کمرشل ازم نے کرکٹ کو بھی نہیں بخشا۔ایک کھیل میں سو کھیل سماگئے ہیں۔آج کرکٹ ملٹی پرپز ، ملٹی لیئر اور ملٹی ریسورس کھیل ہے۔یعنی مقاصد بھی کئی ہیں، تمہیں تو خیر کوئی گن ہی نہیں سکتا اور وسائل بھی ہر طرف سے طوفان کی طرح اُمڈے آتے ہیں !بقول قمر جلالوی دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو ! بہت سے نوجوان اب کرکٹ کی طرف اِس لیے آتے ہیں کہ کِسی اور شعبے کی طرف آسانی سے جاسکیں۔ کرکٹ کے میدان میں گزارے ہوئے چند سال ایسی شہرت بخشتے ہیں کہ پھر اِنسان زندگی بھر اُس شہرت کو کیش کراتا رہتا ہے۔ ماڈلنگ کرنی ہو تو کرکٹ کھیلیے۔ اداکاری کرنی ہو تو کرکٹ کھیلیے۔ چند ایک شعبے اور بھی ہیں مگر ہم خوفِ فسادِ خلق سے یہاں اُن کا ذکر نہیں کرتے! اور بہت سے معاملات کی طرح بھارت سَٹّے بازی کا بھی گڑھ ہے۔ بھارتی سَٹّے بازوں نے ہر شعبے کو کچھ کو کچھ بنادیا ہے۔ اب لوگ اداکاری دیکھنے جاتے ہیں تو سنیما کی اسکرین پر کئی کھیل دِکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ کرکٹ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم کا رُخ کیجیے تو وہاں میدان کے بیچوں بیچ کرکٹ کے سِوا تمام کھیل براجمان ہوتے ہیں۔ اور اداکاری تو خیر ایسی چل رہی ہوتی ہے کہ پُونا فلم انسٹی ٹیوٹ والے دیکھیں تو نیا نصاب مرتب کریں! شارجہ سے شروع ہونے والا سَٹّے کا سلسلہ اب ایسے جلوے بکھیر رہا ہے کہ دیکھنے کی تاب نہیں۔ کوئی ہمت کرکے دیکھے تو آنکھیں چُندھیا جاتی ہیں۔ یہ وہ جنتر منتر ہے جس میں کئی ایسے پھنسے کہ پھر نکل نہ سکے۔ یہ مکڑی کا وہ جال ہے جس میں لالچی مکھیاں آئے دن پھنستی ہیں اور شہرت، عزت اور کیریئر کی موت سمیت اپنا سب کچھ کھو بیٹھتی ہیں! سِری سنتھ نے کرکٹ تو سیکھی مگر آج کی کرکٹ کے تقاضے نہ سیکھ پایا۔ دُنیائے کرکٹ میں آمد پر جب اُس نے مال دیکھا تو رال ٹپکی اور پھر لالچ نے اپنا رنگ جمایا۔ رہی سہی کسر بُکیز نے حُسن کے جلوے فراہم کرکے پوری کردی! اور پھر دِل و دِماغ کی لائن اور لینتھ پر سِری سنتھ کو کچھ اختیار نہ رہا! وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ راتوں رات بہت کچھ، بلکہ سب کچھ پانے کی تمنا نے اسٹیپ غلط کردیئے اور سِری سنتھ کیریئر کی پچ پر سب سے جان لیوا، بلکہ خود کش نو بال کرابیٹھا! سِری سنتھ جیسے نو آموز سارا کھیل بگاڑ دیتے ہیں۔ سَٹّے باز بھی عقل سے کام نہیں لیتے۔ کِسی کو اپنی صف میں شامل کرنے سے پہلے تھوڑی بہت ٹریننگ تو دے لیا کریں! اِتنی محنت سے اُنہوں نے یہ تاج محل کھڑا کیا ہے اور ایک آدھ غلط اینٹ عمارت کا حُسن غارت کردیتی ہے! سِری سنگھ بوڑم نکلا۔ گیند سے کھیلنا سیکھا مگر یہ سیکھا کہ راتوں رات ملنے والی دولت کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے کیسے باز رہنا ہے! سَٹّے بازوں کو اب ایک انسٹی ٹیوٹ کھولنا چاہیے جس میں سِکھایا جائے کہ دولت خرچ کیسے کرنی ہے! نو دولتیوں کی ذرا سی نادانی پورے شعبے کو ’’بدنام‘‘ کرتی ہے۔ سِری سنتھ نے اسپاٹ فکسنگ کے ڈرامے میں کردار ادا کیا اور معاوضہ پایا۔ مگر یہ معاوضہ اُس سے ہضم نہ ہو پایا۔ کسی بھی بولر کو اپنی تمام خفیہ گیندیں ایک ہی اوور میں نہیں کرالینی چاہئیں۔ سِری سنتھ اِتنی سی بات سمجھ نہ پایا اور گرل فرینڈ کو پاکر آپے سے باہر ہوگیا۔ ایک ایک دن میں دو دو لاکھ روپے سے زائد کی شاپنگ کرائی۔ دو لاکھ روپے کے تو صرف ملبوسات دِلائے۔ بلیک بیری بھی لیکر دیا۔ سیر سپاٹے کا شوق بھی پورا کیا۔ میڈیا والوں نے تصاویر میں لڑکی کا چہرہ blur کردیا۔ بے چارا سِری سنتھ تو سب کے سامنے ہے اور جو فساد کی جڑ تھی اُسے بچالیا گیا۔ شاید اِس لیے جب وہ نیا شِکار پھانسنے نکلے تو شناخت نہ کرلی جائے! عزت اور کیریئر داؤ پر لگاکر جو کچھ کمایا اُسے گرل فرینڈ پر لگادیا! اور پھر پکڑا گیا۔ سِری سنتھ کی تو نوکری بھی گئی۔ وہ بھارت پیٹرولیم میں اسسٹنٹ ڈپٹی مینیجر تھا۔ یعنی آدھی کو چھوڑ پوری کو جائے تو آدھی بھی ہاتھ سے جائے! دارا سنگھ رندھاوا اپنے زمانے کے مانے ہوئے پہلوان تھے۔ جب تک پہلوان تھے، صرف پہلوانی کی۔ ہم نے نہیں سُنا کہ اُنہوں نے کبھی میچ فکسنگ کی ہو یعنی کبھی نُورا کشتی کا حِصّہ نہیں بنے۔ بعد میں وہ اداکاری کی طرف آئے اور جیسے تیسے کچھ عرصہ ایکشن ہیرو کی حیثیت سے گزارا۔ اداکاری اُنہوں نے محنت سے سیکھی۔ یہ کوئی نُورا کشتی کلچر کا نتیجہ نہ تھی۔ مگر افسوس کہ دارا سنگھ کے بیٹے وندو کو میچ فکسنگ یعنی نُورا کشتی نے پچھاڑ دیا! میچ فکسنگ کے الزام میں زیر حراست وندو نے بُکیز سے رابطوں کا اعتراف بھی کرلیا ہے۔ مگر اُمید ہے کہ یہ معاملہ اعتراف تک رہے گا، انکشاف کی منزل تک نہیں پہنچے گا! سَٹّے بازی وہ اکھاڑا نہیں جس میں وندو کا داؤ چل سکے۔ اُس نے ہالی وڈ کی مشہور اداکاری فرح ہاشمی سے شادی کی تھی۔ افسوس کہ فرح کو کئی سال اپنے گھر میں رکھنے کے باوجود وہ اُس سے تھوڑی بہت اداکاری بھی نہ سیکھ سکا! سُنا ہے آئی پی ایل میں میچ فکسنگ اور اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے تحقیقات کا دائرہ وُسعت اختیار کرتے کرتے اب مہیندر سنگھ دھونی کی اہلیہ تک پہنچ گیا ہے اور اُن سے بھی تفتیش کی تیاری ہو رہی ہے۔ وکٹ کیپر میاں کی بیوی نے شاید سوچا بھی نہ ہوگا کہ کبھی وہ وکٹوں کے پیچھے یوں دَھر لی جائے گی! اب پینڈورا بکس کھلا ہے تو پتہ نہیں کون کون بے نقاب ہوگا۔ تفتیش ہی سے معلوم ہو پائے گا کہ کِس نے بے لگام کمایا اور کون اخراجات کے معاملے میں جذبات پر قابو نہ پاسکا۔ بُکیز بھی بہت سِتم ظریف ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ نئے کھلاڑیوں کو پھانسنے میں زیادہ وقت لگتا ہے نہ محنت۔ پیسوں سے تو چند ایک ہی کو لُبھانا پڑتا ہے۔ بیشتر تو لڑکیوں کے جال ہی میں پھنس جاتے ہیں! ہمیں حنیف محمد اور فضل محمود کا زمانہ یاد آگیا۔ کیا دور تھا کہ وہ لوگ سائیکل پر سوار ہوکر اسٹیڈیم جایا کرتے تھے اور کھانا بھی گھر سے لے جانا پڑتا تھا۔ شہرت بھی برائے نام تھی۔ اور دولت تو خیر خال خال ہی تھی۔ ہاں، عزت تھی جو بچی رہ گئی اور اب تک کام آرہی ہے! سیدھے اور سادہ لوگ تھے۔ خود کو کرکٹ تک محدود رکھتے تھے۔ ایسی کرکٹ سے تو اُن کا دور کا بھی واسطہ نہ تھا جس میں نہ کھیلنے کے زیادہ پیسے ملتے ہوں! آئی پی ایل میں میچ اور اسپاٹ فکسنگ کا پینڈورا بکس کھلنے پر پاکستانی کرکٹرز نے یقیناً سُکون کا سانس لیا ہوگا۔ دنیا کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ سَٹّہ بازی کا ہیڈ کوارٹرز کہاں ہے اور کِس نے کرکٹ کے نام پر جُوئے کی سُپر مارکیٹ کھول رکھی ہے۔ اب ساری اُنگلیاں ہماری طرف نہیں اُٹھنی چاہئیں۔ آئی پی ایل کیس یہ بھی بتاتا ہے کہ پکڑے جانے سے بچنے کے لیے کون سی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں! ہماری دُعا بہر حال یہ ہے کہ کرکٹ صرف کرکٹ رہے، غریب کی جورو یعنی سب کی بھابی بن کر نہ رہ جائے کہ جو آئے اُس کے نام پر کچھ بھی کرتا پھرے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved