تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-02-2020

ٹرمپ کا دورہ محض نوٹنکی نہیں!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بھارتی دورے سے کسی بھی بیرونی سربراہ کے دورے کی برابری نہیں کی جا سکتی ۔کچھ معنوں میں یہ بے مثال رہا ہے ۔اب تک آئے کسی بھی امریکی صدر یا کسی دیگر بیرونی لیڈرنے بھارت یا اس کے وزیر اعظم کی ایسی تعریف نہیں کی ‘جیسی کہ ٹرمپ نے کی ہے ۔ دودن کے اپنے قیام کے دوران ٹرمپ نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولا اور کوئی بھی حرکت ایسی نہیں کی جس کے لیے وہ ساری دنیا میں جانے جاتے ہیں ۔دوسرے الفاظ میں ان کے بھارتی دورے نے انہیں کافی مضبوط بنا دیا ۔اگر اس مضبوطی کو وہ بنائے رکھیں گے تواگلاصدارتی الیکشن جیتنے میں انہیں کافی مدد ملے گی ۔ٹرمپ نے اپنے احمدآباد بھاشن میں پاکستان کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے کیا ۔انہوں نے دہشت گردوں سے لڑنے پر پاکستان کی بھر پور تعریف کی اور پاکستان پر کسی طرح کی الزام تراشی بھی نہیں کی ۔اس لڑائی میں انہوں نے پاکستان کی مدد کی بات بھی کی‘امریکہ کو افغانستان سے جان چھڑانے کے لیے پاکستان کی جو مدد چاہیے اس کاذکر بھی کیا ۔انہوں نے کشمیر پر ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کو بھی دہرایا۔ٹرمپ نے احمدآباد میں جو چھکے مارے ‘ان پرامریکہ کے چالیس لاکھ بھارتی نژاد لوگ تالیاں پیٹ رہے ہیں۔اس چناؤی موسم میں اس سے بڑے فائدے کا سودا کیا ہو سکتا ہے ؟انہوں نے چلتے چلتے اکیس ہزار کروڑ روپے کے ہیلی کاپٹر بھی بھارت کو بیچ دیے اور اربوں روپے کے سبز باغ بھی دکھا دیے ۔ٹرمپ نے اس بھارتی دورے سے اپنے ملک کا بہتر تو سوچا ہی ‘مودی کی اور اپنی شان کو بھی چار چاند لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دورے سے بھارت کو کتنا فائدہ ہوا ‘یہ تو جلد پتہ چل جائے گا‘ لیکن ٹرمپ ایسے لیڈر ہیں جو امریکہ کے فائدے کے لیے کسی بھی ملک کو کتنا بھی نچوڑ سکتے ہیں ۔یہ حقیقت ان کے برطانیہ ‘یورپ اور ایشیائی ممالک کے مختلف دوروں سے اب تک ابھر کر سامنے آئی ہے ۔امریکہ نے بھارت کا ترجیحی تجارتی شراکت دار کا درجہ ختم کردیا ہے ‘جس کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کو اپنے مال پر ملنے والی بھاری امریکی ٹیکس کٹوتی بھی ختم ہو جائے گی ۔بھارت نے بھی جوابی کارروائی کی ہے ‘اسی لیے امریکی صدر کے دورے کے دوران باہمی تجارت کا معاملہ حل نہیں ہو پایا‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ٹرمپ کا یہ دورہ صرف نوٹنکی بن کر رہ گیا ۔نوٹنکی تو وہ ہیں ہی‘ مودی اور ٹرمپ اس معاملے میں گرو چیلے ہیں ۔ٹرمپ کا بار بار یہ کہنا کہ احمدآباد میں ان کے استقبال کے لیے پچاس سے ستر لاکھ لوگ آئیں گے ‘کورا مذاق تھا ۔شاید انہوں نے فون پر بات چیت میں ہزار کو لاکھ سمجھ لیا ۔جو بھی ہو ‘ ٹرمپ کے لیے یہی بہتر ہے کہ امریکہ کے بھارتی نژادچالیس لاکھ ووٹروں کووہ اپنے چنائو کے لیے متاثر کر لیں ۔خطے میں چینی ہولڈ کے خلاف لڑنے میں امریکہ بھارت کو اپنے ساتھ لینا چاہتاہے‘ لیکن افغانستان سے اپنا پنڈ چھڑانے میں پاکستان کو گلے لگائے بنا بھی نہیں رہ سکتا ہے ‘ جبکہ طالبان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کوئی تیاری بھارت کے پاس ابھی تک دکھائی نہیں پڑ رہی ہے ۔
مجرم امیدوار ادھورا فیصلہ 
بھارتی سپریم کورٹ نے سیاست کو مجرموں سے آزاد کرنے کا جو حکم صادر کیا ہے ‘اس کا خیر مقدم ہے‘ لیکن وہ حکم ادھورا ہے ۔یہ تو ٹھیک ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیاں اپنے امیدواروں کے جرائم کی تفصیل دیں اور نامزد کرنے کے 48گھنٹوں میں انہیں پیش کریں یا امیدواری کا فارم جمع کرنے کے دو ہفتے پہلے بتائیں ۔لیکن عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ ان تفصیلات کو کون سے اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر نشر کیا جانا ہے؟یہ اصول تو پہلے بھی تھا لیکن امیدواروں نے ایسے اخبار چُنے جنہیں بہت کم لوگ پڑھتے ہیں اور ایسے ٹی وی چینل چنے جنہیں بہت کم لوگ دیکھتے ہیں ۔اخبارات میں جرائم کے اشتہارات اتنے چھوٹے اور چینلوں پر ایسے وقت دیے جاتے ہیں ‘ جبکہ ان کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔اس بار عدالت نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو یہ بھی تفصیل سے بتانا ہوگا کہ مجرم ہونے کے باوجود فلاں امیدوار کو اس نے کیوں چُنا؟اس کی قابلیت کیا ہے اور اس کے کام کتنے ہیں ؟یہ شرط فالتو ہے ‘کیونکہ بھارت میں کسی بھی امیدوار کی واحد قابلیت یہی ہے کہ وہ اکیس برس کا ہو ۔عدالت کہتی ہے کہ اس میں چنائو جیتنے کی صلاحیت ہے ‘یہ دلیل نہیں مانی جائے گی تو وہ یہ بتائے کہ پارٹیاں اور کون سی صلاحیتوں کو دیکھیں‘اپنے امیدوار طے کرتے ہوئے ؟چنائو جیتنے کے لیے پیسہ ‘ذات ‘ نسل پرستی‘جھوٹے وعدے ‘نفرت وغیرہ اپنے آپ میں صلاحیت بن جاتے ہیں ۔اگر کوئی پارٹی کسی امیدوار کی ہوائی صلاحیتیں یا حاصلات کی تفصیل دے دے تو چنائو کمیشن یا عدالت کیا کر سکتی ہے؟عدالت کہتی ہے کہ یہ تفصیلات مقررہ وقت میں کوئی پارٹی نہ دے تو اس پر چنائو کمیشن کیس درج کر سکتاہے۔عدالت نے یہ نہیں بتایا کہ ایسے مقدمات کا فیصلہ کتنے دنوں ‘مہینوں یا برسوں میں آئے گا ؟بیچ میں لٹکے ہوئے چار کروڑ مقدمات کی طرح کیا یہ چناؤی مقدمہ بھی لٹک نہیں جائے گا ؟الیکشن کمیشن اگر کسی امیدوار یا پارٹی کا چناؤی نشان ضبط کر لے تو کر لے‘ اس سے وہ ان کا کیا بگاڑ لے گا؟ساری پارٹیوں کی یہ دلیل ہوگی کہ مقدمہ تو آپ کسی پر بھی چلا سکتے ہیں ‘ جرم کا الزام آپ کسی پر بھی لگا سکتے ہیں ‘لیکن کسی مقدمہ یا الزام سے یہ ثابت تھوڑے ہی ہو جاتا ہے کہ وہ آدمی مجرم ہے ۔اس امیدوار کو ‘جب تک اس کا جرم ثابت نہ ہو جائے ‘کوئی عدالت یا کوئی الیکشن کمیشن چنائو لڑنے سے روک نہیں سکتا۔اس وقت بھارتی پارلیمنٹ میں 43 فیصدممبر ایسے ہیں ‘جن پر جرم والے مقدمے چل رہے ہیں ۔میں پوچھتا ہوں کہ پارٹیوں نے ایسے ایسے امیدواروں کو چنا ہی کیوں ؟اگر ملک میں لاکھوں لوگوں کوانڈر ٹرائل پرسنز کی طرح برسوں جیلوں میں بند رکھا جا سکتا ہے تو سنگین مجرم لیڈروں کوکیوں نہیں؟اسی لیے بھارت کی سبھی پارٹیوں نے سپریم کورٹ کے اس حکم کا خیر مقدم کیا ہے ۔
اب خاتون بنے گی فوجی سربراہ؟ 
سپریم کورٹ نے ایسا فیصلہ دے دیا ہے جوبھارتی عورتوں کی صرف فوج میں نہیں زندگی کی ہر شعبے میں اہمیت کافی بڑھا دے گا۔عدالت نے بھارت سرکار کی اس رٹ کوخارج کر دیا ہے کہ عورتوں کو میدانِ جنگ سے دور رکھا جائے ۔عورتوں کو بھارتی فوج میں نوکریاں ضرور ملتی ہیں لیکن وہ نوکریاں ہوتی ہیں بیوروکریسی ‘ڈاکٹر ‘ نرس‘پائلٹ یاٹیچر کی۔ان کو نہ تو زمینی جنگ کے میدان میں اتارا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو رجمنٹ کا کمانڈر بنایا جاتا ہے ۔بھارتی سرکار نے اس برطانوی روایت کو قائم رکھتے ہوئے دلی ہائی کورٹ کے 2010 ء میں دیے گئے ایک فیصلے کے خلاف بڑی عدالت میں کئی دلائل دیے تھے ۔اس کی سب سے وزن دار دلیل یہ تھی کہ زیادہ تر فوجی گائوں کے ہوتے ہیں ‘وہ عورت افسر کا حکم ماننے سے انکار کردیں گے۔عدالت نے کہا کہ یہ دلیل بالکل غیر آئینی اور نامنظور ہے ۔کیا سرکاری وکیل کو یہ پتا نہیں کہ دنیا کے19 ملک ایسے ہیں ‘جن میں برسوں سے خواتین کو لڑاکو کرداردیے جاتے رہے ہیں؟جس برطانیہ کی ہم ہر بات میں نقل کرتے ہیں ‘اس نے بھی اپنی فوج میں2016 ء سے خواتین کے لیے سبھی بھرتیو ں کے دروازے کھول دیے ہیں۔امریکہ اور کئی یورپی ممالک میں خواتین کو یہ سہولت پہلے سے ملی ہوئی ہے ۔ پاکستان اور اسرائیل جیسے ایشیائی ملک بھی اس معاملے میں کافی بیدار دکھائی پڑتے ہیں۔عدالت نے ایسی 11 بھارتی عورتوں کے عجیب کرتب گنوائے ہیں ‘جن کے ذریعے انہوں نے ملک اور بیرون ممالک میں بھارت کا نام روشن کیا ہے ۔میں تو وہ دن دیکھنے کے لیے بیتاب ہوں جب کوئی عورت بھارت کی فوجی سربراہ بنے گی۔اگر اندرا گاندھی اپنے آپ کو بے جوڑ وزیراعظم ثابت کر سکتی ہے تو کوئی عورت چیف آف آرمی کیوں نہیں بن سکتی ؟جس دن کوئی عورت بھارت کی فوجی سربراہ بنے گی ‘اس دن بھارت کی ہر عورت کا سر فخر سے اونچا ہوگا اور بھارت ایک برابر سماج بننے کی طرف بڑھے گا ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved