پورے ملک میں ایک جیسا نظام تعلیم وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دیرینہ نعرے کے علاوہ ان کی جماعت کے منشور میں شامل قوم سے کیا گیا ایک وعدہ بھی ہے۔ شروع ہی میں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہوں یا تیزی سے ترقی کرتے ہوئے تیسری دنیا کے ممالک‘ سب نے یکساں قومی نصاب اپنے اپنے ملکوں میں رائج کر رکھا ہے۔ سماجی اور معاشی ہمواری‘ غریب کے لیے غربت سے نکلنے کے راستے اور قومی شناخت و یک جہتی کا عمل‘ سب قومی تعلیمی نظام سے ہی مرتب ہوتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے حالیہ دنوں میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ پرائمری کی سطح پہ یکساں تعلیمی نصاب ہو گا اور یہ بھی کہ مدارس کے طلبہ کے لیے سرکاری نظام کے تحت امتحانوں اور سندوں کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ مستحسن فیصلہ ہے مگر یہ اقدام وہ وعدہ پورا نہیں کر سکے گا‘ جو تحریکِ انصاف کے منشور کا حصہ ہے۔ حکومت کے سرکاری اور غیر سرکاری کارندے جو بھی تاویلیں پیش کریں یہ پرائمری کی سطح پر یکساں نصاب لانے کے معاملے کو لٹکانے کے مترادف ہے۔ یکساں نصاب مغرب میں اور ہمارے کچھ ہمسایہ ممالک میں بھی بارہویں جماعت یعنی ثانوی سطح تک رائج اور نافذ ہے۔ ماہرین تعلیم جہاں بھی ہوں اور جس ملک میں بھی کام کر رہے ہوں‘ اسی سطح کو معیار تصور کرتے ہیں۔ اگر مقصد مرحلہ وار اصلاحات لانے کا تھا تو اس کا اعلان کر دیا جاتا اور اگر اس حوالے سے وقت کا تعین ہو جاتا تو اور بھی بہتر تھا۔ معلوم نہیں تعلیمی شعبے کے وہ کون سے حکیم ہیں‘ جنہوں نے ابتدائی برسوں کو‘ جب زبان‘ ہندسے‘ حروف سکھائے جاتے ہیں‘ لکھنے پڑھنے کی مشق کروائی جاتی ہے‘ اور تربیت کے ابتدائی مراحل طے کرائے جاتے ہیں‘ علوم کے حصول سے تعبیر کر لیا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب بچوں کو تحصیل علم کے لیے سکول کے دروازے پر تیار کر کے لایا جاتا ہے۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہماری اشرافیہ‘ سیاسی جماعتیں اور حکمران طبقات ہی اب بھی یکساں نظام تعلیم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا مفاد یہ ہے کہ ان کے بچے انگریزی سکولوں سے پڑھیں‘ انگریزی بولیں اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں سے سندیں حاصل کریں۔ یہ کھیل صلاحیت کا نہیں‘ پیسے کے زور کا ہے۔ اگر غریب خاندانوں کے بچوں کو بھی معیاری انگریزی سکولوں میں داخل کیا جائے تو ان کی کارکردگی دیگر بچوں سے مختلف نہیں ہو سکتی۔ انگریزی سکولوں کو نجی شعبے میں اس طرح منظم کر دیا گیا ہے کہ سرمایہ کاروں‘ اعلیٰ طبقات اور حکومتی اداروں کے اعلیٰ عہدوں پہ تعینات اہلکاروں کے مفادات ایسے منفرد نظام کو قائم رکھنے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل چکے ہیں۔ ایسا طبقاتی نظام تعلیمی یا قومی نہیں‘ صرف طبقاتی مفادات کا محافظ ثابت ہوتا ہے۔ معیشت کے ایسے شعبے جہاں ملازمت کے امکانات نجی سیکٹر میں زیادہ ہیں اور مشاہرے بھی سرکاری ملازمتوں کی نسبت کئی گنا ہیں‘ وہاں نجی تعلیمی اداروں کے سند یافتہ حاوی نظر آتے ہیں۔ جس جامعہ میں یہ ناچیز تقریباً دو دہائیوں سے معلم ہے‘ وہاں کے طلبہ نے مقابلے کے امتحانوں میں بیٹھنا شروع کر دیا ہے۔ ہر سال تقریباً چالیس کے قریب طلبہ نوکر شاہی کے لیے منتخب ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ آئندہ برسوں میں یہ تعداد کہیں بڑھ جائے گی۔ گزارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ سرکاری شعبوں میں اب سینکڑوں کی تعداد میں جامعات کے طلبہ شاید وہ کارکردگی ان مقابلے کے امتحانوں میں نہ دکھا سکیں گے‘ جو وہ ماضی میں دکھایا کرتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کا تعلیمی معیار نہ گرا ہو مگر ان سے بہتر تعلیمی ادارے نجی شعبے میں ملک کے کونے کونے میں کام کر رہے ہوں۔ اس وقت بھی زیادہ تر طلبہ سرکاری جامعات اور سرکاری سکولوں میں ہی داخل ہیں‘ لیکن یہ کیسا انصاف ہے یا قومی نظام تعلیم ہے کہ معاشی طور پر غالب اقلیت نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت سے حکمران بن جائے اور اکثریت اس کا مقابلہ نہ کر سکے۔
ہمارے زمانے میں سکولوں‘ کالجوں اور سرکاری جامعات کا وہ معیار اور امتزاج تھا کہ جن کو وہاں داخلہ نہ ملتا‘ وہ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کرتے تھے۔ اب اس کے بالکل الٹ ہو رہا ہے۔ چالیس سال تک حکومت میں باریاں لینے والی قیادت‘ جماعتیں اور ان کا دفاع کرنے والے کیا کہیں گے کہ یہ زوال ایک دن میں نہیں بلکہ ان چار دہائیوں میں ہی آیا ہے۔ لیکن اب جبکہ موجودہ حکومت اقتدار میں ہے تو اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم کے شعبے میں حقیقی معنوں میں اصلاحات کرے۔ محض دکھاوے کے اقدامات سرکاری تعلیمی اداروں کے مزید زوال کا باعث بنیں گے اور موجودہ طبقاتی‘ سماجی نظام کی جڑیں مضبوط کریں گے۔ کسی ماہر تعلیم کو‘ شرط یہ ہے کہ اس کی سند جعلی نہ ہو‘ سامنے لائیں‘ جو یہ کہہ سکے کہ ابتدائی برسوں کی تعلیم میں یکسانیت قومی نظامِ تعلیم کے تقاضے پورے کر سکتی ہے۔ معافی چاہتا ہوں‘ لیکن کابینہ کا یہ فیصلہ‘ جس کا ذکر میں نے ابتدائی سطور میں کیا ہے‘ متوقع اصلاحات کے زمرے میں ایک مذاق ہی سمجھا جائے گا۔
نجی شعبہ اتنا وسیع اور گہرا ہو چکا ہے کہ سرکاری شعبے کو اس کے برابر لانا تقریباً جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ جیبیں بھرنے کی خواہش اور حرص بے کنار ہو تو ایسے ملکوں میں تعلیم ہو یا صحت‘ ٹرانسپورٹ ہو یا رہائشی کالونیاں فرد اور عوام کو لوٹ کھسوٹ کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ متضاد بات کر دی‘ لوٹ کھسوٹ میں رحم کی کیا گنجائش رہتی ہے؟۔
اتنا لمبا عرصہ تعلیمی میدان میں گزار چکا ہوں لیکن یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ملک کے سب بچے سکولوں میں داخل کیوں نہیں کرائے جا سکتے؟ ہم کیوں انہیں سینکڑوں کی تعداد میں ہر بڑے شہر کے چوراہوں پہ بھیک مانگتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیوں وہ چھوٹی عمر میں بازاروں اور کارگاہوں میں غلیظ کپڑوں میں ملبوس مشین کی طرح کام کرتے نظر آتے ہیں۔ نا جانے کہاں ہیں ہماری حکومتیں‘ ریاستی ادارے اور قوم کا اجتماعی ضمیر؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہم کھو چکے ہیں۔ ان پہ لٹیروں اور اپنی ذات کے خول میں بند رہنے والے حکمرانوں کا اتفاق ہو چکا ہے۔ اگر ان سے آزادی ممکن نہیں تو پھر غیر طبقاتی قومی تعلیمی نظام بھی ممکن نہیں۔
اسی معاشرے میں غریب سے غریب تر بھی ہیں جو مذہبی تعلیم کو ہی افلاس کا مقابلہ کرنے اور بچوں کے شکم کی آگ بجھانے کا وسیلہ سمجھتے ہیں۔ کرسی کی زینت بنے دانشور مدارس کو کوستے‘ قسم قسم کی باتیں بناتے اور بھدے الزامات لگاتے تھکتے نہیں۔ کچھ اپنی ترقی پسندانہ آزاد رو سوچ میں لپٹے‘ سماجی حقیقتوں کا ادراک نہیں رکھتے۔ دیہات میں مدارس چلانے والے گداگروں کی طرح چندہ مانگتے اور غلہ اکٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔ اکثر مشکل سے گزارہ کرتے ہیں۔ غریب والدین کو اگر معاشی سہارا مل جائے تو وہ ہرگز اپنے بچوں کو یہاں داخل نہ کرائیں۔ بہرحال یہ زمینی حقیقت تو تسلیم کرنا ہی پڑے گی کہ لکھنا پڑھنا‘ کچھ تہذیب اور سلیقہ تو مدارس میں داخل طلبہ حاصل کر ہی لیتے ہیں اور یہ رجحان بھی بڑھ رہا ہے کہ اگر وسائل دستیاب ہوں تو ان بچوں کو سرکاری امتحانوں کے لیے بھی تیار کیا جائے۔ مدارس میں اصلاحات ضروری ہیں تاکہ ہمارے بچے یکساں تعلیم سے مستفید ہو سکیں‘ غریبوں کے خواب بڑے ہوں‘ وہ بھی زندگی میں آگے بڑھ سکیں۔
مجھے یہ بات دھرانے کی اجازت دیں کہ ہر قوم‘ ریاست اور ملک‘ جس نے ترقی کی منزلیں جلد طے کی ہیں‘ فقط سرکاری تعلیمی اداروں کی بدولت‘ ان کو معیاری بنا کر اور سب اداروں کو قومی دھارے میں پرو کر ہی ایسا ممکن ہوا ہے۔