تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     02-03-2020

آٹھواں آسمان مدینے میں… (1)

جاڑے کے موسم سب جگہ ایک جیسے نہیں۔ خاص طور پہ صحرا کی سردی بڑی جگر پاش ہوتی ہے۔ یہ ہجرتِ نبویؐ کا 7واں برس تھا اور دسمبر کا یخ بستہ مہینہ۔ 629 عیسوی سال۔ اسلام قبول کرنے والوں کو پہلی بار مکہ میں طوافِ کعبہ کا موقع ملا۔ تب سے اب تلک عمرے کی ادائیگی کے لیے دلِ مسلم ہر جگہ تڑپتا ہے۔ سال 628 عیسوی میں ایسا نہ ہو سکا تھا‘ جس کے نتیجے میں صلح حدیبیہ معرضِ وجود میں آئی تھی۔ 
پچھلے جمعہ کے روز میں لاہور میں تھا۔ یوں لگا‘ جیسے یثرب کی وادی سے ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ ہلکی سی ندا سماعتوں سے ٹکرائی ''آتے ہیں وہی جن کو سرکار بلاتے ہیں‘‘۔ وہیں سے تیاری شروع ہو گئی۔ اس وقت سعودی ائیرلائن کا جہاز وادیِ غیر ذی ذرعٍ پہ اڑان بھر رہا ہے۔ اماں حوّا کی بستی جدّہ کے ہوائی مُستقر کی جانب۔ لینڈنگ میں جو راستہ باقی ہے وہ منطقہ حجاز کہلاتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے۔ حرمِ کعبہ اور مدینہ النبیؐ کا مسکن اور مرجع خلائق بھی۔ چار لائنیں اس طرح موزوں ہو گئی ہیں:
دل ہے مکّہ میں جاں مدینے میں
روُح کا آستاں، مدینے میں
باغِ جنت، درِ محمدؐ پر
آٹھواں آسماں مدینے میں
جدہ ایئرپورٹ سے ''محمدیہ‘‘ کے علاقے میں اپنے بیٹوں کے ہم نام دوستوں، عبداللہ اور عبدالرحمن کے گھر فریش ہونے گیا۔ تھوڑی دیر آرام اور مقامی مسجد میں نماز مغرب کے بعد مسجدِ عائشہ کی جانب روانگی کر لی۔ مّکہ پہنچ کے ایسا لگا‘ جس طرح پورا جہاں اس ''بلداً آمناً‘‘، پہنچنے کی کوشش میں ہے، مگر سلیقے سے۔ ہر شخص دھیمی آواز میں ''لبیک اللٰھم لبیک‘‘ کہہ کر اپنی حاضری لگا رہا ہے۔ عمرے کی ادائیگی کے لیے مجھے نیا مُعلم مل گیا۔ میاں عمر بخش، کھڑی شریف والے درویش میاں محمد بخش کی درگاہ کے کسٹوڈین۔ نمازِ عشاء کے بعد جاں فزا موسم میں گھنے بادلوں سے بہت ہلکی پھوار کی برسات پہلا اور خوش کُن تجربہ تھا۔ حرمِ کعبہ میں ان دنوں تاریخ کا سب سے بڑا اور وسیع Expansion کا تعمیراتی پروجیکٹ جاری ہے۔ 
جس ٹاور میں قیام تھا اس کے ایک حصے میں حضرتِ صدیق اکبرؓ کا گھر حرم سے قدرے اونچائی پہ واقع پہاڑی پہ بنایا گیا ہے۔ اب کلاک ٹاور کی تعمیر کے بعد چوتھے فلور پرحضرت ابو بکرؓ کے گھر کی تعظیم کے اظہار کے لیے ''مسجدِ ابوبکر‘‘ بنا دی گئی ہے۔ اس سے آگے ''شعبِ ابی طالب‘‘ والی معروف گھاٹی تھی‘ جہاں سماجی مقاطعے کی سب سے الم انگیز، ظُلم کی داستان لکھی گئی۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے والدِ محترم حضرت ابو طالب اور امُ المومنین السّیدہ خدیجۃ الکبریٰ کی صحت یہیں کی سختیوں اور صعوبتوں کے باعث جاں بہ لب کیفیت تک پہنچی۔ 
کلاک ٹاور سے غارِ ثور کی چوٹی مکہ کی گھاٹیوں سے سر اٹھائے دائیں جانب نظر آتی ہے۔ اُس سے آگے دائیں طرف غارِ حرا کعبہ شریف کی طرف ہے۔ جبلِ نور گھاٹیوں میں سب سے اونچا اور جانبِ حرم جھکا ہوا ہے‘ جس پہ چڑھتے وقت راستہ آبادی سے شروع ہوتا ہے۔ تقریباً سیدھا (Vertical) اور کچا اور مشکل ٹریل ہے۔ یہاں دن دہاڑے بڑے بڑے بندر (Baboon) غول کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں تھیلا یا بیگ ہو تو طویل نوکیلے دانت دکھا کر آپ سے تھیلا چھین لیتے ہیں۔ پانی کی بوتل نہیں چھیڑتے۔ سخت پتھریلی ٹریل کے اوپر ہلکی اور تنگ سی ہموار جگہ ہے۔ (راستے اور مسجد کی تعمیر کے لیے پاکستانی گداگروں کا ڈیرہ ہے۔ کاش کوئی سفیر خاکپائے رسولؐ چومتے اس راستے پہ یہاں تک چڑھ کے پہنچے۔ دیکھے کہ دنیا بھر کے زائرین میں کس طرح ناموسِ وطن نیلام ہو رہی ہے)۔ 
پھر فوراً ڈھلوان شروع ہو جاتی ہے جس سے نیچے اترنے کا بہت دشوار گزار رستہ ہے۔ مشکل سے پائوں دھرنے کی جگہ سمجھ لیں۔ غارِ حرا میں اندر جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ درِ غار پہ ہی نوافل اور مناجات ادا کرنا مناسب لگا۔ سلام یا رسول اللہؐ!
اتر کر حِرا سے سوئے قوم آیا 
اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
واپسی والی سڑک پہ مسجدِ ''جِن‘‘ واقع ہے۔ یہیں جنات کی ایک جماعت نے محسنِ انسایتؐ کے حضور حاضری دی اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل کیا تھا۔ تھوڑی دُور ''مسجدِ فتح‘‘ آتی ہے۔ وہ مقام جہاں آپؐ نے فتح مکّہ کے وقت قیام فرمایا۔ یہیں پہ ''بابِ فتح‘‘ سے جزیرہ نما عرب کی سپر پاور کو شکست دے کر آپؐ فاتح کی حیثیت سے مگر رحمۃالعالمین بن کر کعبہ میں داخل ہوئے۔ مسجدِ فتح سے ہجرہ روڈ بھی شروع ہوتی ہے۔ یہ سڑک مکہ سے مدینہ جانے کا تیز ترین راستہ ہے۔ مسافت کا وقت تقریباً ساڑھے چار گھنٹے تھا۔ اب کم ہو کر ساڑھے تین گھنٹے ہے۔ اس کی وجہ ہجرہ روڈ پر تیز رفتاری کی اجازت ہے۔ پہلے فی گھنٹہ 120 کی اجازت تھی‘ اب حدِ رفتار 140 کلومیٹر تک بڑھ گئی ہے۔ اسی پر جنت المعلیٰ کی آخری آرامگاہ آتی ہے۔ جو اب معلق پُل‘ جسے عربی زبان میں کُبری کہتے ہیں‘ کے ذریعے یہ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ دائیں جانب محسنِ رسالت مآب حضرت خدیجۃ الکبریٰ پردہ فرما رہی ہیں۔ ساتھ ہی مخدراتِ اہلِ بیت، امّ المومنین کے سایۂ عاطفت میں پردہ پوش ہیں۔ یہاں پہنچ کر سانس چلنے کی رفتار سے آنسو تیز ہو جاتے ہیں‘ انسانیت کے عظیم محسن خانوادہ بنو ہاشم کے حضور سپاسِ عقیدت و حاضری بن کر۔ میری نظر غارِ حرا کی طرف پلٹی تو سوچا جب اللہ کے آخری پیغمبرؐ یہاں سے گزر کر غارِ حرا تک پہنچے، تب یہ پہاڑ جنگل بیابان تھے۔ درندے، خطرات اس کے علاوہ۔ کروڑوں درود و سلام اُس ذات پاک پر جس کی راتیں یہاں گوشۂ تنہائی میں بَسر ہوتیں۔ جہاں نہ کھانا تھا نہ پانی نہ کوئی ہمراہی آپؐ کے ساتھ غار میں جاتا۔ سوائے مالکِ حقیقی حیّ القیوم کے جو ہر جگہ موجود ہے۔ دُوسرا خیال آیا صفا اور مروہ پر اللہ نے عورت کی عظمت اور ماں کی حیثیت سے اُس کے جلال کے لازوال جھنڈے گاڑ دئیے۔ سیدہ امّاں حاجرہ کے بے چین قدموں پر دوڑنے کو ''شعائرِاللہ‘‘ قرار دے کر۔ جہاں ماں بیٹے کی طرف دیکھتی ہے وہاں دیکھنا فرض ٹھہرا۔ جہاں ماں پانی کی تلاش میں دوڑ پڑی اُسی مقام پر دوڑے بغیر نہ عمرہ مکمل نہ ریاضت و عبادت۔ جہاں اماں حاجرہ جتنی مرتبہ پہنچیں، جس انداز میں عین اُسی طریقے سے تا قیامت، ماں کی یہ سنت مالکِ ارض و سما کی جانب سے فرضِ عین ٹھہرا دیا گیا۔ یہاں جانے والے، اپنی مائوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی مائوں کے لیے رحمتوں اور آسانیوں کی دعا کر کے اپنی عبادت اور ثواب میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ مجھے یہ بھی یاد آیا جب سیدہ اماں حاجرہ، پیغمبر زادے حضرتِ اسمٰعیل ذبیح اللہؑ کے لیے پانی کی تلاش میں سرگرداں تھیں، تب ان کا شمار آج کی دنیا کے اعتبار سے نو عمر مائوں (Young Mothers) میں ہو گا۔ اس لیے خدمت کے لیے اماں جی کے بڑھاپے کا انتظار ضروری تو نہیں۔ کون جانے کل کون ہو، کون نہ ہو؟
حرم شریف میں طواف کے دوران ایک شخص ہاتھ میں مناسکِ عمرہ کی کتاب تھام کر دوڑتا آیا۔ کہنے لگا: آپ مجھے نہیں جانتے‘ میرا نام لیا اور بتایا: لکھنٔو کا مسلمان ہوں۔ آپ بھارت کے مسلمانوں کے لیے دعائیں ضرور کریں۔ پاکستانیوں سے بھی کہیں۔ ہم بہت مشکل میں ہیں۔
مکہ شریف میں 3 دن قیام کے بعد دربارِ رسولِ محترمؐ میں حاضری کے لیے ''قطارالسریع‘‘ (Hermain Fast Train) کا انتخاب ہوا۔ حرمِ شریف سے 20 منٹ کی ڈرائیو پر وسیع و عریض ریلوے سٹیشن جا پہنچے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved