تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     01-03-2020

دہلی فسادات، دو قومی نظریے کے مخالفین جواب دیں!

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے موقع پر بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں مسلم مخالف فسادات کرائے گئے۔ ان فسادات کا مقصد بھارت میں نئے شہریت قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کو دبانا تھا۔ مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی اور دہلی میں اقتدار کی مالک عام آدمی پارٹی کے لیڈر ان فسادات کے دوران منظر سے غائب رہے۔ تمام سیاسی رہنماؤں نے دکھاوے کے لیے بھی فساد زدہ علاقوں کا رخ کرنے سے گریز کیا اور یہ فساد کھلے فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا۔ 42 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے‘ جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ درجنوں گھر مکمل جلا دیئے گئے۔ مساجد اور مزارات بھی محفوظ نہ رہے۔ مسلمانوں کو آبادیاں چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف نکلنا پڑا لیکن راستے میں بھی جو ان بھگوا دہشتگردوں کے ہاتھ لگا جان سے گیا یا ہسپتال پہنچ گیا۔
مسلمان آبادیوں میں ایمبولینسز کو داخل ہونے سے روکا گیا، دہلی ہائیکورٹ کو رات گئے مداخلت کرنا پڑی اور زخمیوں کے لیے محفوظ راستے کی ہدایت کی گئی۔ دہلی فسادات پر معاملے کی سماعت کرنے والے جج، جسٹس مرلی دھر، نے فسادات کے دوران پولیس کو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے پر خوب لتاڑا اور مرکزی حکومت سے بھی جواب طلب کیا۔ جسٹس ایس مرلی دھر نے ریمارکس دیئے کہ دہلی میں 1984 جیسے حالات نہیں بننے دینا چاہتے۔ جسٹس مرلی دھر کو انصاف کی کوشش مہنگی پڑی اور مودی کی حکومت نے نصف شب کو جسٹس مرلی دھر کا تبادلہ ہریانہ پنجاب ہائیکورٹ میں کر دیا۔ 
جسٹس ایس مرلی دھر کے تبادلے نے ساری کہانی کھول دی کہ دہلی کے حالیہ فسادات منصوبہ بند ہیں اور مودی حکومت اس پر کسی بھی طرح غیر جانبدارانہ عدالتی کارروائی نہیں چاہتی۔ بھارتی میڈیا نے بھی ان فسادات کی کہانی کا کھوج لگایا‘ اور زخمیوں اور لاشوں کے پوسٹ مارٹم نے بھی راز کھول دیا۔ زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں پر پستولوں سے گولیاں چلائی گئیں، تلواریں استعمال ہوئیں اور گھر جلانے کے لیے پٹرول بم استعمال ہوئے جس کے لیے بڑے پیمانے پر کباڑیوں سے بوتلیں پہلے سے خرید کر رکھی گئی تھیں۔ پستول دہلی کی ہمسایہ ریاست اتر پردیش کے شاملی اور مظفر نگر سے لائے گئے جبکہ غنڈے بھی انہی علاقوں سے تھے۔ اتر پردیش میں مسلم دشمن یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت ہے اور سارا بندوبست بھی انہی کا تھا۔
دہلی میں فسادات کی منصوبہ بندی الیکشن کے دوران ہی کر لی گئی تھی۔ بی جے پی کے لیڈر اور ریاستی اسمبلی کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار پرویش سنگھ ورما نے الیکشن سے پہلے اعلان کیا تھا کہ دہلی میں چون مساجد اور قبرستان ریاستی اراضیہ پر قائم ہیں اور ان کی حکومت بنی تو ان تجاوزات کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ پرویش سنگھ ورما کا یہ انتخابی وعدہ دہلی کے بارے میں بی جے پی کے منصوبے کا عکاس ہے۔ 
پرویش سنگھ ورما کا تجاوزات کا دعویٰ جھوٹا تھا۔ دہلی کا اقلیتی کمیشن اس پر فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ دے چکا ہے کہ دہلی میں کوئی مسجد اور قبرستان سرکاری اراضی پر قائم نہیں۔ پرویش ورما کا مقصد صرف ہندو ووٹروں کو ابھارنا تھا۔ اقلیتی کمیشن نے پرویش ورما کے خلاف نفرت انگیزی پر کارروائی کی بھی سفارش کی لیکن کسی نے عمل نہ کیا۔ بی جے پی کے اہم ترین رہنما اور وزیر داخلہ امیت شا نے دہلی الیکشن میں پولنگ رضا کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا آپ ایسی سرکار چاہتے ہیں جو دہلی میں دنگے کرائے؟ 
حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی سب سے زیادہ ضرورت اور فائدہ بی جے پی کا ہی ہوتا رہا ہے۔ 2002ء میں گجرات میں مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران گودھرا فسادات ہوئے، ان فسادات پر مودی کے بنائے عدالتی کمیشن کی رپورٹ گجرات اسمبلی میں اس سال شہریت قانون کے خلاف احتجاج شروع ہونے پر پیش کی گئی۔ اس رپورٹ میں مودی، اس وقت کی انتظامیہ اور پولیس کو ان فسادات کے دوران کسی بھی کردار سے بری کیا گیا۔ کیا اس رپورٹ کا مظاہروں کے دوران پیش کیا جانا ایک اتفاق تھا؟ مودی کے بنائے نانا وتی مہتا کمیشن نے بی جے پی اور مودی کو فسادات کی سازش کے الزام سے بری کیا اور فسادات میں ان کے بالواسطہ یا براہ راست کردار کی بھی تردید کی۔ رپورٹ میں بی جے پی اور بجرنگ دل کے مقامی کارکنوں کو بھی کلین چٹ دے دی گئی۔ حالیہ پارلیمانی الیکشن میں مسلم کش فسادات کی مرکزی ملزمہ پرگیا ٹھاکر، جس پر فرد جرم بھی عائد کی جا چکی ہے اور مقدمہ زیر سماعت ہے، کو بھوپال سے بی جے پی کا ٹکٹ دینا کیا اتفاق تھا؟ پرگیا ٹھاکر کو کانگریس کے ڈگوجے سنگھ کے مقابلے میں کھڑا کرنا اتفاق تھا؟ ڈگوجے سنگھ ہی وہ کانگریسی لیڈر ہے جنہوں نے پرگیا ٹھاکر جیسے کرداروں کو بے نقاب کیا اور ہندو دہشت گردی کی اصطلاح پہلی بار استعمال کی۔
تین دن دہلی جلتا رہا، مودی ٹرمپ کے سواگت کی تیاریوں میں لگے رہے اور بھارت میں اندرونی امن کے ذمہ دار امت شا غائب رہے۔ اس دوران پولیس نے کسی بھی محکمانہ کارروائی کے خوف کے بغیر نہ صرف بلوائیوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہ کی بلکہ کئی ویڈیوز ایسی سامنے آئی ہیں جن میں پولیس اہلکاروں کو بلوائیوں کے ساتھ مل کر گھروں کے دروازے توڑ کر اندر گھستے دیکھا گیا۔ پولیس اہلکاروں کی ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں مسلمان نوجوان زخموں سے چور سڑک پر پڑے ہیں اور پولیس اہلکار انہیں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ مل گئی آزادی، اور مانگو آزادی، کھاتے بھارت کا ہو اور آزادی مانگتے ہو۔ پولیس اہلکاروں نے یہ سب بلا وجہ نہیں کہا تھا، اس کے لیے بی جے پی نے الیکشن کے دوران ہندو ووٹر کی ذہن سازی کی تھی اور شہریت قانون پر احتجاج کرنے والوں کو غدار بتایا تھا۔ بی جے پی نے دہلی کے الیکشن کو ہندوستان پاکستان کا میچ قرار دیا تھا۔
دہلی کے حالیہ فسادات میں تمام واقعات بالکل ویسے ہی دکھائی دیئے جیسے 1984ء میں دہلی میں فسادات کے دوران پیش آئے تھے یا پھر 2002ء کے گجرات فسادات میں پیش آئے تھے۔ دہلی کے حالیہ فسادات میں جو سب سے خوفناک تصویر ہے وہ دہلی پولیس کی ہے۔ اگر امن قائم کرنے کے ذمہ دار ادارے کے اہل کار اس طرح جانب دار اور فسادی ہوں گے تو مستقبل کی کہانی کا تصور آسانی سے ذہن میں آ جاتا ہے کہ کیا ہو سکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دہلی فسادات پر کام آج سے شروع نہیں ہوا۔ 2003ء میں جب مودی الیکشن جیت کر آئے تو پہلی تقریر میں مودی نے بڑے پیمانے پر پُر تشدد واقعات کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا: نیوٹن کا قانون ہے ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے، میں چاہتا ہوں ایکشن رک جائے، ری ایکشن خود بخود رک جائے گا۔ 
مودی کی اس تقریر کو ذہن میں رکھیں اور پھر شہریت قانون کی مخالفت میں ہونے والے مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی بڑی تعداد میں شرکت کو دیکھیں تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ایکشن مودی کو نہیں بھایا اور ری ایکشن آ گیا۔
مودی نے اپنی دوسری مدت اقتدار کے ساتھ بھارت میں مذہبی بنیادوں پر تقسیم گہری کر دی ہے۔ 1971ء میں جو کہتے تھے کہ انہوں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا آج وہ خود اس دو قومی نظریے کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی دانشور دو قومی نظریہ کو بھلا کر آگے چلنے کی بات کرتے ہیں لیکن دہلی فسادات کے بعد ان کی کیا رائے ہے؟ میں شدت سے یہ جاننے کا منتظر ہوں۔ مودی ہندو مسلم تقسیم اور فسادات کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں‘ لیکن بھارت کو مودی کا یہ کھیل مہنگا پڑے گا اور بھارتی سماج کے ذہن میں یہ بھیانک تصویریں عشروں تک زندہ رہیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved