فرعونوں والے ملک پر تیس سال حکومت کرنے والے حسنی مبارک اکانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو مخالفین ان کے دور آمریت میں فرعون کا خطاب دیتے تھے۔ جنوری دو ہزار گیارہ میں جب انہیں مصر کے عوام نے پُرتشدد احتجاج اور دھرنے کے بعد اقتدار سے نکال باہر کیا تو اس وقت وہ اپنے بیٹے جمال کو اقتدار سونپنے کا سوچ رہے تھے۔ اٹھارہ دن کے عوامی احتجاج نے فرعون سمجھے جانے والے آمر کا نہ صرف تختہ الٹ دیا بلکہ حکمرانی کو خاندانی وراثت بنانے سے بھی روک دیا۔
اقتدار بچانے کے لیے حسنی مبارک نے عوام کے خلاف طاقت کا استعمال کیا اور اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان پر آٹھ سو پچاس مظاہرین کے قتل کا مقدمہ چلا۔ اس مقدمے کے دوران وہ ہسپتال کے بستر پر ایک قیدی کی حیثیت سے پڑے تھے۔ حسنی مبارک شاہ مصر فاروق کے دور میں انیس سو پچاس میں مصر کی فضائیہ میں شامل ہوئے۔ چار سال بعد جمال عبدالناصر نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھال لی۔ انیس سو چونسٹھ میں حسنی مبارک کو سوویت یونین میں ملٹری اتاشی مقرر کیا گیا۔ سوویت یونین اس وقت جمال عبدالناصر کی حکومت کو اسلحہ فراہم کرنے والا واحد ملک تھا۔ انیس سو سڑسٹھ سے انیس سو بہتر تک حسنی مبارک نے ایئر چیف آف سٹاف کی ذمہ داریاں نبھائیں اور فوجی امور کی وزارت کے نائب وزیر بنے۔ انیس تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد انہیں ایئر مارشل بنا دیا گیا۔
جمال عبدالناصر کے بعد انورالسادات صدر بنے۔ انیس سو پچھتر میں صدر انورالسادات نے حسنی مبارک کو نائب صدر مقرر کیا اور پھر اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ اکتوبر انیس سو اکیاسی میں انورالسادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک ملک کے صدر بن گئے۔ انورالسادات کو ایک فوجی پریڈ کے دوران اسرائیل سے امن معاہدے اور صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کی پاداش میں قتل کیا گیا اور حسنی مبارک اس وقت ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس حملے میں حسنی مبارک کا ہاتھ زخمی ہوا لیکن جان بچ گئی۔صدر بننے کے بعد حسنی مبارک نے اختلاف رائے کی کچھ گنجائش دی لیکن اختلاف رائے کے لیے حدیں بھی مقرر کیں۔ ان کے خاندان پر تنقید کی اجازت نہیں تھی۔ حسنی مبارک نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سیاسی اصلاحات کا وعدہ کیا جو کسی بھی آمر کی طرح انہوں نے پورا نہ کیا اور انیس سو اکیاسی میں نافذ کی گئی ایمرجنسی طویل عرصہ برقرار رہی اور ان کی طویل حکمرانی کے خلاف عوامی بے چینی کو بڑھانے کا سبب بنتی رہی۔
انیس سو اسی کی دہائی میں مصر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور اس نے عالمی اداروں سے لئے گئے قرض کی قسطیں ادا کرنا بند کر دی تھیں۔ صدر حسنی مبارک نے کویت عراق جنگ میں فوجی دستے بھجوانے کی ہامی بھر کر ملک کو قرضوں سے نکالا۔ حسنی مبارک نے دو ہزار چار میں سرکاری املاک بیچنے کا آغاز کیا اور دو ہزار نو تک ملک میں چالیس ارب ڈالر براہ راست بیرونی سرمایہ کاری آئی۔
کویت جنگ میں کود کر قرضے معاف کرانا اور اثاثے بیچ کر چالیس ارب ڈالر لانا بھی حسنی مبارک کو مقبول رہنما نہ بنا سکا۔ ان کا عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا بلکہ وہ عوام کی پہنچ سے دور تھے۔ مصر میں دو ہزار آٹھ میں مہنگائی کی شرح بیس فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن حسنی مبارک کو عوام کی مشکلات سے کوئی سروکار نہ تھا۔ حسنی مبارک کے حامی اس مہنگائی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو قرار دیتے تھے اور ان کے مطابق پچھلی حکومتوں کی بدانتظامی اور مصر کی تیزی سے بڑھتی آبادی مشکلات کا باعث تھی۔ امریکا سے ہر سال ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کے باوجود عوام کے ریلیف کے لیے کچھ نہ کرنے والے حسنی مبارک کا مسائل پچھلی حکومتوں کے سر ڈالنا عوامی غم وغصے کے لاوے کو بھڑکانے کا باعث بن رہا تھا لیکن حسنی مبارک تاحیات حکمرانی اور اپنے بعد اولاد کی حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے۔
انیس سو ستر میں تشدد سے تائب ہونے والی اخوان المسلمین حسنی مبارک کے دور میں ان کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مقبول جماعت بن کر ابھری۔ حسنی مبارک نے دو ہزار پانچ میں اپنے مقابلے میں کئی امیدواروں کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی لیکن حسنی مبارک کا کنٹرول اس قدر مضبوط تھا کہ ان کے مقابلے میں کوئی حقیقی امیدوار نہ ابھر سکا۔ حسنی مبارک نے اس الیکشن میں اٹھاسی فیصد ووٹ لیے اور ان کے مقابلے میں ایمن عبدالعزیز نور نے سات فیصد ووٹ لیے لیکن الیکشن کے بعد انہیں فراڈ کے مقدمات میں جیل بھجوا دیا گیا۔
اسی سال پارلیمانی الیکشن میں اخوان المسلمین نے چار سو چون رکنی پارلیمنٹ میں اٹھاسی نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی جو حسنی مبارک کے لیے ایک سرپرائز تھا۔ الیکشن نتائج کے بعد اسلامی تنظیموں کے کارکنوں، حسنی مبارک مخالف سیکولر سیاست دانوں، ججوں، اخبارات کے ایڈیٹروں، بلاگرز اور مظاہرین پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اخوان المسلمین کے سینکڑوں کارکن پکڑے گئے اور ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے۔
اس کریک ڈاؤن کے ساتھ حسنی مبارک کی گرفت مزید ڈھیلی پڑ گئی اور اخوان المسلمین اور نوجوانوں کی تحریک کا ایک غیر متوقع اتحاد ابھر کر سامنے آیا۔ ٹویٹر اور فیس بک پر اس تحریک نے عوام کو متحرک کیا اور انہیں سڑکوں پر لے آئے۔ حسنی مبارک نے باضابطہ طور پر کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا؛ تاہم اپنے مخالف تحریک کو دبانے کے لیے انہوں نے جنوری دو ہزار گیارہ میں انٹیلی جنس چیف کو نائب صدر مقرر کیا۔ ان کی سرکاری جماعت میں ان کے بیٹے جمال کو جو اہمیت دی جا رہی تھی اس سے اس خیال نے تقویت پکڑی کہ وہ جمال کو اپنا نائب مقرر کرنا چاہتے ہیں۔ اس خیال سے حسنی مبارک کے خلاف تحریک مزید زور پکڑ گئی‘ جو ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔حسنی مبارک کے انتقال پر ان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے اور اس کی پاداش میں جیل کا سامنا کرنے والے ایمن عبدالعزیز نور نے کہا کہ لوگوں کی زندگی میں ان کے سامنے کھڑا ہونا ان کے مرنے کے بعد ان کے خلاف بات کرنے سے بہتر ہے‘ اس لیے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر انہیں معاف کرتے ہیں لیکن مصر اور مصری عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر انہیں اللہ کے حضور جواب دینا ہو گا۔
حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد جمہوریت کا ایک چھوٹا سا وقفہ آیا اور اب مصر ایک بار پھر ایک آمر کو بھگت رہا ہے۔ مصر میں آنے والا ہر آمر عوامی امنگوں کو دبانے اور اقتدار مضبوط کرنے کے لیے جبر روا رکھنے میں اپنے پیشرو سے بڑا آمر ثابت ہوا ہے۔ حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی اور جیل کے باوجود دنیا بھر میں اقتدار سے چمٹے رہنے کے خواہش مندوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ہر ڈکٹیٹر یا آمرانہ سوچ رکھنے والا بظاہر منتخب حکمران اقتدار کے دوام کا سوچ کر بیٹھا ہے جس کے لیے کبھی میڈیا پر پابندی لگتی ہے، کبھی منصف جیلوں میں ڈالے جاتے ہیں اور کبھی معاشرے کا آئینہ بننے والے صحافی زندانوں کے پیچھے دھکیلے جاتے ہیں اور کبھی بڑا کریک ڈاؤن ہوتا ہے جس میں ہر اختلافی رائے رکھنے والا مجرم قرار پاتا ہے۔
مصر کے معروف صحافی اسامہ جاویش نے حسنی مبارک کے انتقال پر کہا کہ انہیں ہمیشہ فخر رہے گا کہ وہ حسنی مبارک کے خلاف مظاہروں کا حصہ رہے، ہم ہمیشہ فخر سے اپنے بچوں کو بتائیں گے کہ ہم نے اس ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا کیا۔ ہم نے اسے جیل میں ڈالا، کرپٹ عدلیہ، فوج اور پولیس کی مدد سے وہ رہا ہوا لیکن ہم اسے اقتدار سے نکالنے میں کامیاب رہے اور ہم سب کو اس پر فخر ہے۔عرب اسرائیل جنگ میں قومی ہیرو کا درجہ پانے والا اقتدار کے لالچ میں عوامی نفرت کا شکار ہوا، شاید وہ بھول گیا کہ دائم اقتدار کا مالک صرف ایک ہی ہے جو اس زمینی حاکمیت اور اس کے محکوم عوام سب کا مالک ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے سچ لکھا تھا ؎
قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا
دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا