چار مارچ2019ء کو وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹر پر اپنے نو ملین فالورز سے کہا :بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی بحفاظت بھارت واپسی پر جو لوگ مجھے امن کانوبل انعام دینے کیلئے آوازیں اٹھا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وہ مجھ کو نہیں بلکہ اُس شخصیت کونوبل انعام کا سب سے بڑا حق دار سمجھیں جو کشمیر کے80لاکھ انسانوں کو بھارت کے خونی پنجوں سے آزاد کرائے گا۔ نوبل انعام کا چمکتا دمکتا تاج اس شخصیت کے سر پر سجے گا‘ جو کشمیریوں کو ان کا منصفانہ حل دے گا۔
امریکا ‘ افغانستان اور طالبان کے درمیان قطر میں امن معاہدے پر فریقین کے تاریخی دستخطوں کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم عمران خان کیلئے ملک کے اندر اور باہر سے نوبل انعام کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان کا نام اس فہرست میں شامل کیا جاتا ہے یا نہیں‘ لیکن ان کی زندگی کے گزرے مہ و سال کا جائزہ لیا جائے تو بغیر کسی قسم کی لاگ لپٹ یا جانبداری کے انسانی ہمدردی اور فلاحِ انسانیت کیلئے ان کی گراں قدر خدمات کسی بھی بڑے سے بڑے ایوارڈ کیلئے ان کوپہلا حق دار بناتی ہیں۔دیکھا جائے تو ان سے کئی درجے کم خدمات کے حامل افراد کو بھی نوبل انعام سے نواز دیا گیا‘ لیکن شوکت خانم کینسر ہسپتال اور غریب اور کم وسائل رکھنے والے طلبا کیلئے نمل جیسی یونیورسٹی کا قیام دنیامیں انسانیت کیلئے کام کرنے والوں میں کئی گنا بہتر اور قابل تعریف ہے۔
دنیا آج گلوبل وارمنگ کا شکار ہے اور اس گلوبل وارمنگ نے انسانی زندگی تو ایک طرف‘ جنگلی حیات کیلئے بھی انتہائی تکلیف دہ صورت حال پیدا کر دی ہے ۔عمران خان کی سیا سی جماعت2013ء میں جب صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو عمران خان نے ماحول کو سر سبز اور صاف ستھرا بنانے کیلئے ایک ارب درخت لگانے کے منصوبے پر کام کا آغاز کر دیا۔عمران خان نے گلوبل وارمنگ کو درختوں کے سونامی سے ختم کرنے کیلئے گرین پاکستان پراجیکٹ شروع کیا تودنیا بھر کی تنظیمیں اسے دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور وزیر اعظم بننے کے بعد انہوں نے انتہائی ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوان ملک امین اسلم کے ذریعے کلین اینڈ گرین پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ ادارہ بناتے ہوئے ‘ اس کے ذریعے جنگی بنیادوں پر شجر کاری شروع کر رکھی ہے‘ جبکہ وزارت ماحولیات نے بھی پاکستان کو صاف ستھرا اور سر سبز ماحول دینے اورانسانوں و جانوروں کی زندگیوں میں بہتری اور آسانیاں پیدا کر نے کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ گلوبل وارمنگ میں کمی لانے کیلئے بلین ٹری جیسے عظیم منصوبے پر عمران خان نوبل انعام کے حق دار کیوں نہیں بن سکتے؟
پھرکرتار پور راہداری کو لے لیجئے‘ جسے بھارت کی طرف سے مختلف حیلے بہانوں اور رکاوٹوں کے با وجود عمران خان نے وقت سے پہلے تعمیر کر کے برصغیر کی دو متحارب نیوکلیئر پاورز کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع دیا تو دنیا بھر میں اسے پسند کیا گیا۔اس پر کینیڈا کے شہر وینکوور میں ـ سکھوں کی بہت بڑی تنظیم ـاکال سیوا فائونڈیشن نے متفقہ طور پر قرار داد پاس کرتے ہوئے اپیل کی کہ ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے عمران خان صاحب کو اس سال امن کا نوبل انعام دیا جائے۔
علاوہ ازیں‘عمران خان دنیا بھر میں جس فورم پر بھی گئے ایک ہی بات زور دے کر کہتے رہے کہ افغانستان میں جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ‘جو بات انہوں نے 19 برس پہلے دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہہ دی تھی کہ جنگ نہیں‘ تباہی نہیں‘ بلکہ امریکا کو امن کیلئے طالبان سمیت تمام طاقتوں سے بات کرنا ہو گی۔ انہوں نے بار ہا کہا کہ اسے بھی دنیا کے ہر انصاف پسند شخص کی طرح سانحہ نائن الیون پر دکھ اور تکلیف پہنچی ہے‘ لیکن اس کا علاج یہ نہیں کہ اس کی آڑ میں آپ عراق کو تباہی اور بربادی کی ویرانیاں دے دیں اور افغانستان میں جگہ جگہ امریکی اور نیٹو افواج دیہی آبادیوں کو بمباری اور گولہ باری سے مسمار کر کے رکھ دیں۔ عمران خان اُس وقت دنیا کوجھنجھوڑتے رہے کہ طالبان کے ساتھ جنگ نہیں مذاکرات کرو‘ ان سے بات کرو‘ لیکن اُس وقت کسی نے ان کی ایک نہ سنی‘ بلکہ الٹا ان کا مذاق اڑایا ‘ یہاں تک کہ'' طالبان خان‘‘ کا مضحکہ خیز خطاب دے دیا۔انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اُس وقت نیٹو کی سپلائی روکنے کیلئے کئی دنوں تک پشاور میں دھرنا دیا جب پشاور بم دھماکوں اور خود کش حملوں کا میدان بن چکا تھا۔ انہوں نے امن کیلئے خطرات مول لیتے ہوئے وزیرستان تک امن مارچ بھی کیا ‘جبکہ بھارت کے انتخابات سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی کی صورت میں مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل اور پاک بھارت امن کی امیدہے‘ لیکن مودی عمران خان کے امن کے خواب کا منہ چڑاتے ہوئے فسطائیت کی انتہا پر اُتر آیا۔مودی نے ہر ممکن کوشش کی پاکستان میدانِ جنگ میں کود پڑے ‘لیکن عمران خان صاحب نے صبر اور امن کا پرچم تھامے رکھا‘ کیونکہ پاک بھارت جنگ کی صورت میں پورا خطہ تباہی میں غرق ہو سکتا تھا۔علاوہ ازیں کر کٹ جیسے جنٹلمین کھیل کیلئے عمران خان نے امپائرز کے دانستہ یا نا دانستہ فیصلوں کی وجہ سے ہونے والے باہمی جھگڑوں اور بد مزگیوں کو روکنے کیلئے نیو ٹرل ایمپائرز کا خیال دیا‘اس طرح کھیلوں میں شفافیت پیدا کرنے پر کیا عمران خان نوبل انعام کے حق دار نہیں؟
1901ء سے2019ء تک امن کے نوبل انعام اب تک ایک سو مرتبہ134 شخصیات کو عطا کیا جا چکا ہے ‘جن میں سے107 کو انفرادی طو رپر جبکہ27 نوبل انعامات مختلف آرگنائزیشنز کو دیئے گئے ہیں۔ ان میں سے انٹرنیشنل ریڈ کراس کو نوبل انعام 1917ئ‘1944ء اور1963ء میں جبکہ1954ء اور 1981ء میں یہ انعامUNHCR کے حصے میں آیا۔2019ء کا نوبل امن انعام ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابے احمد علی کو اریٹیریا کے ساتھ امن کی کوششوں پر دیا گیا۔2018ء میں یہ انعام نادیہ مراد اورDenis Mukwege کو مشترکہ طور پر دیا گیا‘2016 ء کے نوبل ایوارڈ کی جانب دیکھیں تو یہJuan Manuel Santosکو اس وجہ سے دیا گیا کہ اس نے اپنی انتھک کوششوں سے پچاس سال سے جاری خانہ جنگی کوختم کیا۔
ہر سال نوبل انعام کے حق داروں کی ایک طویل فہرست ہے اور اگر ایک ایک نوبل انعام یافتہ فرد کی کوششوں اور انسانی حقوق اور رواداری کیلئے خدمات کا جائزہ لیا جائے تو عمران خان کی زندگی کے مہ و سال ان سب سے کئی درجے زیا دہ انسانی فلاح و بہبودکیلئے کام کرتے ہوئے گزر رہے ہیں ۔گزشتہ برس جب بھارت کے گرفتار پائلٹ ابھی نندن کو فوری طور پر رہا کرتے ہوئے بھارت بھجوایا گیا تو پاکستان کے اندر سے ان کیلئے نوبل انعام کی آوازیں اٹھنا شروع ہو ئیں‘ لیکن عمران خان نے خود ہی اپنے آپ کو اس فہرست سے نکالنے کا اعلان کر دیا‘ لیکن اگر نوبل انعام یافتگان کی خدمات کا ریکارڈ بغور دیکھیں تو ان کی خدمات عمران خان سے کئی درجے کم ہیں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے قیام اور سسکتی ہوئی زندگیوں کیلئے علاج فراہم کرنے کیلئے عمران کی خدمات دنیا کے کسی بھی فیلڈ میں کی گئی خدمات سے کئی درجے بلند ہیں۔ اگر شوکت خانم کینسر ہسپتال اور ریسرچ لیبارٹری کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو 2003ء کا نوبل امن انعام شیریں عبادی کو اس لیے دیا گیا کہ اس نے خواتین اور بچوں کیلئے کام کیا تھا۔ اگر یہی معیار ہے تو پھر عمران خان کی دن رات کوششوں سے قائم ہونے والے شوکت خانم ہسپتال میں کینسر کی اذیت ناک تکلیفوں سے نجات پانے والے ہزاروں مریض عمران خان کیلئے نوبل انعام کی سفارش کرتے ہیں۔