تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     28-02-2020

پاکستان کا نیا عالمی امیج

دہائیوں تک ہر منفی فہرست میں دنیا کے خطرناک، پُرتشدد، غیر محفوظ اور کرپٹ ترین ملکوں میں سرفہرست رکھے جانے کے بعد آخرکار گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کو ایسا 'قابل اعتماد اور مددگار ملک‘ قرار دیا جو امن و امان کیلئے علاقائی اور عالمی سطح پر نیا کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں‘ جب پاکستان کی اقوامِ عالم میں شناخت ایک ایسے ملک کی تھی‘ جو مذہبی انتہا پسندی اور عسکریت پسندوں کیلئے 'زرخیز زمین‘ اور دہشتگردی کا گڑھ تھا۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں شدت پسندی کا کوئی واقعہ ہوتا اس کا سرا کسی نہ کسی طور ہم تک پہنچا دیا جاتا تھا۔ ہمیں بیک وقت مسئلہ بھی اور اس کے حل کی کلید بھی سمجھا جاتا تھا۔ دہائیوں بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے چار روزہ دورے کے دوران ہمیں اپنے ملک کے بارے میں کچھ اچھی خبریں سننے کو ملیں۔ سیکرٹری جنرل ''افغان مہاجرین کی میزبانی کے چالیس برس‘‘ پر منعقدہ عالمی کانفرنس کے مہمان خصوصی بھی تھے۔ اس کانفرنس میں ان کی موجودگی بذات خود اس وسیع القلبی اور عزم کا اعتراف تھا‘40 برس افغان مہاجرین کی میزبانی کرکے پاکستان نے جس کا عملی مظاہرہ کیا۔ یہ افغان امن اور استحکام کیلئے پاکستانی کاوشوں کی تحسین بھی تھی۔اس موقع پر انہوں نے بلند آہنگ میں تسلیم کیا کہ '' پاکستان میں ہمیں عملی یکجہتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان نے مسائل کے باوصف اور عالمی برادری کی جانب سے محدود تعاون کے باوجود افغان مہاجرین کو تحفظ فراہم کیا۔ اگر پاکستان یہ کردار ادا نہ کرتا تو اس خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا‘‘۔ سیکرٹری جنرل نے اقوام متحدہ کے مرکزِ نگاہ تین کلیدی معاملات ''پائیدار ترقی، ماحولیاتی تبدیلی اور امن‘‘ پر خصوصی خطاب کیا اور پاکستان کیلئے رطب اللسان رہے۔ انہوں نے اپنے بہادر فوجی دستوں کے ذریعے اقوام متحدہ کی امن کاوشوں میں پاکستان کے وسیع کردار کی خاص طور پر تعریف کی۔ 
دہائیوں میں پہلی بار ہم نے دنیا میں بلند ترین سطح کے سفارتکار کو پاکستان کے علاقائی اور عالمی کردارکو تسلیم کرتے ہوئے سنا۔ ان کے الفاظ واقعتاً ہماری سماعتوں کیلئے موسیقی تھے۔ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے جو اہم ترین پیغام اقوام عالم کو پاکستان کے حوالے سے دیا‘ یہ تھا کہ دُنیا کو چاہیے‘ ایک قدم پیچھے ہٹ کر پاکستان کو زیادہ وسیع تناظر میں دیکھے۔ انہوں نے امن کاوشوں، لاکھوں افغان مہاجرین کی فراخدلانہ میزبانی، افغان امن عمل‘ عالمی سطح پر جامع ترقی اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے معاملات میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی۔ 
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے لاہور اور کرتارپور کے دورے نے ان پر پاکستان کی تاریخ کے ساتھ اس کی نئی شناخت کے در بھی وا کر دیئے۔ کرتارپور میں سکھ گوردوارے اور لاہور میں بادشاہی مسجد کے دورے کے دوران یوں محسوس ہوتا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں جو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری دیکھی اُس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ گوتریس نے کرتار پور راہداری کو ''امید کی راہداری‘‘ قرار دیا اور کہا ''جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کئی حصوں میں لوگ مذہب کے نام پر لڑ رہے ہیں تو یہ کہنا ضروری ہو جاتا ہے کہ مذہب ہمیں بنام امن ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا بھی ہے اور یہ مقام (کرتارپور) اس کی بہترین مثال ہے‘‘۔
پاکستان کے ثقافتی ورثے کی تعریف کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ نے ایک ٹویٹ میں پاکستانی عوام کا شکریہ ان الفاظ میں ادا کیا: ''لاہور کے شاندار ماضی اور اس کے جاندار کلچر سے لطف اندوز ہونے کے بعد میرا پاکستان کا دورہ مکمل ہو گیا‘ لاہور قلعہ سے، جو یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل ہے، عظیم الشان بادشاہی مسجد تک‘‘۔ اپنے دورے کے آخری حصے میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ''یہ ایک جذباتی لمحہ ہے۔ یہاں جو بین المذاہب مکالمہ دیکھا وہ بہت حیران کن تجربہ تھا‘‘۔ سچ یہ ہے کہ یہ دورہ محض ایک پروٹوکول ایونٹ نہیں تھا۔ یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی کی علامت تھا۔ وہ کامیابی جو عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے بدلتے عالمی امیج میں نظر آ رہی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اقوام عالم میں ایک پُرامن، روادار اور ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اپنا نیا مقام بنانا شروع کر دیا ہے۔
پاکستانی حکام سے ملاقاتوں میں ان کی اہم ترین ملاقات وزیر اعظم عمران خان سے تھی‘ جن کی شخصیت کی وجہ سے دنیا کا پاکستان کے بارے میں تصور تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں وزیر اعظم نے انہیں جموں و کشمیر کے تنازع کے ہر پہلو سے آگاہ کیا، خصوصاً اُس گمبھیر صورتحال کی جانب توجہ مبذول کرائی جو انڈین افواج کی جارحیت اور غارتگری کی وجہ سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنم لے رہی ہے۔ گزشتہ برس اگست سے جاری لاک ڈائون نے مقبوضہ کشمیر کو ایک اوپن ایئر جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ یہ صورتحال غزہ سے مختلف نہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ کشمیر میں انسانی تباہی کو روکنے کیلئے ہنگامی سطح پر مداخلت کرے۔ انسانی حقوق کا پھیلائو اور ان کا تحفظ عالمی ذمہ داری ہے اور اقوام متحدہ کو اکیسویں صدی کے اس بدترین ہولوکاسٹ کو روکنے کیلئے اپنی ذمہ داری لازماً پوری کرنا ہو گی۔ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے خطرے کی لٹکتی ہوئی تلوار عالمی برادری سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرے‘ اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔
دُنیا کو عمران خان کی یہ تنبیہہ نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اگر اس بار انڈیا پاکستان جنگ چھڑی تو اس کا انجام نیوکلیائی تباہی ہو گا۔ اس تباہی کو روکنا نہایت ضروری ہے۔ سیکرٹری جنرل نے بھی صورت حال کی سنگینی تسلیم کرتے ہوئے انڈیا اور پاکستان کے مابین بڑھتے ہوئے تنائو پر ''گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا: ''میں بارہا اس بات پر زور دے چکا ہوں کہ ممکنہ حد تک برداشت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے اور عسکری اور زبانی تنائو میں کمی لانے کیلئے فریقین کو اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کی میری پیشکش سے مستفید ہونا چاہیے‘‘۔
بہرحال ہمیں اقوام متحدہ کے کردار کے متعلق کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنے چارٹر کے مطابق اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھا پائے گی یا نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پی فائیو کے نام سے جانے جانے والے عالمی سطح کے طاقتور کھلاڑیوں کے معاشی و سیاسی مفادات نے اقوام متحدہ کے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لیگ آف نیشنز کی مانند اقوام متحدہ عالمی اہمیت و نسبت کے معاملات میں بامعنی ثالث کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اب اس کا انتظام قانون کی حکمرانی یا عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقدار کے مطابق نہیں چلایا جاتا۔ نہ تو اقوام متحدہ کوئی بڑا تنازعہ حل کر سکی ہے اور نہ ہی اس نے کسی بڑے جھگڑے کو روکا ہے۔ آج بڑے بڑے معاملات کا فیصلہ نیویارک میں نہیں واشنگٹن میں ہوتا ہے حتیٰ کہ خود سیکرٹری جنرل بھی اگلے برس کے اختتام پر اپنے عہدے کی دوسری مدت کیلئے واشنگٹن کی جانب ہی دیکھیں گے۔ ایسے میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ صدر ٹرمپ کشمیر کے معاملے پر اپنی ''ثالثی‘‘ کا ڈھول پیٹتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ اپنا کردار کس حد تک ادا کر سکتی ہے یہ وقت ہی بتائے گا۔
کیا اقوام متحدہ کا انجام اپنی پیش رو تنظیم لیگ آف نیشنز جیسا ہی ہوگا یا دوسرے لفظوں میں کیا اقوام متحدہ چارٹر کے مطابق اپنی ساکھ، کردار اور اختیار کو برقرار رکھ سکے گی۔ جواب بہت سادہ ہے۔ اقوام متحدہ صرف اسی صورت میں متعلق رہ سکتی ہے اگر وہ عالمی سطح پر قانون و انصاف کا تحفظ کرے اور لاقانونیت اور نا انصافی کی مخالفت کرے۔ اسے اپنے وجود کی بنیاد یعنی عالمی سطح پر آداب و اقدار اور کثیر جہتی کو بحال کرنا ہوگا۔ اس کیلئے اسے اپنے پورے نظام میں اصلاحات لانا ہوں گی تاکہ یہ بین الحکومتی تنظیم کے طور پر نمائندہ اور مؤثر ثابت ہو۔ 'ایک ملک ایک ووٹ‘ کا اصول اس کے کثیر جہتی، جمہوری اور اصولی کردار کی علامت بن سکتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کی راکھ سے ابھرنے والی اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ اسے انسانیت اور آنے والی نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھ کر امن اور خوشحالی کے دوہرے مقاصد کے حصول کا ذریعہ بننا تھا۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے اسے ''بنی نوع انسان کی آخری بہترین اُمید‘‘ قرار دیا گیا۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ آج انسانیت کی آخری بدترین امید بھی نہیں رہی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved