تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     01-03-2020

کورونا سے مودی وائرس تک

دنیا بھر میں کورونا وائرس نے اودھم مچا رکھا ہے۔ ہزاروں افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں،لقمہ اجل بن جانے والوں کی تعداد بھی چار ہندسوں کو چھو رہی ہے۔ اگرچہ کہ اس کا ہر بیمار موت کے منہ میں نہیں چلا جاتا، ایسے افراد کی تعداد شاید دو یا تین فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ بوڑھوں اور بچوں، یا موذی امراض میں مبتلا افراد ہی پر اس کا حملہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے، لیکن اس کا کوئی علاج تاحال دریافت نہ ہونے کے سبب اور ایک انسان کو چھونے یا اس کے قریب بیٹھنے سے وائرس دوسرے انسان تک پہنچ جانے کی وجہ سے خوف و ہراس بہت زیادہ ہے۔ یہ وائرس جس کو بھی لاحق ہوتا ہے، وہ اس کے رحم و کرم پر پڑا رہتا ہے۔ اس کے اثرات ایک ہفتے میں ختم ہوں یا دو ہفتوں میں، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ اس وقت سارا زور احتیاطی تدابیر پر ہے اور اگر ان کو اپنا لیا جائے تو اس کا پھیلائو روکا جا سکتا ہے۔ چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے اس وائرس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ یہ چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ ووہان میں چمگادڑوں کا سوپ بڑے ذوق و شوق سے پیا جاتا ہے۔ ویسے بھی ہر قسم کے جانوروں اور پرندوں سے لطف اندوز ہونا ہمارے چینی بھائیوں کو مرغوب ہے۔ ان کی مارکیٹوں میں کھلے عام لومڑیاں، گیدڑ، بلیاں اور اسی طرح کی دوسری مخلوقات فروخت ہوتی اور مزے مزے سے تناول کی جاتی ہیں۔ جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والے طرح طرح کے وائرس بھگت کر شاید وہاں کوئی ایسا ''فوڈ کوڈ‘‘ بن جائے جس میں بعض جانور یا پرندے ممنوع قرار پائیں لیکن تاحال ایسی کوئی صورت نہیں ہے۔ ووہان کے بعض باشندوں سے جب چمگادڑ کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ اگر وائرس اسی سے پھیلتا تو ووہان نامی شہر دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہ ہوتا کہ یہاں تو نسل در نسل اس کے سوپ سے استفادہ جاری ہے۔ بہرحال چمگادڑ اس صورت حال کا ذمہ دار ہو یا ان کا کوئی اور بھائی بند، یہ حقیقت ہے کہ کورونا وائرس کسی جانور ہی سے انسان کو منتقل ہوا ہے اور اب ایک سے دوسرے کو منتقل ہوتا جا رہا ہے۔ چین نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی محیرالعقول انتظامات کئے ہیں۔ چھ، چھ ، سات سات دن میں نئے ہسپتال تعمیر کرکے دکھائے ہیں اور اس کے مریضوں کو ان میں الگ تھلگ کرکے رکھا جا رہا ہے۔احتیاطی تدابیر بھی درجہ آخر پر جا کر اختیار کی جا رہی ہیں اور اس کا علاج دریافت کرنے کے لئے بھی دنیا بھر کی لیبارٹریز میں کام جاری ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ایک دن ایسا طلوع ہو گا،جب اس کا علاج دریافت ہو چکا ہو گا۔اب یہ چین کا ہی نہیں ، پوری دنیا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹوں سے 5ہزار ارب ڈالر نکالے جا چکے ہیں۔ عالمی معیشت شدید نقصان سے دوچار ہے۔ تجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئی ہیں اور تو اور عمرے کے زائرین تک پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔ایسے ممالک جہاں اس وائرس کے اثرات پہنچے ہیں، وہاں سے عمرے کے لئے آنے کی اجازت نہیں ہے۔ سعودی حکومت نے واضح احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ مختلف ممالک کے درمیان فضائی رابطے منقطع ہوچکے ہیں، چین کی معیشت کو بھی شدید صدمہ اٹھانا پڑرہا ہے۔
پاکستان میں مقدور بھر احتیاطی تدابیر اختیار کی جا رہی ہیں، لیکن ایران سے دو متاثرین یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی حالت بہتر بتائی جاتی ہے، چند افراد الگ تھلگ کرکے رکھے گئے ہیں،مقامِ شکر ہے کہ ابھی تک کوئی تشویشناک صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔جانوروں سے انسانوں کو منتقل ہونے والا یہ وائرس جتنا بھی موذی کیوں نہ ہو، انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہونے والے وائرس اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ حضرت انسان نے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ جو کر دکھایا ہے، کوئی جانور اس کا عشر عشیر نہیں کر سکا۔ انسانوں کی کھوپڑیوں کے مینار انسانوں ہی نے بنائے اور ہزاروں کیا لاکھوں کو بھی تہہ تیغ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ چند ہی برس پہلے امریکہ اور برطانیہ نے عراق کے خلاف جھوٹے الزامات پر جو فوجی کارروائی کی اس نے لاکھوں افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔شام کی آدھی آبادی دنیا بھر میں ماری ماری پھر رہی ہے۔ لیبیا میں کشتوں کے پشتے الگ لگ رہے ہیں، بھارت سے شروع ہونے والا مودی وائرس بھی انسانوں کو لقمہ اجل بناتا چلا جا رہا ہے۔عین اس وقت جب دنیا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں لگی تھی، نئی دہلی میں مودی وائرس نے قیامت برپا کر دی۔ ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی بستیاں تاراج کر ڈالیں۔ مسجدوں پر حملہ آور ہو گئے۔ درجنوں افراد لقمہ اجل بنے اور سینکڑوں زخمی ہیں۔ پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔وزیراعلیٰ کجری وال بے بس نظر آئے کہ دہلی پولیس وفاقی حکومت کے ماتحت ہے۔ انہوں نے فوج بلانے کی درخواست کی جو رد کر دی گئی۔ ہائی کورٹ کے جس جج نے نفرت انگیز پیغامات جاری کرنے والے بی جے پی کے جن رہنمائوں پر مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی تھی اس کا تبادلہ کر دیا گیا کہ صدر جمہوریہ ہندیہ حرکت کرنے کے بھی مجاز ہیں۔ مودی وائرس اس سے پہلے گجرات میں ستم ڈھا چکا اور ہزاروں مسلمانوں کو برباد کر چکا ہے۔ دہلی کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی شکست کے بعد یہ وائرس یہاں حملہ آور ہے۔ پورے بھارت پر اس کے اثرات پڑ رہے ہیں اور جگہ جگہ مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کورونا وائرس سے زیادہ بھارت کو مودی وائرس سے خطرہ ہے کہ پورے خطے میں اس کے اثرات پھیل سکتے ہیں۔
بھارت کے ہمسایہ ممالک بھی مضطرب ہیں کہ کہیں یہ ان کو لپیٹ میں نہ لے لے۔ فرقہ واریت سے آگے بڑھ کر یہ جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ دنیا اس کی تباہ کاریوں کا کچھ نہ کچھ احساس تو کر رہی ہے لیکن اس کا مکمل ادراک ابھی تک بہت کم ہو پایا ہے۔ عالمی طاقتیں تو خاموش تماشائی بنی ہی ہوئی ہیں، مسلم ممالک بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے علاوہ کسی کی آواز گونج رہی ہے تو وہ ترکی کے رجب طیب اردوان ہیں۔ ملائیشیا کے ڈاکٹر مہاتیر بھی اس سے غافل نہیں ہیں، لیکن ان کے علاوہ ہر جگہ سناٹا ہے۔ عالم اسلام بھارت کے مسلمانوں کا درد شدت سے محسوس نہیں کر رہا۔ مودی وائرس کی روک تھام کے لئے مشترکہ اقدامات نہ کئے گئے تو اس کی تباہ کاریوں کے سامنے کورونا وائرس ماند پڑ جائے گا۔ اس کی حیثیت چمگادڑ کے مقابلے میں مچھر کی سی رہ جائے گی۔
''دو اُجلے چہرے‘‘
الزام و دشنام سے لتھڑی ہوئی پاکستانی سیاست میں دو اُجلے چہرے اس طرح ابھر کر سامنے آئے ہیں کہ ان کے حامیوں اور مداحوں کے ساتھ ساتھ مخالفوں اور نکتہ چینوں نے بھی ان کی بلائیں لی ہیں۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابقہ وزیر داخلہ و منصوبہ بندی احسن اقبال کو گزشتہ دنوں جس آزمائش سے گزرنا پڑا، نیب نے ان پر جو الزامات لگائے اور جس طرح انہیں حو الۂ زنداں کئے رکھا، وہ سب اہل وطن کے سامنے ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران الزامات کا بودا پن بھی واضح ہوا، نیب کے تفتیش کاروں کی ناپختہ کاری بھی سامنے آئی اور مذکورہ دونوں اصحاب کی دیانت اور استقامت نے بھی اپنا لوہا منوایا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس کے بامعنی اور پُرمغز سوالات پر جس طرح نیب کے وکیل بغلیں جھانکتے پائے گئے، وہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اب اہل نظر کی نگاہیں فاضل عدالت کے تفصیلی فیصلے کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ نیب کوحاصل ملزمان کی گرفتاری کے اختیار کو محدود و مشروط کر دیا جائے تو سر اٹھا کر چلنے والوں کا بہت سا بھلا ہو سکتا ہے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved