تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-02-2020

سرخیاں‘متن اور ثناء اللہ ظہیرؔ کی غزل

مہنگائی کے ذمہ داروں کو سزا دلانے تک
چین سے نہیں بیٹھوں گا: عمران خان
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کے ذمہ داروں کو سزا دلانے تک چین سے نہیں بیٹھوں گا‘‘ اور چین سے صرف کھڑا ہو سکتا ہوں یا لیٹ سکتا ہوں‘ چین سے بیٹھنا تو خواب و خیال ہو کر ہی رہ جائے گا اور ظاہر ہے کہ بے چینی کی حالت میں کوئی کام کیسے کیا جا سکتا ہے اور اگر اس طبقے کو سزا نہ ملی تو یہ بے چینی مستقل ہو کر ہی رہ جائے گی اور ہر طرح کے کاموں سے بھی چھٹی‘ جبکہ کام کرنے کے لیے عثمان بزدار اکیلے ہی کافی ہوں گے ‘جبکہ ایسا لگتا ہے کہ مہنگائی کے ذمہ داروں کو سزا ذرا مشکل ہی سے ملے گی‘ کیونکہ وہ زیادہ تر اپنے ہی آدمی ہوں گے اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیسے ماری جا سکتی ہے‘ ویسے یہ محاورہ آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ پائوں پر صرف کلہاڑی ہی کیوں ماری جاتی ہے؟ جبکہ اس مقصد کے لیے بَیٹ وغیرہ سے بھی تسلی بخش طور پر کام لیا جا سکتا ہے‘ جبکہ اس کے علاوہ ڈانگ سوٹا بھی کافی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
عمران خان ‘زبان سے معیشت چلا رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان زبان سے معیشت چلا رہے ہیں‘‘ اور جو چیز انگلی سے چلائی جا سکتی ہے‘ اس کے لیے خواہ مخواہ زبان استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ کیونکہ میں نے اپنے دور میں سارے کام انگلی ہلا ہلا کر ہی انجام دیئے تھے اور کئی بار مائیک بھی میری دست بردسے محفوظ نہ رہتا تھا اور ساتھ ساتھ اگر آدمی حبیب جالبؔ کے شعر بھی پڑھتا جائے تو کیا ہی بات ہے‘ بیشک حبیب جالب ؔکی روح کو اس سے کتنی بھی تکلیف پہنچ رہی ہو اور چونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں‘ اس لیے میں صرف انگشت ِشہادت ہی سے کام لیتا تھا‘ کیونکہ انگوٹھے سمیت باقی انگلیاں کسی کام کی نہیں ہوتیں ‘جبکہ گھی نکالنے کے لیے اس انگلی کو بھی ٹیڑھا رکھنا ہوتا ہے اور ہم چونکہ زیادہ گھی ہی نکالتے رہے ہیں‘ اس لیے ہماری یہ انگلی کثرت ِ استعمال سے مستقل طور پر ٹیڑھی ہو چکی ہے اور سیدھی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
بلاول ‘ نواز شریف سے متعلق بات نہ کرتے تو اچھا ہوتا: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''بلاول ‘ نواز شریف سے متعلق بات نہ کرتے تو اچھا ہوتا‘‘ کیونکہ اب عمران خان کو کس منہ سے سلیکٹڈ وزیراعظم کہیں گے‘ اگرچہ ماشاء اللہ ہمارے منہ ایک سے زیادہ اور اس مقصد کے لیے کسی اور منہ سے بھی کام لے سکتے ہیں‘ تاہم بلاول کو یاد رکھنا چاہیے کہ ملکِ عزیز میں آج تک جتنے بھی حکمران آئے ہیں‘ کسی نہ کسی حوالے سے سب کے سب ہی سلیکٹڈ تھے اور جن میں بلاول کے والد صاحب بھی شامل ہیں ‘جو ایک وصیّت نامے لکھ کر ہی صدر بن گئے تھے اور سلیکٹ کرنے والوں نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا تھا‘ تاہم یہ اعزاز نواز شریف ہی کو حاصل ہے کہ وہ ایک نہیں‘ تین بار سلیکٹ ہوئے اور ابھی چوتھی بار بھی ہو سکتے تھے‘ لیکن برادرم حسین نواز نے سارا کام خراب کر دیا اور ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا‘ ماسوائے لندن کے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف کی ابھی کوئی سرجری نہیں ہوئی‘
اطلاعات درست نہیں ہیں: ڈاکٹر عدنان
میاں نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی ابھی کوئی سرجری نہیں ہوئی‘ اطلاعات درست نہیں ہیں‘‘ کیونکہ وہ سرجری پر تیار ہی نہیں ہوتے اور کہتے ہیں کہ میں بھلا چنگا ہوں‘ مجھے خواہ مخواہ سرجری کروانے کی کیا ضرورت ہے‘ جبکہ میرا مقصد صرف ملک سے باہر آنا تھا‘ براہِ کرم میرے کھانے پر ذرا توجہ دیں اور چونکہ وہ سینڈ بیگ پر مُکے بازی کی مشق بھی دن میں کئی بار کرتے ہیں‘ اس لیے انہیں کھانا بھی ان کی ضرورت کے مطابق ہی ملنا چاہیے‘ جبکہ اس مشق کے دوران دو چار مکے شہباز شریف بھی کھا چکے ہیں اور ٹکور شکور وغیرہ کرنے میں مصروف ہیں اور جس کی وجہ سے ان کی وطن واپسی بھی روز بروز موخر ہوتی چلی جا رہی ہے ‘بلکہ وہ تو شہباز شریف کو غصے میں آ کر گُرز ہی دے مارنا چاہتے تھے‘ لیکن خوش قسمتی سے وہ داد بچا گئے ‘ورنہ آج شاید ان کی بھی سرجری شروع ہو چکی ہوتی۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل آباد سے ثناء اللہ ظہیرؔ کی شاعری:
ہوں کامیاب کہ ناکام‘ بڑھتے جاتے ہیں
نئے چراغ سرِ بام بڑھتے جاتے ہیں
میں رفتگاں کے لیے رو نہیں رہا‘ لیکن
مری دعائوں میں کچھ نام بڑھتے جاتے ہیں
یہ رائگانی بھی کیا خوب ہے زمیں کی طرح
پڑے پڑے ہی مرے دام بڑھتے جاتے ہیں
خدا نکلتا نہیں میرے دل کے کعبے سے
پر اس میں کتنے ہی اصنام بڑھتے جاتے ہیں 
بلا رہے ہیں مجھے اُس طرف بھی لوگ ظہیرؔ
اور اس طرف بھی مرے کام بڑھتے جاتے ہیں
خود بھی کچھ کم نہیں ہیں اپنی تباہی کے لیے
دوستوں کی مجھے امداد بھی آ جاتی ہے
رونا ہوتا ہے کسی اور حوالے سے مجھے
اور ایسے میں تری یاد بھی آ جاتی ہے
جہاں سے روکنا ہے آنے جانے والوں کو
اب آپ ہی نہ وہاں آنے جانے لگ جانا
ظہیرؔ چارہ گروں کی پرانی عادت ہے
ہماری چھوڑ کے اپنی سنانے لگ جانا
آج کا مطلع
لہو کی سر سبز تیرگی ہے کہ رنگ اڑتے لباس کا ہے
سمجھ میں آئے کہاں کہ منظر حواس کے آس پاس کا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved