تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     29-02-2020

شہباز شریف کہاں ہیں؟

جمہوریت قائدِ ایوان ہی نہیں، قائدِ حزبِ اختلاف سے بھی کچھ مطالبہ کرتی ہے۔
نواز شریف سیاسی افق سے اوجھل ہوئے تو ایک خلا ابھرا۔ شہباز شریف اس کو بھرنے میں ناکام رہے۔ وہ جوڑ توڑ کی سیاست میں طاق سمجھے جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ان کی یہ مہارت بھی نون لیگ کے کسی کام نہ آ سکی۔ نواز شریف اور مریم نے اپنی مزاحمتی سیاست سے ن لیگ کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی تھی‘ شہباز شریف کی مفاہمت پسندی نے اسے پھر سے نیم مردہ کر دیا ہے۔ 
نواز شریف لندن میں ہیں‘ اس لیے کہ بیمار ہیں۔ شہباز شریف لندن میں کیا کر رہے ہیں؟ جمہوریت میں قائدِ ایوان ہی نہیں، قائدِ حزبِ اختلاف بھی عوام کو جواب دہ ہوتا ہے۔ وہ بتائیں کہ انہوں نے اپنے اس منصب کیساتھ کتنا انصاف کیا؟ وہ مسلم لیگ ن کی صدارت کے منصب پر بھی فائز ہیں۔ کیا وہ اس کے تقاضے نبھا سکے؟ نون لیگ کو اگر زندہ رہنا ہے تو اس کی تین ہی صورتیں ہیں: نواز شریف واپس آئیں اور پارٹی کی قیادت سنبھالیں۔ صحت کی خرابی حائل نہ ہو تو انہیں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات غیر اہم ہے کہ وہ واپس آ کر جیل جاتے ہیں یا آزاد رہتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وہ پارٹی کی قوت بنیں گے۔ ایسی قوت جس کا توڑ کسی کے پاس نہیں، حتیٰ کہ موت کے پاس بھی نہیں۔ 
اگر ان کی صحت اجازت نہ دے تو پھر نون لیگ کی قیادت مریم کو سونپ دی جائی۔ مریم کا معاملہ بھی وہی ہے جو نواز شریف کا ہے۔ وہ جیل جاتی ہیں تو نون لیگ ناقابلِ تسخیر سیاسی قوت بنتی ہے۔ ہاں، اس میں بھی جان کے زیاں کا اندیشہ ہے مگر جس کو جان عزیز ہے، مزاحمت کی سیاست اس کا کام نہیں۔ پاکستان میں وزیر اعظم بننے کی ایک قیمت ہے۔ جو ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا، اسے یہ خواہش نہیں پالنی چاہیے۔
اگر یہ نہیں تو پھر نون لیگ کی قیادت شاہد خاقان عباسی کے حوالے کر دی جائے۔ شاہد خاقان حالیہ سیاست کی ایک ایسی دریافت ہیں جن پر کوئی جماعت بھی فخر کر سکتی ہے۔ عوام نے انہیں اقتدار میں دیکھا اور اپوزیشن میں بھی۔ جس نے ان کے دامن پر سیاہی ملنے کی کوشش کی، اس کا اپنا چہرہ سیاہ ہوا۔ جیسی اخلاقی قوت کا انہوں نے مظاہرہ کیا، معاصر تاریخ میں اس کی کوئی مثال موجود نہیں۔ وہ وزیر اعظم بنے تو ان کی طبعی سادگی برقرار رہی۔ اپوزیشن میں بھی غرورِ عشق کا بانکپن سلامت رہا۔ وہ کسی مفاہمت کے خواہش مند دکھائی دیے نہ بد عنوانی کے کسی الزام سے خوف زدہ۔
سیاست میں زندہ رہنے کے لیے، دو میں سے ایک بنیاد ضروری ہے: عصبیت یا مضبوط سیاسی تنظیم۔ نواز شریف نے جو سیاسی عصبیت پیدا کی، اس کا تعلق ان کی ذات سے ہے یا مریم نواز سے۔ اگر وہ میدان میں ہیں تو خود اس عصبیت کی علامت ہیں۔ گزشتہ دو سال کی سیاست سے یہ متحقق ہو چکا کہ ان کی عصبیت اگر کسی کو منتقل ہو سکتی ہے تو وہ مریم ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ عصبیت بروئے کار نہیں آ سکتی تو ایک مضبوط سیاسی تنظیم مسلم لیگ کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ سادہ الفاظ میں جمہوری اقدار کی روشنی میں جماعت کی تنظیمِ نو۔ شاہد خاقان صدر اور احسن اقبال سیکرٹری جنرل۔ پیشِ نظر نواز شریف کا بیانیہ اور پشت پر نواز شریف کی اخلاقی تائید۔ سندھ اور کے پی کی قیادت، رانا ثنا اللہ جیسے کسی جی دار آدمی کو سونپ دی جائے۔ ایسا آدمی جس پر صرف جھوٹا مقدمہ بنایا جا سکے۔ ایسے مقدمات اہل سیاست دانوں کی قوت بنتے ہیں۔ اگر مسلم لیگ اپنی تنظیم پر توجہ دے اور داخلی سطح پر جمہوری اقدار کی پاسداری کرے تو دو سال میں وہ ایک ناقابلِ شکست سیاسی قوت میں ڈھل جائے گی۔
سیاسی عصبیت مصنوعی طریقے سے پیدا ہوتی ہے نہ ختم کی جا سکتی ہے۔ اس کا تعلق کسی کی نیکی سے ہے نہ بدی سے۔ کسی کی خواہش سے ہے نہ کسی کی مخالفت سے۔ یہ کیسے جنم لیتی ہے، اس کا کوئی سائنسی تجزیہ نہیں کیا جا سکا۔ گاندھی جی کی شخصیت میں بظاہر کوئی کشش نہیں تھی لیکن ایک زمانہ ان کا اسیر ہوگیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کا دل اگر ابوالکلام آزاد جیسی طلسماتی اور رومانوی شخصیت کی طرف مائل نہ ہو سکا تو اس کی کوئی سائنسی توجیہہ کم از کم میں نہیں کر سکتا۔ سیاسی عصبیت محبت کی طرح ہوتی ہے۔ کسی دلیل کی پابند نہ کسی تجزیہ کی محتاج۔
میں جب عصبیت کی بات کرتا ہوں تو وہ لوگ چڑ جاتے ہیں جنہیں نواز شریف یا بلاول اچھے نہیں لگتے۔ پے در پے کوششوں کے باوجود میں انہیں سمجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا کہ یہ میری خواہش کا اظہار نہیں، ایک سیاسی عمل کا بیان ہے۔ آج بھی نواز شریف نون لیگ اور بھٹو پیپلز پارٹی کا عمود ہیں۔ سیاسیات کا کوئی طالب علم، پیپلز پارٹی کے بارے میں سوچتا ہے تو پہلا خیال بھٹو صاحب کا آتا ہے۔ اس کا تعلق اس کے ارادے یا تجزیے سے نہیں ہوتا۔
جہاں سیاسی عمل بلوغت کی طرف بڑھا ہے، وہاں ہم نے دیکھا کہ مضبوط سیاسی جماعت شخصی عصبیت کا متبادل بن گئی۔ سادہ الفاظ میں وہ عصبیت ایک فرد یا خاندان کے بجائے، جماعت کو منتقل ہو گئی۔ نظریاتی جماعتوں میں بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے۔ جیسے چین کی کیمونسٹ پارٹی یا پاکستان کی جماعت اسلامی۔ جماعت اسلامی میں لوگ نظریات سے وابستہ ہوتے ہیں، کسی فرد سے نہیں۔ یوں ان کی محبت کا محور نظریہ ہوتا ہے کوئی زید یا بکر نہیں۔
امریکہ کی سیاست میں بھی ہمیں نظریات کی یہ تقسیم واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ قدامت پسند ریپبلکن ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ جماعت قدیم روایات سے وابستگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ دوسری طرف ترقی پسند یا لبرل ڈیموکریٹس ہوتے ہیں۔ اسقاطِ حمل کے مسئلے کو اگر بطور مثال سامنے رکھا جائے تو امریکی معاشرے کی سیاسی تقسیم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ 
پاکستان جیسے معاشروں میں، جہاں جمہوریت کو بالغ ہونے کا موقع نہیں ملتا اور اسے اکثر رحمِ مادر ہی میں مار دیا جاتا ہے، فرد یا خاندان کی عصبیت مضبوط ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں آج یہ عصبیت کم یا زیادہ، نواز شریف کو حاصل ہے یا بھٹو خاندان کو۔ اسی طرح قومی عصبیتیں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں‘ جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر بلوچستان میں سیاسی جماعتیں مضبوط نہیں ہو سکیں تو اس کی وجہ یہی قوم پرستانہ عصبیتیں ہیں۔ ہماری ریاست اور سماج نے قومی سطح پر سیاسی عصبیت کو سمجھنے کی کوئی شعوری کوشش کی ہے نہ صوبائی سطح پر۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اسی عصبیت کو نہ سمجھنے کا شاخسانہ ہے۔
نون لیگ کے معاملے میں اگر شخصی عصبیت کسی وجہ سے براہ راست متحرک نہیں ہوتی تو پھر شعوری کوشش ہونی چاہیے کہ یہ ایک جماعت کی عصبیت میں ڈھل جائے۔ دوسرے الفاظ میں نواز شریف کا بیانیہ نون لیگ کا بیانیہ بن جائے۔ ووٹ کی عزت کا بیانیہ۔ اس کی پشت پر ایک مضبوط تنظیم ہو جس میں میرٹ کی بنیاد پر عہدے داروں کا انتخاب ہو۔ مقتدر حلقوں کیساتھ مفاہمت کی سیاست میں نون لیگ کا کوئی مستقبل نہیں۔ میں اس سوال کا کوئی جواب تلاش نہیں کر سکا کہ اس طرزِ سیاست کو اپنا کر، شہباز شریف، مقتدر حلقوں کو کون سی ایسی پیشکش کر سکتے ہیں جو خان صاحب نے نہیں کی یا نہیں کر سکتے؟ میرا تاثر ہے کہ نون لیگ کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں لیگ اس قوت سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے جو نواز شریف کی مزاحمت نے اسے فراہم کی تھی۔
یہ بات درست ہے کہ خان صاحب نے سیاسی بانجھ پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں شہباز شریف کی 'زرخیزی‘ پر وقت مہرِ تصدیق ثبت کر چکا؛ تاہم میرا خیال ہے کہ کارکردگی اِس وقت مقتدر قوتوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ اسی وقت مسئلہ ہو گی جب عوامی سطح پر کوئی مزاحمت ابھرے گی۔ مزاحمت کو اپوزیشن ہی منظم کرتی ہے۔ جس اپوزیشن کا لیڈر لندن میں بیٹھ کر مفاہمت کے راستے تلاش کر رہا ہو، وہاں کون سی مزاحمت اور کیسی مزاحمت؟ جس دن یہ مزاحمت منظم ہو گئی، اس دن خان صاحب کی کارکردگی، مقتدر حلقوں کے لیے مسئلہ بن جائے گی۔ یہ اُس وقت ہو گا جب نون لیگ مزاحمت کی سیاست کرے گی۔ شہباز شریف صاحب کی قیادت میں اس کا کوئی امکان نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved