تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-02-2020

آرام سے ہیں وہ کہ جو محنت نہیں کرتے

بھائی فرحان کا تعلق بھی میڈیا ہی سے ہے ‘یعنی ہمارے ''پیٹی بند‘‘ بھائی ہیں۔ مہارت کا دعویٰ تو خیر ہمیں زیبا نہیں ‘مگر ہاں‘ صحافت کے شعبے میں شُدبُد کے حوالے سے ہم دونوں نے چونکہ اطہر ہاشمی صاحب سے بہت کچھ سیکھا ہے ‘اس لیے ہم دونوں (یعنی ہم اور بھائی فرحان) ایک حد تک ''پیر بھائی‘‘ بھی ہوئے۔ ایک زمانے سے ہمیں بعض موضوعات بہت‘ بلکہ بہت ہی پسند ہیں۔ جب بھی اُن میں سے کسی موضوع پر کوئی ڈھنگ کی خبر آتی ہے‘ ہم کالم لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ بات بھائی فرحان نے پکڑلی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے چند موضوعات کو اُسی طرح گِھس دیا ہے‘ جس طرح ماضیٔ بعید میں گراموفون ریکارڈ بہت زیادہ بجانے پر گِھس جایا کرتے تھے۔ گِھس جانے پر یہ ہوتا تھا کہ سُوئی کسی ایک جگہ اٹک جاتی تھی اور ریکارڈ کا وہی حصہ بار بار بجا کرتا تھا۔ بھائی فرحان کا کہنا ہے کہ ہمارا ذہن بھی گراموفون ریکارڈ کی طرح گِھس گیا ہے اور چند ایک مقامات پر بہت بُری طرح اٹک گیا ہے۔ 
ہمارا کام ہے‘ معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرنا۔ یہ کام ہم نے اپنا فرض سمجھ کر کرتے ہیں۔ بھائی فرحان اور اُن کی قبیل کے لوگوں کو اگر تکلیف پہنچتی ہے تو ہم معذرت خواہ ہیں۔ اور ہاں‘ اگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کے ناپسندیدہ موضوعات پر لکھنا چھوڑ دیں تو ہم معذرت کرلیتے ہیں ‘یعنی یہ کہ ہم اپنے پسندیدہ (اور اُن کے ناپسندیدہ) موضوعات پر لکھنا کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ لوگ جب بُری عادتیں ترک کرنے کو تیار نہیں تو ہم اُن بُری عادات پر لکھنے سے کیوں باز آئیں؟ ایک طرف وہ ہیں جو برملا کہتے ہیں ع
تکلّف برطرف‘ ہم تو سرِبازار ناچیں گے 
اور دوسری طرف وہ ہیں جو ناچنے والوں سے تو کچھ نہیں کہتے اور جو اِن ناچنے والوں پر رائے زنی کرتے ہیں ‘اُن سے فرمائش کرتے ہیں کہ رائے زنی ترک کردیں! 
ایک بار پھر ہم نے مختلف سطحوں پر پائی جانے والی کام سے شدید بے رغبتی‘ بلکہ سیدھا سیدھا کہیے کہ ہڈ حرامی کے حوالے سے کالم لکھا اور کچھ کیے بغیر مزے سے زندگی بسر کرنے والوں کے لَتّے لیے تو بھائی فرحان خاصے برافروختہ ہوئے۔ وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کالم کے پردے میں ہم نے اُنہیں ہدفِ استہزاء بنایا ہے۔ گویا اُنہیں یہ ع
ڈال کر مجنوں پہ میری داستاں کہتے ہیں لوگ 
والا معاملہ دکھائی دیا۔ ہم نے عرض کیا کہ جناب! ہمیں اگر کچھ کہنا ہوگا تو ڈٹ کر‘ منہ پر کہیں گے۔ کالم والم کی آڑ لے کر ہم کسی کو ہدفِ تنقید و استہزاء نہیں بنایا کرتے۔ ساتھ ہی نے ہم نے اُن پر واضح کردیا کہ اگر وہ یوسف زئی ہیں تو ہم بھی یوسف زئی ہی ہیں‘ یعنی جو کہیں گے ڈنکے کی چوٹ پر کہیں گے۔ اِس ''انتباہی توضیح‘‘ کے بعد بھائی فرحان کو ہمارے کسی بھی پسندیدہ موضوع کی ''پامالی‘‘ پر ہمیں لتاڑنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ 
بھائی فرحان ہمیں یوں یاد آئے کہ محنت اور ہڈ حرامی کے حوالے سے ماہرین کی جدید ترین تحقیق سے متعلق ایک خبر ہم تک پہنچی۔ ہم نے محنت اور ہڈ حرامی کا ذکر براہِ راست کردیا ہے‘ ماہرین اس معاملے میں دل آزاری سے گریز کرتے ہیں! 
مغرب نے کام کے حوالے سے اتنی تحقیق کی ہے کہ کام پیچھے رہ گیا ہے‘ تحقیق ہر مقام پر آگے دکھائی دے رہی ہے۔ دفاتر‘ صنعتی یونٹس اور دکانوں میں کام کا دورانیہ گھٹانے اور مقدار پر معیار کو ترجیح دینے کے حوالے سے تواتر سے کوششیں کی جارہی ہیں۔ یومیہ آٹھ یا دس گھنٹے کے بجائے اوقاتِ کار چار گھنٹے کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ انسان کم سے کم کام کرے اور زیادہ سے زیادہ سُکون کے ساتھ جیے۔ 
مغرب کے ماہرین وقفے وقفے سے باور کراتے رہتے ہیں کہ زیادہ کام کرنے سے انسان کہیں کا نہیں رہتا‘ کیونکہ اُس کی زندگی غیر متوازن ہو جاتی ہے۔ زیادہ کام کی خرابیاں گِنوانے پر اِس قدر زور ہے کہ اُن کی تحقیق سے استفادہ کرنے والوں میں کام سے بے رغبتی بڑھتی جارہی ہے۔ ہاں‘ کام سے بے رغبتی جن میں بڑھ رہی ہے‘ اُن کی اکثریت کا تعلق ترقی پذیر اور پس ماندہ دنیا سے ہے۔ 
کام کی زیادتی سے ہونے والے نقصانات پر تحقیق کا بازار ایسی گرم جوشی سے گرم رہا ہے کہ کبھی کبھی تو خیال آتا ہے کہ یہ کہیں پیچھے رہ جانے والے معاشروں کے خلاف سازش تو نہیں! جنہیں دوسروں سے کہیں زیادہ کام کرنا چاہیے‘ اُن تمام معاشروں کو معیاری زندگی کے نام پر کام کے اوقات کم کرنے کے لیے ورغلایا جارہا ہے۔ اب‘ کہا جارہا ہے کہ دفاتر میں زیادہ کام کرنے سے دماغی (ذہنی) امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ ہفتے میں 55 گھنٹے کام کرنا انتہائی خطرناک تصور کیا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ انتباہ بھی کیا جارہا ہے کہ ہفتہ وار تعطیل کے دن تو بالکل کام نہ کیا جائے۔ یہ بات ہم سے ہضم نہ ہوسکی۔ ہوتی بھی کیسے؟ جسے سبب قرار دیا جارہا ہے‘ وہ دراصل نتیجہ ہے۔ جی جناب‘ یہی بات ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دفاتر میں زیادہ کام کرنے سے دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ جو دفتر میں زیادہ کام کرنے لگے اُس کے بارے میں یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ اُس کے دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے! ایک زمانے سے ہم تو یہی دیکھتے آئے ہیں کہ لوگ دفتر‘ فیکٹری یا دکان میں کام کا دورانیہ اور مقدار دونوں ہی کم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ‘تاکہ کل کو ماہرین کو اُن کے حوالے سے خواہ مخواہ تحقیق نہ کرنی پڑے! ماہرین کی اپنی مجبوریاں ہوا کرتی ہیں۔ اُنہیں تو ایسی بات کہنی ہوتی ہے‘ جو سب کو خوش رکھے‘ کسی کو ذرا بھی بُری نہ لگے۔ ؎ 
دل سے تِری نگاہ جگر تک اُتر گئی 
دونوں کو اِک ادا میں رضامند کر گئی 
یہ تو نِری منافقت ہے جناب۔ کام کے نقصان گِنواکر پاکستان جیسے معاشروں کے لوگوں کو ورغلانا کسی بھی طور کوئی مستحسن بات نہیں۔ ہمارے ہاں کام نہ کرنے سے لوگوں کی ہڈیوں پر آرام پسندی کا ورم چڑھ گیا ہے۔ لازم ہے کہ یہ ورم دور کیا جائے‘ تاکہ دوسری اقوام سے صحت مند مسابقت کے قابل ہونے میں خاطر خواہ حد تک مدد ملے۔ کام کے نقصانات سے زیادہ کام کے فوائد گِنوانے کی ضرورت ہے‘ تاکہ قوم کا کچھ بھلا ہو ‘مگر ماہرین کو یہ بات سمجھائی نہیں جاسکتی ‘کیونکہ اُنہیں تو ''ایجنڈے‘‘ (تمہاری بھی جَے جَے‘ ہماری بھی جَے جَے) کے مطابق ہی کچھ کہنا ہوتا ہے۔ 
اب تو بھائی فرحان سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جب تک ماہرین روئے ارض پر موجود ہیں اور لوگوں کو کم کام کرنے کے لیے ورغلاتے رہیں گے‘ تب تک ہم بھی ڈٹے رہیں گے اور اپنے کالم کی لاٹھی سے اُن کی خبر لیتے رہیں گے۔ سیدھی سی بات ہے‘ جب وہ باز نہیں آرہے تو ہم کیوں اپنی روش تبدیل کریں؟ ع
وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے‘ ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟ 
خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا ؎ 
اے ذوقؔ! تکلّف میں ہے تکلیف سراسر 
آرام سے ہیں وہ جو تکلّف نہیں کرتے 
یاروں نے کچھ ایسی بات پیدا کی ہے کہ اس شعر کا دوسرا مصرع کچھ کا کچھ ہوگیا ہے۔ کام کرنے سے گریز کا رجحان ایسا پروان چڑھا ہے کہ ع
آرام سے ہیں وہ کہ جو محنت نہیں کرتے 
کی سی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ اب ‘ذرا بھائی فرحان ہی بتائیں ... مگر خیر جانے دیجیے‘ وہ ناراض ہوجائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved