تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     01-03-2020

منافقت

جب بر صغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سبب ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے دوست شیام چڈا نے کہا ''سالے! ویسے بھی تم کون سے بڑے مسلمان ہو جو پاکستان جا رہے ہو؟‘‘
''اتنا تو ہوں کہ مارا جا سکوں‘‘ منٹو نے جواب دیا۔
منٹو کا یہ ایک جملہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالیہ نسل کشی کے سارے منظر نامے کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پوری سچائی اور حقیقت کے ساتھ۔
ہمارے لبرل ہمہ وقت بھارت کو ایک سیکولر اور پاکستان کو ملائیت (Theocracy) پر مبنی ریاست ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ہندوستان نے تقسیم کے بعد بھارت بننا تھا مگر وہ بالآخر ہندوستان بن کر ہی ٹھہرا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ دین اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں سب سے لاوارث شے دین ہی ٹھہری۔ اتنی لاوارث کہ اسے مولوی کے سپرد کر دیا گیا اور عام آدمی نے اس سے بری الذمہ ہونے کا عملی اعلان فرما دیا۔ مسعود مفتی نے اپنی ایک کتاب (غالباً ''چہرے‘‘ یا ''لمحے‘‘ اب صحیح سے یاد نہیں۔ عشروں پہلے پڑھی گئی لائنیں کچھ مدہم ضرور ہوئی ہیں مگر ذہن سے بہرحال محو نہیں ہوئیں) میں لکھا کہ ''ہم نے پاکستان مذہبی بنیادوں پر طلب کیا اور سیکولر بنیادوں پر چلایا جبکہ دوسری طرف ہندوئوں نے بھارت سیکولر بنیادوں پر طلب کیا اور مذہبی بنیادوں پر چلایا۔ منافقت ہم نے بھی کی اور منافقت انہوں نے بھی کی مگر ہماری اور ان کی منافقت اور اس کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق نکلا‘‘۔ اگر الفاظ آگے پیچھے ہو گئے تو معذرت۔ قریب چالیس سال قبل پڑھی گئی کتاب کے الفاظ میں تھوڑی سی اونچ نیچ کی معافی ہونی چاہئے۔
موم بتی والی ساری آنٹیاں دم سادھے ہوئے ہیں۔ امن کی سفیر اور نوبل انعام یافتہ ملالہ خاموش ہے۔ آسیہ بی بی کی سزا پر کہرام مچانے والی مغرب کی حکومتیں دم بخود ہیں۔ اپنی وجوہات کی بنا پر ایران اور شمالی کوریا پر بیک جنبش قلم پابندیاں لگانے والا ٹرمپ صرف بیان بازی کر کے اور بھارت کو تین ارب ڈالر سے زائد کے ڈرون سمیت دفاعی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدے کر کے واپس امریکہ جا چکا ہے۔ ٹرمپ سے کیا شکوہ اور کیسا گلہ؟ ہماری تو او آئی سی کا یہ حال ہے کہ ٹرمپ سے بھی گئی گزری ہے اور صرف بیان کی حد تک بھی بھارت کی اتنی مذمت نہیں کر سکی جس حد تک ٹرمپ نے کھل کر بیان دیا ہے۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق او آئی سی نے صرف ''گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا‘‘۔ اس وقت عملی طور پر نریندر مودی نے پوری دنیا کو آگے لگا رکھا ہے اور سارے عالمی متوقع رد عمل کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے جو کرنا تھا کر لیا ہے اور ابھی جو کرنا ہے وہ بھی کر گزرے گا۔ بھارتی پارلیمنٹ میں اس کی مختصر سی تقریر بھارت کے مستقبل کا سارا منظر نامہ واضح کر رہی ہے۔ ادھر دہلی، جہاں یہ سب کچھ پوری شدت سے ہو رہا ہے‘ میں بظاہر مودی مخالف اروند کیجریوال کی صوبائی حکومت ہے‘ جو امن و امان اور عوام کی حفاظت کی ذمہ دار ہے لیکن خاموش تماشائی بن کر ایک طرف بیٹھی ہوئی ہے اور نئی دہلی کی پولیس عملی طور پر ہندو انتہا پسندوں اور بی جے پی کے فسادیوں اور آر ایس ایس کے غنڈوں کی معاونت کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے ووٹوں سے کامیاب ہونے کے باوجود اروند کیجریوال آخر کار ہندو ہے اور ایک پنجابی محاورہ ہے کہ ''مجاں، مجاں دیا بھیناں ہوندیاں نیں‘‘ (بھینس بھینس آپس میں بہنیں ہوتی ہیں)۔ امریکہ، مغرب، یورپ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ‘ سب خاموش ہیں حتیٰ کہ ایک آدھ استثنا کے ساتھ عالم اسلام خاموش ہے۔ اللہ جانے امّہ کا تصور کہاں چلا گیا ہے۔
نریندر مودی کی بھارتی پارلیمنٹ میں تقریر سارے عالمِ اسلام کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ ہے۔ مودی نے کہا ''ہندوستان میں رہنا ہے تو ہندوئوں کی طرح رہو۔ کوئی اقلیت، خواہ وہ کہیں سے بھی ہو‘ اگر وہ ہندوستان میں رہنا چاہتی ہے، یہاں کام کرنا چاہتی ہے، یہاں کھانا پینا چاہتی ہے‘ تو پھر اسے ہندوستانی زبان بولنی ہو گی‘ ہندی، گجراتی، پنجابی، بنگالی اور جنوبی ہندوستان کی زبانیں بولنا ہوں گی اور ہندوستان کے قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ اگر انہیں شریعت کے مطابق قوانین پسند ہیں اور وہ مسلمانوں والی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں آگاہ کر رہے ہیں کہ ایسا کرنے کے لیے انہیں چاہئے کہ وہ وہاں چلے جائیں جہاں کی ریاستیں انہیں یہ سہولت فراہم کر سکتی ہوں۔
ہندوستان کو مسلم اقلیت کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔ ان اقلیتوں کو بھارت کی ضرورت ہے لیکن ہم انہیں کوئی خصوصی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہم انہیں اس بات کی قطعی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے قوانین میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیوں کا مطالبہ کریں۔ ہمیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ وہ کتنی بلند آواز میں شور و غل کرتے ہیں اور نسلی و مذہبی امتیاز کے بارے میں آواز بلند کرتے ہیں۔ ہم اپنی ہندو ویدک تہذیب کی بے عزتی اور بے ادبی کو کسی صورت معاف نہیں کریں گے۔ اگر ہمیں ایک قوم کی طرح سلامتی کے ساتھ رہنا ہے تو ہمیں امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ اور فرانس میں ہونے والے خود کش حملوں اور جموں و کشمیر میں ہندو پنڈتوں کی نسل کشی سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔ مسلمان ان ممالک میں چھا رہے ہیں لیکن ہم انہیں بھارت پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم پہلے ہی 1947ء میں ہندوستان کی سرزمین ان کے ساتھ، مشرقی اور مغربی پاکستان کی صورت میں تقسیم کر چکے ہیں۔ ہندوستان کی روایات اور رسم و رواج مسلمانوں کی تنگ نظری اور غیر متمدن تہذیب کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
جب معزز قانون ساز اسمبلی نئے قوانین وضع کرے تو اس کے ذہن میں ہونا چاہئے کہ بھارت کا قومی مفاد ہر شے پر مقدم ہو اور وہ یہ بات ان کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلم اقلیت کا تعلق بھارت سے نہیں ہے‘‘۔
یاد رہے کہ اس تقریر کے بعد بھارتی پارلیمنٹ میں موجود ارکان پارلیمنٹ نے باقاعدہ کھڑے ہو کر پانچ منٹ تک مسلسل تالیاں بجائیں اور تحسین سے بھرپور نعرے لگائے۔ یہ بھارت کا وہ سیکولر چہرہ ہے جس پر مودی نے ہندوستان ہونے کی کالک پھیر دی ہے۔ لیکن سوال صرف یہ ہے کہ کیا کوئی مسلمان ملک اپنے ہاں موجود ہندوئوں کے بارے میں وہ قدم اٹھا سکتا ہے‘ جو مودی نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف اٹھایا ہے؟ صرف متحدہ عرب امارات میں ہی پینتیس لاکھ کے لگ بھگ بھارتی ہیں اور ان میں غالب اکثریت ہندوئوں کی ہے۔ ان کے لیے خصوصی طور پر مندر بنانے کی اجازت دی گئی۔ اسی طرح سعودی عرب میں اٹھائیس لاکھ کے لگ بھگ بھارتی ہیں۔ کویت میں دس لاکھ، اومان میں آٹھ لاکھ اور اسی طرح بحرین اور قطر میں بھی لاکھوں بھارتی کام کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف خلیجی ریاستوں اور مشرق وسطیٰ میں پچاسی لاکھ بھارتی ورکر کام کرتے ہیں اور اگر صرف درج بالا چھ ممالک مودی کی تقریر کے تناظر میں بھارتی ہندوئوں کو وہاں سے نکال دیں اور ملائیشیا اور انڈونیشیا میں بسنے والے ساٹھ لاکھ کے قریب ہندوئوں کو دیس نکالا مل جائے تو مودی کی ساری اکڑ ایک منٹ میں نکل جائے‘ لیکن ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ بھارتی مسلمان صرف اور صرف پاکستان کا مسئلہ ہیں‘ عالم اسلام کا ان مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔
لیکن میں کہاں چلا گیا؟ ان مسلمانوں سے تو پا کستان کے لبرلز تک کا کوئی تعلق نہیں۔ بھارت میں مسلمان عورتوں اور بچوں کے ساتھ گزشتہ دو ہفتوں سے اور کشمیر میں گزشتہ سات ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے شاید اس کا انسانیت سے صرف اس لیے کوئی تعلق نہیں کہ متاثرین مسلمان ہیں۔ اگر مسلمان کسی جگہ مسلمان پر ہونے والے ظلم پر بات کرے تو یہ مذہبی انتہا پسندی ہے اور اگر فرانس آسیہ کو شہریت دے دے تو یہ مذہبی نہیں صرف انسانی مسئلہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ صرف منافقت کا مسئلہ ہے اور کچھ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved