سیرت النبیؐ کا ہر واقعہ اتنا ایمان افروز ہے کہ اسے پڑھتے اور سنتے ہوئے ایک عجیب سکون ملتا ہے۔ آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں‘ رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل گداز ہوجاتے ہیں۔ غزوۂ احد میں آنحضورؐ کے ستر قیمتی صحابہ نے شہادت کا مرتبہ پایا۔ یہ سبھی نایاب ہیرے اور بے مثال شخصیات تھیں۔ سیرت مطہرہ کے ہر باب میں صحابہ وصحابیات روشنی کے مینار بن کر سامنے آتے ہیں۔ شمع رسالتؐ کے پروانوں سے عشق ایمان کا حصہ ہے۔ باب احد قربانی وایثار اور عزم واستقامت سے مالامال ہے۔ اس باب سے چند واقعات برائے تذکیر پیش خدمت ہیں ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
مشہور صحابی حضرت حذیفہؓ کے والد حُسیل بن جابرؓ اور ثابت بن وقشؓ دونوں کبیر السن بزرگ تھے۔ نبی اکرمؐ نے انھیں مدینہ منورہ میں خواتین اور بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا‘ مگر دونوں جہاد میں شرکت کے متمنی تھے۔ انہوں نے آپس میں جہاد کا تذکرہ کیا تو ایک نے دوسرے سے کہا: ''خدا تیرا بھلا کرے‘ اب ہماری مہلت عمل کتنی رہ گئی ہے۔ بس ہم چند گھڑیوں ہی کے مہمان ہیں‘ پھر کیوں نہ جہاد میں شرکت کی جائے۔ شاید اﷲ تعالیٰ ہمیں شہادت عطا فرمادے۔‘‘ دوسرے ساتھی نے بھی اس خیال کی تائید کی؛ چنانچہ دونوں اپنی تلواریں لے کر میدان جنگ میں جاپہنچے۔ ان کی موجودگی کا کسی کو علم نہ تھا۔ حضرت ثابت بن وقشؓ تو کافروں کے ہاتھوں شہید ہوگئے‘ مگر حسیلؓ مسلمانوں ہی کی تلواروں کا لقمہ بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب میدان جنگ میں افراتفری پھیل گئی تھی۔
حضرت حذیفہؓ نے اپنے والد کو پہچان لیا تھا اور وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے: ''اﷲ کے بندو یہ میرے والد ہیں‘‘ مگر شور ہنگامے میں کسی نے ان کی آواز نہ سنی۔ حضرت حُسیلؓ کی شہادت کے بعد جب عقدہ کھلا تو مسلمانوں کو بڑی ندامت ہوئی۔ آنحضورؐ نے حضرت حُسیلؓ کا خون بہا ادا کرنا چاہا تو حضرت حذیفہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ! میں ان کا خون معاف کرتا ہوں اور جن لوگوں کے ہاتھوں وہ شہید ہوئے ہیں‘ ان کے لیے اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتا ہوں‘ بے شک وہ ارحم الراحمین ہے۔‘‘ حضرت حذیفہؓ کے اس ایثار و جذبہ خیر کو دیکھ کر آنحضورؐ ان سے بہت خوش ہوئے اور ان کے حق میں اﷲ تعالیٰ سے بھلائی کی دعا مانگی۔
حضرت سعدؓ قبیلہ خزرج کے سرداروں میں سے تھے۔ بڑے مالدار اورفیاض تھے۔ انہیں آنحضورؐ سے بے پناہ محبت تھی۔ اپنے گھر میں آنحضورؐ اور صحابہ کرامؓ کی ضیافت کا اہتمام کرتے رہتے تھے۔ جہاد کے میدان میں اپنے مال اور جان سے ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ حضرت سعدؓ نے جنگ بدر میں حصہ لیا تھا اور جنگ احد میں بھی دادِ شجاعت دی تھی۔ احد میں انہوں نے دشمن کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا اور بالآخر زخموں کی تاب نہ لاکر گر پڑے۔ حضور اکرمؐ کو بھی ان سے یک گونہ محبت اور تعلق خاطر تھا۔ جنگ کے بعد آپؐ نے پوچھا: ''کون ہے جو سعد بن ربیع کی خبر لائے۔‘‘ حضرت اُبیّ بن کعب نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ !میں معلوم کرکے آتا ہوں۔‘‘ انہوں نے لاشوں کے درمیان بہت تلاش کیا‘ مگر سعد نظر نہ آئے۔ کئی مرتبہ ان کا نام لے کر بھی پکارا‘ مگر کوئی جواب نہ ملا۔ آخر انھہوں نے بلند آواز سے کہا: ''سعد اگر تم زندہ ہو تو مجھے جواب دو‘ مجھے رسول اﷲ نے تمہارا حال معلوم کرنے کے لیے بھیجا ہے۔‘‘
اس وقت حضرت سعدؓ کی جاں لبوں پر تھی۔ رسول اللہ کا اسم گرامی سنا تو شمع رسالتؐ کے اس عظیم پروانےؓ نے اپنی ساری قوت مجتمع کر کے نحیف سی آواز میں جواب دیا: ''رسول پاک کی خدمت میں میرا سلام عرض کر دینا اور انصار سے کہہ دینا ‘اگر آج خدانخواستہ رسول شہید ہوگئے اور تم میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ رہا تو اﷲ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ اس کے سامنے تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کی جائے گی۔ یاد کرو ہم نے بیعت عقبہ میں اﷲ کے رسول کے ساتھ عہد وفا باندھا تھا اور حلف اٹھایا تھا کہ ان پر اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔‘‘ اس شہید وفا کے یہ آخری الفاظ تھے۔ اس کے بعد روح نفس مطمئنہ کی صورت میں جسدِ خاکی سے پرواز کر گئی۔
حضرت اُبیّ بن کعب نے آنحضورؐ کی خدمت میں حضرت سعد کی یہ گفتگو عرض کی تو آپ نے فرمایا: ''اﷲ سعد پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے‘ زندگی اور موت ہر حال میں اس نے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی خیر خواہی کا حق ادا کیا ہے۔‘‘
جنگ احد کے بعد ایک مرتبہ ایک صحابی حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ لیٹے ہوئے تھے اور ان کے سینے پر ایک ننھی سی بچی کھیل رہی تھی۔ وہ اس سے بہت پیار کر رہے تھے اور شفقت سے اسے بار بار چومتے تھے۔ اس صحابی نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا: ''ابوبکرؓ یہ بچی کون ہے‘‘ جواب میں فرمایا: ''یہ اس شخص کی بیٹی ہے‘ جسے اﷲ تعالیٰ نے بہت عظیم مقام عطا کیا ہے۔ اس نے اﷲ کے رسول پر اپنی جان قربان کر دی اور روز محشر وہ آپؐ کے نقیبوں میں شمار ہوگا۔ ‘‘یہ تھا حضرت سعد بن ربیع کا مقام رفیع۔ ایک مرتبہ خلیفہ رسول کی خدمت میں حضرت سعدؓ کی ایک اور بیٹی حاضر ہوئی۔ جناب صدیقؓ نے ان کی بڑی عزت و تکریم کی اور ان کے لیے اپنی چادر بچھادی۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا: ''خلیفہ رسول یہ بی بی کون ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ''اے عمر یہ اس شخص کی بیٹی ہے ‘جو مجھ سے اور تجھ سے بہتر تھا۔ یہ سعد بن ربیعؓ کی لخت جگر ہے‘ جس نے آنحضورؐ کی زندگی میں جنت الفردوس حاصل کر لی اور ہم تم ابھی تک اس کے منتظر ہیں۔‘‘
حب الٰہی کے متوالے اور شمع رسالت کے پروانے تاریخ انسانی میں ایسے عظیم الشان سنگ ہائے میل نصب کر گئے ہیں ‘جو بھٹکے ہوئے قافلوں کو منزل کا پتا دیتے ہیں۔ شہدائے اُحد کی فہرست میں سیدنا عمرو بن جموحؓ کا نام نامی بھی جگمگا رہا ہے۔ یہ قبیلہ خزرج کی شاخ بنو سلمہ کے سردار تھے۔ جنگ احد سے پہلے انہوں نے جہاد میں شریک ہونے کا ارادہ فرمایا‘ مگر ان کے بیٹوں نے انہیں جنگ پر جانے سے منع کیا۔ ان کے چار جوان بیٹے سامان جہاد تیار کر چکے تھے‘ چونکہ حضرت عمرو بن جموح اس وقت بوڑھے بھی تھے اور ان کے ایک پاؤں میں شدید قسم کا لنگڑاپن بھی تھا‘ اس لیے ان کے بیٹوں نے ان سے کہا: ''ابا جان آپ گھر پر رہیں۔ ہم آپ کی طرف سے جہاد میں حصہ لیں گے۔ آپ تو ویسے بھی معذور ہیں‘ آپ پر جہاد فرض نہیں۔‘‘ انہوں نے فرمایا: ''نہیں میں تو ضرور جہاد پر جاؤں گا۔ میں نے تو قسم کھالی ہے۔‘‘
بالآخر معاملہ آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضرت عمرو بن جموح نے عرض کیا: ''یارسول اﷲ ! میرے بیٹے مجھے جہاد پر جانے سے روکتے ہیں‘ خدا کی قسم! مجھے امید ہے کہ جس طرح لنگڑاتا ہو ا چل کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں‘ اسی طرح میں اپنی اسی ٹانگ کے ساتھ [لنگڑاتا ہوا] جنت میں پہنچ جاؤں گا۔‘‘ انہوں نے اپنا کیس ایسی دردمندی سے پیش کیا کہ آنحضورؐ نے انہیں جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی۔ وہ خوشی خوشی اپنے گھر لوٹے‘ اپنا سامان حرب لیا اور دروازے کی دہلیز پر قبلہ رخ ہو کر اﷲ سے دعا مانگی: اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَہَادَۃً فِیْ سَبِیْلِکَ وَلَا تَرُدَّنِیْ خَائِبًا اِلٰی اَھْلِیْ ''اے اﷲ ! مجھ کو اپنے راستے میں شہادت عطا فرمانا اور مجھے ناکام کر کے واپس اپنے اہل و عیال کے پاس نہ بھیجنا۔‘‘
حضرت عمروؓ اپنے بیٹے خالد اور اپنے غلام سلیم کے ساتھ دشمن سے مردانہ وار لڑے اور شہید ہوگئے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے جسدِ اطہر کو دیکھ کر آنحضورؐ نے فرمایا: ''اﷲ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں‘جو کسی بات پر قسم کھالیں تو اﷲ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے۔‘‘ یہ شہید وفا بھی ایسے لوگوں میں سے تھا۔ ایک روایت میں آنحضورؐ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ''میں عمرو بن جموحؓ کو جنت میں چلتا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ جہاں اس کا پاؤں بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔‘‘ حضرت عمرو کے برادر نسبتی حضرت عبداﷲؓ بن عمرو بن حرام بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔
حضرت عمروؓ کی اہلیہ اور حضرت عبداﷲ کی بہن سیدہ ہندؓ بنت عمرو بن حرام کا بھی تاریخ اسلامی میں بڑا عظیم مقام ہے۔ جنگ کی خوفناک خبریں مدینہ میں پہنچیں تو کئی خواتین‘ میدان ِجنگ کی طرف چل پڑیں۔ ان میں حضرت ہند بھی تھیں۔ انہیں یکے بعد دیگرے ان کے شوہر عمرو‘ فرزند خلاد اور بھائی عبداﷲ کی شہادت کی خبر ملی۔ ہر خبر پر وہ انا ﷲ پڑھتیں اور پوچھتیں کہ آنحضورؐ کا کیا حال ہے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ آنحضورؐ خیریت سے ہیں تو کہا کہ میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب آنحضورؐ کو زندہ سلامت دیکھا تو اس عظیم خاتون نے پکار کر کہا: ''کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلْ یَا رَسُوْلَ اﷲِ۔‘‘ (یارسول اﷲ آپ سلامت ہیں تو ہر مصیبت ہیچ ہے) وقت گزر گیا‘ صدیاں بیت گئیں‘ مگر یہ الفاظ ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ یہ آج بھی اسی طرح ترو تازہ ہیں‘ جس طرح ادائیگی کے وقت تازہ اور معطر تھے۔