ سالہ جنگ کی تلخیوں سے کچھ سیکھ لیا ہو اور وہ ایران کے برعکس اپنے انقلابی نظریات کو اپنی مملکت سے باہر ایکسپورٹ کرنے سے اجتناب برتنے کے علاوہ مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے اپنے ہم قوم لوگوں کو جینے کا حق دیکر خود اپنی بقا کو دوام دینے کی راہ تراش لیں۔ہمیں امید ہے کہ انٹرا افغان مذاکرات کے دوران وہ بساط سیاست پہ افغانوں کی قومی قیادت کیلئے کچھ گنجائش ضرور پیدا کریں گے‘بالکل ایسے جیسے اشرف غنی کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ نے وطن کی سلامتی کیلئے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے کے علاوہ امن عمل میں اشرف غنی کو ہر ممکن مدد دینے کی حامی بھر لی ہے؛بلاشبہ ریاست کا پیٹ کافی بڑا ہوتا ہے‘ اس لیے اغلب امکان یہی ہے کہ طالبان شمال کی ازبک اور تاجک قیادت کو اپنے صوبوں میں مکمل داخلی خود مختاری دینے کے بدلے طالبان کی مرکزی حکومت کوتسلیم کرا لیں گے ‘بصورت دیگر ایک اور خانہ جنگی افغانیوں کا مقدر بنے گی۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاور پالیٹکس کی حرکیات بہت جلد طالبان کو اپنا جارحانہ رویہ ترک کر کے عالمی برادری کے مرکزی دھارے سے ہم قدم رہنے کے اہل بنا دے‘لیکن سب سے اہم بات وزیراعظم عمران خان نے کی ہے کہ ''ہم نے چالیس سال تک امریکا کی جنگ لڑی‘‘اگر یہ بات درست ہے تو پھر امن معاہدہ کے بعد اسی طرح کے کئی اور سوالات بھی سر اٹھائیں گے کہ چالیس سا ل پہ محیط جس جنگ میں ہمار انفراسٹرکچر منہدم اور اقتصادی ڈھانچہ تباہ ہونے کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے‘اس جنگ سے ہمیں کیا ملا؟لاریب‘ اس جنگ میں ہماری دو نسلوں نے کئی ناقابل ِبیان دکھ بھوگتے اور اس مملکت نے بہت کچھ کھویا ‘لیکن 1979ء سے لیکر 1988ء تک افغان جہاد کے پہلے مرحلہ میں ہم نے اٹیمی قوت حاصل کر لی اور2001ء سے لیکر2018 ء تک کے دوسرے مرحلہ میں قبائلی پٹی کو مملکت خدا داد کا حصہ بنا کے ماضی کے دکھوں کا مدوا کر لیا؛بلاشبہ‘ اگر سرد جنگ اور افغان جہاد کے تقاضے راہ میں حائل نہ ہوتے تو امریکا ہمیں ایٹمی قوت بننے دیتا ‘نہ ہم قبائلی علاقوں کو پاکستان کا حصہ بنانے میں کامیاب ہو سکتے۔
نوٹ:گزشتہ کالم میں سہواً کچھ تاریخیں غلط درج ہو گئیں‘ درست یہ ہیں:(ہرچند کہ دنیا 2001ء سے ہی افغان تنازع کے پُرامن حل کی خواہشمند تھی ‘لیکن پہلی بار2018ء میں اس وقت اسی سمت پیش قدمی کے آثار دکھائی دیئے‘جب افغان حکومت اور امریکی فورسز کیخلاف مزاحمت کرنیوالے طالبان نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved