تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-02-2020

سرخیاں‘متن‘ درستی اور یاسمین سحرؔ کی شاعری

سرکاری احکامات نہ ماننے والے افسروں کو 
عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''سرکاری احکامات نہ ماننے والے افسروں کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں‘‘ لیکن اگر وہ اس کے باوجود عہدے پر رہتے ہیں تو یہ ان کی مرضی ہے‘ ہمارا فرض انہیں بتانا تھا‘ سو بتا دیا ہے ‘بلکہ بعض افسر تو سرکاری احکامات کو سرکاری احکامات سمجھتے ہی نہیں۔ اس لیے آئندہ ہر حکم پر واضح الفاظ میں لکھ دیا جائے گا کہ یہ سرکاری حکم ہے‘ اس لیے خدا کا کچھ خوف کریں اور اسے مان لیں‘ مہربانی ہوگی اور وہ اگر وہ اس کے باوجود اسے سرکاری حکم نہیں سمجھتے تو یہ ان کی سمجھ کا قصور ہے۔ اس لیے انہیں کچھ نہیں کہا جا سکتا‘ بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنی سمجھ میں کچھ اضافہ کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ ہم خود اپنی سمجھ میں اضافہ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں‘ جس سے سر تو ٹوٹ گیا ہے‘ لیکن سمجھ میں تاحال کوئی اضافہ نہیں ہوا‘ لیکن بچپن میں پڑھی جانے والی ایک نظم کی طرح ٹرائی ٹرائی اگین کے مطابق بار بار کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں تاجک سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
نریندر مودی نے ہٹلر کی یاد تازہ کر دی: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نریندر مودی نے ہٹلر کی یاد تازہ کر دی‘‘ جو کافی باسی ہو چکی تھی‘ جو اب تازہ ہو کر اور بھی مزہ دے رہی ہے‘ لیکن افسوس کہ ہم سے کسی کی یاد تازہ نہیں ہو سکتی‘ تاہم اپنی یادیں ہم خود ہی تازہ کرتے رہتے ہیں‘ کیونکہ اب تو یادیں ہی یادیں رہ گئی ہیں‘ جنہیں تازہ کر کے الٹا افسوس ہوتا ہے ‘کیونکہ ان میں اتفاق سے اچھی یاد ایک بھی نہیں ہے اور اب یہ کام حکومت نے سنبھال لیا ہے اور آئے روز کوئی نہ کوئی نئی یاد تازہ کر کے رکھ دیتی ہے‘ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بہت سی یادوں کو نیست و نابود بھی کر رہی ہے اور ہماری یادوں کی بہت سی نشانیوں پر قبضہ کر کے انہیں مٹاتی بھی جا رہی ہے ‘جبکہ بھائی صاحب یہاں نئی یاد قائم کر رہے ہیں‘ جو آج صبح ہی دوڑ لگاتے لگاتے بہت دور نکل گئے تھے‘ جنہیں پکڑ کر واپس لایا تھا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت سے چھٹکارے کا وقت جلد آنے والا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''حکومت سے چھٹکارے کا وقت جلد آنے والا ہے‘‘ اور اگر بقول فواد چودھری؛ مجھے دھرنے کے دوران واقعی دھر لیا گیا‘ تو یہ مجھ سے ہی چھٹکارے کا دن ہوگا؛ چنانچہ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس کے چھٹکارے کا دن ہوگا؟ نیز اب دیکھنا یہ بھی ہے کہ کس کے چھٹکارے کا دن پہلے آتا ہے‘ کیونکہ دونوں بڑی پارٹیاں ایک بار پھر میری طرف رجوع کر رہی ہیں اور مجھے پھر اپنی سپورٹ دینا شروع کر دی ہے اور حسب ِ عادت مجھے بیچ میں ہی چھوڑ کر غائب ہو جائیں گی اور جس سے بہتر ہے کہ میں خود ہی غائب ہو جائوں ‘جبکہ مسلسل ناکامیوں سے میرا پیٹ خراب ہو گیا ہے اور اس میں ہر وقت گڑ گڑ سی ہوتی رہتی ہے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پیٹ خالی ہے اور اسے کچھ کھانے پینے کی حاجت ہے‘ لیکن حکومت سمیت کوئی بھی اس کو بھرنے کا نہیں سوچ رہا‘ جو میرے ساتھ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ آپ اگلے روز پنوں عاقل میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
درستی
بھائی صاحب نے کالم میں فارسی کا شعر اس طرح درج کیا ہے ؎
یادِ ایام کہ با ہو گفتگو ہا داشتم
چہ خوش حرف کہ گوید آشنا با آشنا
اس کے دونوں مصرعے بے وزن ہو گئے ہیں۔ پہلا مصرعہ تو اس طرح ہوگاع
یادِ ایامے کہ با ہو گفتگو ہا داشتم
دوسرے مصرعے میں بھی ''حرفے‘‘ آئے گا تو اس کا وزن پورا ہوگا‘ لیکن ''چہ‘‘ سے پہلے بھی کوئی لفظ آئے گا جو چھپنے سے رہ گیا ہے‘ جو شاید ''آں‘‘ ہو سکتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں یاسمین سحرؔ کے کچھ اشعار:
زیاں پر جب مسلسل اک زیاں ہونے لگا ہے
کوئی بھی فیصلہ ہم سے کہاں ہونے لگا ہے 
حفاظت اس کی کچھ شاید نہ مجھ سے ہو سکے گی
ترا غم مجھ میں پل کر اب جواں ہونے لگا ہے
اضافہ ہو رہا ہے اور میری الجھنوں میں
زمانہ جیسے جیسے مہربان ہونے لگا ہے
یہاں تک واقعہ سچا تھا اور اب آگے جا کر
کہانی کا بھی کچھ حصہ بیاں ہونے لگا ہے
ہیں عشق کے اصول انوکھے یہاں سحرؔ
تجدید ایک عہد کی ہر بار چاہیے
آئنے گھر کے سبھی توڑ دیئے ہیں میں نے
تجھ سے ناراض ہے دل‘ غصے میں آیا ہُوا ہے
تمام لفظ مرے آس پاس بیٹھے ہیں
کلام کر رہی ہے مجھ سے شاعری میری
حلقۂ احباب بڑھتا جا رہا ہے آپ کا
میری جانب سے دعائیں ہی دعائیں لیجیے
یہ پرانے سے وہی دن ہیں مرے دیکھے ہوئے
میں نے یہ وقت بہت پہلے گزارا ہوا ہے
یہی کہانی تھی بس اپنی بادشاہی کی
فقیر ایک اٹھا در سے ایک بیٹھ گیا
آج کا مقطع
اک فصیل ِ کفر تھی گھیرے ہوئے مجھ کو‘ ظفرؔ
اور اس دیوار میں محراب تھے چاروں طرف

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved