ابھی چند روز قبل پاکستانی قوم نے پلوامہ واقعہ کے نتیجے میں ابھرنے والے بھارت کے جارحانہ عزائم کا پاکستان کی جانب سے بھرپور‘ دو ٹوک اور منہ توڑ جواب دینے کے بعد ایک سال مکمل ہونے پر سرپرائز ڈے منایا تو مجھے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا سابق چیف وکرم سودھ یاد آ گیا‘ جس نے پلوامہ واقعہ کو اٹھانے میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اطلاعات ملی ہیں کہ یہی وکرم سودھ لندن میں کسی عمارت میں داخل ہوتے وقت اپنا چہرہ چھپانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ سوال ہے کہ کیوں؟ ایک سوال اس وقت دنیا بھر کی ایجنسیوں اور سیاسی و سفارتی حلقوں میں زیر گردش ہے۔ یہ کہ لندن کے انتہائی مہنگے علاقے کی ایک انتہائی اہم عمارت‘ جو چند برسوں سے میڈیا اور سماجی حلقوں میں ہر وقت زیر بحث رہنے لگی ہے اور جہاں لندن پولیس اور سکاٹ لینڈ یارڈ کے لوگ چوبیس گھنٹے کسی بھی نا گہانی صورت حال سے نمٹنے کیلئے موجود رہتی ہے‘ اس عمارت میں ایک نقاب پوش کی آمد کس لیے؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نقاب پوش شخص ''را‘‘ کا سابق چیف وکرم سودھ تھا‘ کیونکہ ٹی وی چینلز پر نقاب میں چہرہ چھپائے تصویر اس سے بے حد مماثلت رکھتی ہے۔ فروری 2019ء میں پلوامہ میں خود کش حملے کے بعد وکرم نے مختلف سیمینارز اور ٹی وی انٹرویوز میں اپنی رائے دیتے ہوئے زور دیا تھا کہ اس حملے میں بھارت کی سکیورٹی فورسز کے اندر سے ہی کوئی اہلکار شامل ہے کیونکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ پلوامہ سے سری نگر کی جانب آنے والی شاہراہ پر سخت سکیورٹی کے باوجود بارود سے لدی ہوئی کوئی گاڑی بغیر کسی روک ٹوک کے بھاگتی رہے۔ وکرم سودھ کا نشانہ بھارتی آئی بی تھی‘ کیونکہ ان کی آئی بی سے مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ وکرم یہی کہتا رہا کہ پلوامہ حملہ آئی بی کی نا کامی کی وجہ سے ممکن ہوا اور یہ شک بھی کیا کہ ''را‘‘ کو نیچا دکھانے کیلئے آئی بی نے اپنے آدمیوں کو استعمال کیا (جواب ڈی ایس پی دیوندر سنگھ کی شکل میں سامنے آ چکا ہے) اٹھارہ فروری کو حیدر آباد میں ایڈ منسٹریٹو سٹاف کالج میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وکرم سودہ کا کہنا تھا کہ پلوامہ حملہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہو سکتا‘ اس میں چند ماہر لوگ شامل تھے‘ جنہوں نے بارود سے بھری گاڑی تیار کی اور خود کش حملہ آور کو اس کی باقاعدہ تربیت دینے کے علاوہ ٹارگٹ تک پہنچانے میں مدد کی۔ سیمینار سے خطاب میں وکرم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کسی نرم رویے کا نہیں بلکہ انتہائی سخت ترین رد عمل کا حق دار ہے‘ اس لیے پلوامہ کے جواب میں اسے ناقابل فراموش سبق سکھا دیا جائے۔
2018ء میں وکرم سودھ نے The Unending Game کے عنوان سے لکھی گئی اپنی کتاب میں لکھا کہ بحیثیت ''را‘‘ چیف وہ ضروری نہیں سمجھتا تھا کہ اپنے دشمن ملک کے فوجی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کریں‘ بلکہ اس نے بحیثیت ''را‘‘ چیف پاکستان سمیت کچھ دوسرے ممالک کی معیشت کو نقصان پہنچانے کیلئے ٹریڈرز کو بھی استعمال کیا‘ کیونکہ اب جنگ صرف سرحدوں پر ہی نہیں بلکہ گھروں کے اندر تک لڑی جا تی ہے۔ اگر کسی ملک کو اندرونی طور پر کمزور کرنا اور ختم کرنا مقصود ہے تو اپنی فوجی طاقت ضائع کئے بغیر اس کی معیشت کو اس طرح ناکارہ اور تباہ کر دو کہ وہ اپنے پائوں پر ہی کھڑا نہ ہو سکے۔ ایسے میں جیسے ہی اس کے قدم ڈگمگانے لگیں تو بڑھ کر اسے دبوچ لیا جائے۔ اپنی کتاب کے ایک باب میں وکرم سودھ بڑے فخر سے لکھتا ہے کہ ہم نے دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی امریکی سی آئی اے کو اس وقت دھوکے میں رکھ کر اپنا لوہا منوایا جب مئی 1998ء میں ہم نے پوکھران 2 نیوکلیئر ٹیسٹ کو اس سے خفیہ رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔
کارگل پر جب پاکستانی فوج نے بھارت کو اچانک آن لیا تو اس وقت ''را‘‘ اور انڈین آرمی چیف میں بڑے زور کی ٹھن گئی تھی۔ دونوں ادارے کھل کر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر اتر آئے تھے۔ اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل وی پی ملک الزام لگانا شروع ہو گئے کہ پاکستانی فوج کا کارگل کی چوٹیوں تک اس اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ پہنچنا ہماری تمام خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے‘ جبکہ وکرم سودھ نے جنرل وی پی ملک کے الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کا نہیں بلکہ بھارت کی فوجی قیادت کی نا کامی کی وجہ سے ہوا ہے‘ جو پاکستان کی فوجی موومنٹ کو نوٹ ہی نہ کر سکی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ آرمی چیف ہوتے تو کبھی بھی دراس اور ساندو سیکٹرز سے اپنے فوجی دستے واپس نہ بلاتے چاہے موسم کتنا ہی سرد اور ناقابلِ برداشت کیوں نہ ہوتا۔
بھاری فوج اور پولیس سے تعلق نہ ہونے کے باوجود وکرم سودھ کو ''را‘‘ کا چیف بنایا جانا کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیونکہ وکرم کا تعلق بھارت کی پوسٹل سروس سے تھا۔ اس نے 2000-03 ء تک ''را‘‘ چیف کے فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران وکرم نے نئی دہلی پارلیمنٹ ہائوس پر حملے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے دو برس تک بھارت کی افواج کو پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ ڈیپلائے رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی معیشت کو کھوکھلا کر دیا جائے۔ اُس وقت یہی لگتا تھا کہ کسی بھی لمحے دونوں ملکوں میں جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔ وکرم سودھ کی بنیادی تعلیم چونکہ ایم اے اکنامکس ہے‘ شاید اسی لیے وہ اس رخ پر کام کرتا رہا کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے سے بھارت اپنے تمام مقاصد حاصل کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''را‘‘ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسے نئی دہلی میں '' آبزرور ریسرچ فائونڈیشن‘‘ اور ''انڈیپنڈنٹ پبلک پالیسی تھنک ٹینک‘‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ یہ دونوں ادارے بھارت کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے ہی ادارے ہیں جن کے تحت پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک کے خلاف منصوبے تخلیق اور آپریٹ کئے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے نریندر مودی سرکار کی جانب سے آرٹیکل 370 کی شرارت وکرم سودھ کے شیطانی دماغ ہی کی سازش تھی‘ کیونکہ مودی کو دی گئی بریفنگ میں اس کا کہنا تھا کہ اس آرٹیکل کے ختم ہونے سے پاکستان کشمیر کو صرف تکتا ہی رہ جائے گا اور اس کے تمام منصوبے زمین بوس ہو جائیں گے۔ وکرم نے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے بعد بھی نریندر مودی کو مجبور کیا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں جس طریقے سے عالمی رہنمائوں کو مسئلہ کشمیر کی طرف متوجہ کیا ہے اور جس طرح مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر کے میڈیا میں ہائی لائٹ کیا جا رہا ہے‘ اس کے جواب میں بھارت کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے حوالے سے اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو خط لکھ کر اس بارے آگاہ کرنا چاہیے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ایک خاتون مصنف نے افواج پاکستان کے خلاف جو کتاب لکھی تھی اس کی تیاری میں وکرم سودھ نے ہی ان کو مدد فراہم کی اور یہ خاتون آج کل لندن‘ امریکہ اور جنیوا میں بلوچ دہشت گردوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے عسکری اداروں کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلاتے ہوئے دیکھی جا رہی ہیں۔
وکرم سودھ‘ جس کے متعلق مبینہ طور پر یہ خبر پھیلتی جا رہی ہے کہ لندن میں ایک پاکستانی سیا ستدان گھرانے کے اہم لوگوں سے اس نے چہرہ چھپاتے ہوئے ملاقات کی ہے‘ اس وقت دوبارہ میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔ اسی وکرم سودھ نے پاکستانی فوج کے متعلق اس وقت اس خاتون کی سوچ سے ملتے جلتے الفاظ استعمال کئے تھے جب مذکورہ خاتون کی کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی تھی۔ کتاب 2007ء میں شائع ہوئی تھی۔