یہ قصّہ اُن دنوں کا ہے جب سربراہ حکومت کا تعلق ملتان سے تھا۔ ملتان ہی سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیش میں ہائی کمشنر یعنی سفیر تعینات کر دیا گیا۔ ان پروفیسر صاحب کے والد گرامی ایک معروف سیاست دان تھے اور ڈھاکہ کے تھے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی علیحدگی کے ہنگامے میں وہ مرکز نواز قوتوں کے ساتھ تھے اور متحدہ پاکستان کے حامی؛ چنانچہ بنگلہ دیش حکومت کے نزدیک ناپسندیدہ شخصیت تھے۔ بنگلہ دیش انہی کے صاحبزادے کو بطور سفیر کیسے قبول کرتا؟ چنانچہ یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی!
یہ ایک معمولی سی مثال ہے، اس حقیقت کی کہ ہماری حکومتیں، ہمارے سیاستدان، ہماری سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی کے حوالے سے ہمیشہ کوتاہ بیں رہیں! دور اندیشی سے کوسوں دور! ذاتی، گروہی، علاقائی اور جماعتی مفادات، قومی مفاد پر غالب رہے۔ گزشتہ پچاس ساٹھ سال کی بیرون ملک تعیناتیوں کا مطالعہ کر لیجیے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں۔ جو ڈپٹی کمشنر، ایس پی پروٹوکول ڈیوٹی کے تحت، وزیر اعظم یا صدر کو ہوائی اڈے پر رخصت کرتا رہا، یا اس کا استقبال کرتا رہا وہ بیرون ملک تعیناتی کے لیے منتخب ہوتا رہا۔ اسامی زراعت سے متعلق تھی یا تجارت سے، افسر عموماً ضلعی انتظامیہ کے پس منظر سے ہوتا۔ اور یہ تو حال ہی میں ہوا کہ ماڈل ٹائون قتل عام فیم بیوروکریٹ کو گزشتہ حکومت نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں سفیر مقرر کر دیا۔
مسلح افواج کا سول سروسز میں مقررہ کوٹا ہے۔ یہ کوٹا بھی میرٹ کی نظروں میں کم ہی آیا۔ کبھی کسی کا داماد فوج سے سول سروس میں آتا رہا، کبھی کسی کا لخت جگر! بعض خوش بخت ایسے بھی تھے جو حکمرانوں کے اے ڈی سی رہے۔ اس قرب نے آسانی پیدا کر دی اور کیپٹن یا میجر سے ڈپٹی کمشنری تک کا سفر سہل ہو گیا۔
کیا ''تبدیل شدہ‘‘ پاکستان میں صورت حال مختلف ہے؟ ہرگز نہیں! ہم جیسے عامی تو شور و غوغا کرتے رہے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے! اب ہمارے ایک دوست صحافی نے بھی کہ حکمرانوں سے قربت رکھتے ہیں، اسی پیش منظر کا ماتم کیا ہے! گویاع
چمن تک آ گئی دیوارِ زنداں! ہم نہ کہتے تھے!
گزشتہ حکومت سے کیا شکوہ تھا؟ یہی کہ میرٹ کے بجائے ایک مخصوص برادری اور ایک خاص شہر کو فوقیت دی جاتی تھی! بیوروکریسی کا گروہ‘ جو اس شہر کے نام سے معروف تھا، وفاق پر چھایا ہوا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر پر مخصوص برادری حکمرانی کر رہی تھی۔ ایڈوائزر بھی اسی برادری سے تھا اور دیگر اربابِ قضا و قدر بھی!
بد قسمتی سے آج بھی منظر نامہ وہی ہے۔ اب مخصوص برادری کے بجائے ایک مخصوص صوبے سے، ایک مخصوص لسانی حوالے سے، وفاقی بیوروکریسی کی ٹاپ اسامیوں کو پُر کیا جا رہا ہے! جھکائو واضح طور پر نظر آتا ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ پورے ملک کا اقتدار سنبھالنے کے باوجود ہم اپنی پرانی پوزیشن کو بھولتے نہیں! ہم وزیر اعظم ہو جاتے ہیں مگر لیڈر نون ہی کے یا قاف ہی کے یا پی پی پی ہی کے یا تحریک انصاف ہی کے رہتے ہیں۔ ہم مرکزی حکومت کی سربراہی کا تاج پہن لیتے ہیں، مگر تعلق وہی پرانا تازہ رکھتے ہیں۔ ملتان والا یا سندھ والا یا کے پی والا! یوں، توازن بگڑ جاتا ہے! افسر شاہی یاس کا شکار ہو جاتی ہے، عوام میں سے جو بیوروکریسی کے ڈھانچے سے واقفیت رکھتے ہیں، وہ سمجھ جاتے ہیں کہ بوتل پر لیبل نیا ہے، اندر وہی صوبائی، جماعتی یا ذاتی مشروب ہے! ایک برادری دوسری کی جگہ لے لیتی ہے! ایماندار، محنتی اور خوفِ خدا رکھنے والے بیوروکریٹ اُسی طرح کونوں کھدروں میں بیٹھے ضائع ہوتے رہتے ہیں۔ بقول میرؔ
گھُٹ گھُٹ کے جہاں میں رہے جب میرؔ سے مرتے
تب یاں کے کچھ اک واقفِ اسرار ہوئے ہم
بیوروکریسی کے ضمن میں ایک اہم پہلو ایسا ہے، جس پر بد قسمتی سے کوئی حکمران توجہ نہ دے سکا۔ فوجی اور جمہوری حکمران اس حوالے سے ایک جیسے بے نیاز یا بے خبر رہے! بیورو کریسی صرف ضلعی انتظامیہ یا صرف پولیس کا نام نہیں! یہ بہت سی پیشہ ورانہ سروسز کا مجموعہ ہے۔ امتحان سب ایک ہی دیتے ہیں، جسے مقابلے کا یا سی ایس ایس کا امتحان کہتے ہیں، مگر شعبے بہت سے ہیں! اس میں فارن سروس بھی ہے، انکم ٹیکس اور کسٹم کا شعبہ بھی (یعنی ایف بی آر)، آڈٹ اینڈ اکائونٹس بھی ہے، کامرس اور ٹریڈ بھی ہے، اطلاعات بھی، ڈاک خانہ جات بھی، ریلوے بھی، ملٹری کی زمینیں اور چھائونیاں بھی! بد قسمتی سے چوٹی کی بیوروکریسی پر صرف ایک گروپ غالب ہے۔ ضلعی انتظامیہ کا! مثال کے طور پر ''اصلاحات کمیشن‘‘ کو لے لیجیے‘ ڈاکٹر عشرت حسین صاحب جس کے سربراہ ہیں۔ اس کمیشن میں بھی اکثریت اسی ایک گروہ ہی سے ہے! کابینہ ڈویژن ہو یا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن، یا وزیر اعظم کا دفتر، ہر جگہ ایک ہی گروہ چھایا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک صرف ایک گروہ نہیں، تمام سول سروس چلا رہی ہے۔ اس میں ڈاکٹر انجینئر اور ماہرین اقتصادیات بھی شامل ہیں۔ آخر ریلوے چل رہی ہے۔ پوسٹ آفس کا محکمہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ کسٹم اور انکم ٹیکس کے افسر محصولات اکٹھے کر کے ملکی خزانے میں جمع کر رہے ہیں۔ وفاق سے لے کر صوبوں تک آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے افسر اور اہلکار کام کر رہے ہیں۔ اکائونٹنٹ جنرل کے دفاتر مصروفِ عمل ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان مقننہ کی مسلسل مدد کر رہا ہے۔ برآمدات اور درآمدات کے شعبے چل رہے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک اطلاعات کے مراکز کام کر رہے ہیں۔ پولیس بیوروکریسی کا ایک اہم اور حساس حصہ ہے؛ چنانچہ سول سروس ان تمام گروہوں کا مجموعہ ہے۔ اب جب وزیر اعظم کے دفتر میں براجمان بیورو کریسی اِدھر اُدھر نظر دوڑاتی ہے تو یرقان زدہ آنکھ کو اپنے گروہ کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا۔ یہی کم نظری کابینہ ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ''اکابر‘‘ کو لاحق ہے۔ اگر کوئی حکمران اس خطرناک عدم توازن سے آگاہ ہو تو انہیں کہے کہ ؎
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
بیورو کریسی میں انصاف یا نا انصافی کرنے میں اہم ترین کردار وزیر اعظم کے دست راست کا ہوتا ہے جسے ''پرنسپل سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر‘‘ کہتے ہیں! ماضی اس ضمن میں نا قابلِ رشک مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ ایک صاحب برسوں کی معطلی (یا بر طرفی) کے بعد وطن واپس آئے۔ پرنسپل سیکرٹری لگے۔ بقایا جات وصول کیے۔ اپنے آپ کو پھر اپنی قریبی عزیزہ کو ترقی دلوائی اور بیرون ملک تعیناتی لے کر یہ جا وہ جا۔ ایک اور صاحب پرنسپل سیکرٹری کی پوسٹ سے ہٹے تو اپنے آپ کو پانچ سال کے لیے محتسب لگوا لیا۔ ایک اور صاحب نے ترکیب نمبر چھ استعمال کی۔ متعلقہ فائل روکی اور اشتہار کے نتیجہ میں درخواست دینے والوں کو منظر سے ہٹا کر ایک اتھارٹی کے مدارالمہام بن گئے۔ یعنی اکثر نے اپنے ''مستقبل‘‘ کی حفاظت کی اور ریٹائرمنٹ کے بعد تازہ چراگاہ کا بندوبست کیا۔
ہم وزیر اعظم کی خدمت میں التماس کرتے ہیں کہ ان نازک پہلوئوں پر غور فرمائیں اور بیوروکریسی کے ایک گروہ کو نہیں، بلکہ تمام بیوروکریسی کو ساتھ لے کر چلیں۔
اسی طرح اس روایت کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ ''پرنسپل سیکرٹری‘‘ ریٹائرمنٹ کے بعد گھی شکر والی ایک اور تعیناتی لے اُڑے۔ ایسی نازک اسامیوں پر تعینات افراد کو بے غرض اور خدا ترس ہونا چاہئے۔ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں اور گروہی ترجیحات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف ملک کے نقطۂ نظر سے خدمات سر انجام دیں۔