پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر (سابق وزیر اعظم) شاہد خاقان عباسی اور سیکرٹری جنرل احسن اقبال، اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست ضمانت کی منظوری کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا ہو گئے۔ شاہد خاقان تقریباً ساڑھے چھ ماہ اور احسن اقبال سوا دو ماہ پسِ دیوارِ زنداں رہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی کیس میں گرفتاری کے بعد، جسمانی ریمانڈ کے لیے نیب عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے ریمانڈ کی مخالفت کی بجائے، جج صاحب سے کہا کہ انہیں ایک، دو ہفتوں کے لیے نہیں، 90 روز کے لیے نیب کے جسمانی ریمانڈ میں دے دیا جائے کہ اس دوران وہ تفتیش کاروں کو یہ کیس پوری تفصیل کے ساتھ سمجھا سکیں۔ بعد میں مزید دلچسپ صورتِ حال یوں پیدا ہوئی کہ موصوف نے ضمانت کی درخواست دینے سے بھی انکار کر دیا۔ اس دوران وہ اڈیالہ جیل میں، کسی ایسی سہولت کے بھی طلب گار نہ ہوئے جو، ان کا قانونی حق تھی۔ انہیں سی کلاس کے عام سیل میں رکھنے کی بجائے، سزائے موت کے مجرموں کی کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا۔ وہ یہاں بھی ہنستے مسکراتے رہے۔ انڈیا والے عرفان صدیقی کے بقول ؎
ہمارے آنسوئوں کو التجا کو
ترستا رہ گیا، قاتل ہمارا
اس کیس میں مفتاح اسماعیل بھی شریک ملزم تھے۔ وہ شاہد خاقان کی کابینہ میں وزیر خزانہ رہے۔ وہ ایک ''غیر سیاسی مخلوق‘‘ تھے لیکن چار ماہ کی جیل انہوں نے بھی ہمت و حوصلے سے کاٹ لی۔ انہوں نے ضمانت پر رہائی کے بعد میاں صاحب سے لندن میں رابطہ کر کے بتایا کہ شاہد خاقان جیل میں کس اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس پر میاں صاحب نے حسین نواز کے ذریعے اپنے وفا شعار ساتھی کو سختی سے ہدایت کی کہ وہ ضمانت کے لیے درخواست دیں (کہ یہ ان کا قانونی حق ہے) ویسے بھی وہ اپنے عزم و حوصلے اور ہمت و استقامت کا وافر ثبوت مہیا کر چکے۔ اب پارٹی (اور کارکنوں) کو ان کے جیل کے اندر رہنے کی نہیں، باہر آ کر سرگرم ہونے کی ضرورت ہے؛ چنانچہ شاہد خاقان نے ضمانت کے لیے درخواست دی اور توقع کے عین مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ سے ان کی ضمانت ہو گئی کہ کیس میں کچھ تھا ہی نہیں۔ ساڑھے چھ ماہ کے عرصے میں تفتیش کار کچھ بھی نہیں نکال پائے تھے۔
شاہد خاقان کے لیے سیاسی وفاداری اور اصولوں کی پاسداری میں قید و بند کی آزمائشوں سے گزرنے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ 12 اکتوبر 1999 کے طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے ملزموں میں وہ بھی شامل تھے۔ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے خاندانی روابط کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کے والد محترم، ایئر کموڈور (ر) خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں مری میں راجہ ظفرالحق کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔ وہ ضیاء الحق/ جونیجو کابینہ کے رکن تھے۔ 10 اپریل 1988 کے اوجڑی کیمپ دھماکے کے نتیجے میں جب جڑواں شہروں پر میزائلوں کی بارش ہو رہی تھی، خاقان عباسی بھی ایک میزائل کا نشانہ بن گئے۔
طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں شاہد خاقان کے لیے با عزت رہائی کی ''پیشکش‘‘ موجود تھی، انہیں صرف (چودھری امین اللہ کی طرح) وعدہ معاف گواہ بننا تھا، لیکن انہوں نے پیغام رساں کے ہاتھ، پیغام بھجوانے والے کو ایسا کرارا جواب بھجوایا کہ اسے دوبارہ ایسی پیش کش کی ہمت نہ ہوئی۔
طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں خصوصی عدالت کے جج رحمت حسین جعفری نے میاں صاحب کے سوا، تمام ملزمان کو باعزت بری کر دیا تھا‘ لیکن ان کی رہائی عمل میں نہ آ سکی کہ ان کے خلاف دیگر مقدمات بھی تیار تھے۔ میاں صاحب کی جلا وطنی کے بعد، شاہد خاقان سمیت باقی زیر حراست افراد کی رہائی بھی عمل میں آ گئی۔ شاہد خاقان، اپنے جلا وطن لیڈر سے ملاقات کے لیے جدہ آئے، تو ڈنر ٹیبل پر کئی اور افراد کے ساتھ ہم بھی موجود تھے۔ جہاں میاں صاحب اور شاہد خاقان اپنے ایام اسیری کے کچھ دلچسپ واقعات یاد کر رہے تھے۔ کہیں کہیں شہباز صاحب بھی درمیان میں لقمہ دے دیتے تھے۔
28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ سے نا اہلی کے بعد، پرائم منسٹر ہائوس میں اپنی جانشینی کے لیے معزول وزیر اعظم کی نظرِ انتخاب شاہد خاقان پر گئی اور سب نے اس پر صاد کیا۔ دس ماہ کی یہ وزارتِ عظمیٰ شاہد خاقان نے بڑی عزت اور بڑے وقار کے ساتھ نبھائی۔ وہ اپنے ذاتی گھر میں مقیم رہے۔ پرائم منسٹر ہائوس، صرف سرکاری سرگرمیوں کے لیے تھا جہاں باقاعدگی سے کابینہ کی میٹنگز ہوتیں۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی باقاعدہ ''حاضری‘‘ دیتے۔ وہ کسی بھی منصوبے کی تقریبِ افتتاح میں، اپنے پیش رو کا ذکر کرنا نہ بھولتے، اور اسے ''دلوں کا وزیر اعظم‘‘ قرار دیتے۔
25 جولائی 2018 کی شب کئی اور حلقوں کی طرح مری کا انتخابی نتیجہ بھی بہت سوں کے لیے حیران کن تھا۔ شاہد خاقان عباسی کے لیے اپنے حلقے میں یہ پہلی شکست تھی۔ حمزہ شہباز نے لاہور سے قومی اسمبلی کی اپنی سیٹ خالی کی تو ضمنی انتخاب میں یہاں شاہد خاقان کی نامزدگی پارٹی قیادت کی طرف سے، ان کی سیاسی استقامت، اصول پسندی اور سیاسی نظریے سے محکم وابستگی کا اعتراف تھا۔ لاہور والوں نے بھی شاہد خاقان کو اپنے بھرپور اعتماد سے مالا مال کر دیا۔
احسن اقبال ایک عرصے سے ''دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹک ‘‘ رہے تھے، جرم ان کا بھی وہی تھا، شاہد خاقان جس کے مرتکب تھے۔ اردو محاورے کے مطابق بکرے کی ماں کب تک خیر مناتی۔ بالآخر احسن اقبال بھی دھر لیے گئے، کسی کرپشن، کسی نا جائز مالی فائدے کا الزام ثابت کرنا شاید مشکل تھا؛ چنانچہ فردِ جرم میں اختیارات کا نا جائز استعمال لکھا گیا۔ احسن ''حاضر سروس‘‘ ایم این اے کے علاوہ، ماضی میں تین بار وفاقی وزیر اور ایک بار پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہ چکے تھے۔ اس حیثیت میں وہ جیل میں ''B‘‘ کلاس کے مستحق تھے، انہیں اس کی پیش کش بھی ہوئی، جس کے لیے صرف ایک درخواست لکھنا تھی، لیکن ان کا جواب تھا، اسی (اڈیالہ) جیل میں ان کا لیڈر جس حال میں، اور جس جگہ ہے وہ بھی اسی حال میں اور اسی جگہ رہنا پسند کریں گے؛ چنانچہ شاہد خاقان کی طرح ان کی قیام گاہ بھی سزائے موت والے قیدیوں کی کوٹھڑی قرار پائی۔ وہ ایک ماہ جسمانی ریمانڈ پر حراست میں رہے تھے۔ 5 ہفتے جوڈیشل ریمانڈ پر، اڈیالہ کی کال کوٹھڑی میں گزار کر شاہد خاقان کے ساتھ بدھ کی سہ پہر اڈیالہ جیل سے باہر آئے، تو دور تک نعروں کی گونج تھی اور پھولوں کی بارش۔
شام کو ایک ٹاک شو میں احسن اقبال کا کہنا تھا، اپنے کاز کے ساتھ کمٹ منٹ اور حق سچ کی حمایت میں کھڑے ہونے کا احساس وہ داخلی توانائی اور ہمت و حوصلہ دیتا ہے جس کی بدولت انسان کسی بھی آزمائش سے ہنستے مسکراتے گزر جاتا ہے۔ احسن کا کہنا تھا، قید و بند کی آزمائشوں میں، اپنے لیڈر کی مثال بھی ان کا حوصلہ بڑھاتی رہی۔ اور سب سے بڑی بات اللہ کی بخشی ہوئی توفیق، جو انسان کو تھامے رکھتی ہے‘ اور اسے گرنے نہیں دیتی۔
احمد ندیم قاسمی کی شہرہ آفاق نعت کے دو اشعار ؎
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ ہے تیرا کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
بہت سوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہے کہ لیڈر شپ پر پے در پے عتاب کے باوجود پارٹی قائم و دائم ہے۔
تو تیر آزما، ہم جگر آزمائیں