تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     04-03-2020

کراچی لٹریچر فیسٹیول اور تعلیم کا چیلنج

کراچی اور اسلام آباد میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیرِ اہتمام ادبی میلے کا ہر سال اہتمام کیا جاتا ہے جہاں کتابوں اور کتابیں لکھنے والوں سے ملاقات رہتی ہے۔ کراچی میں یہ لٹریچر فیسٹیول کا گیارہواں سال ہے۔ آج سے گیارہ سال پہلے کراچی لٹریچر فیسٹیول کا آغاز کارلٹن ہوٹل سے ہوا تھا اور اس کے بعد مسلسل ہر سال یہ فیسٹیول بیچ لگژی ہوٹل میں ہوتا ہے۔ اس بار بھی بیچ لگژی ہوٹل کے وسیع لان کے کنارے کتابوں کے شیدائیوں سے چھلک رہے تھے۔ تین دنوں پر پھیلے ہوئے لٹریچر فیسٹیول میں مختلف موضوعات پر 80 کے قریب سیشنز ہوئے‘ جن میں دو سو کے قریب ملکی اور غیر ملکی ادیبوں نے گفتگو کی۔ ان میں پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے ہوئے ادیب، شاعر، فنکار اور سامعین شامل تھے۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور اٹلی سے بھی مختلف ادیب خاص طور پر اس میلے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ان میں معروف ادیب اور تاریخی ناولوں کے خالق ولیم ڈال رمپل بھی شامل تھے۔ ان سیشنز میں اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی‘ جن میں پینل ڈسکشنز، پرفارمنگ آرٹس اور فلم سکریننگ بھی شامل تھے۔ سیشنز میں کشمیر کی صورتحال، پانی کے مسائل، اور آزادیٔ اظہارِ رائے پر قدغنوں پر بھی بات کی گئی۔ فیسٹیول میں چار مختلف کیٹگریز میں کتابوں کو انعام دیا گیا۔ ان کتابوں کا انتخاب معروف ادیبوں پر مشتمل جیوریز نے کیا تھا۔ فیسٹیول کی ایک خاص بات انگریزی اور اردو میں مشاعرے تھے۔ فیسٹیول کا اختتام موسیقی کی محفل سے ہوا۔
میرے لیے ذاتی طور پر یہ بات اہم تھی کہ اس ادب میلے میں تعلیم کے حوالے سے اہم گفتگو کی گئی۔ فیسٹیول کے آغاز میں ہی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے ڈائریکٹر جنرل ارشد سعید حسین نے تعلیم کے حوالے سے اپنی تقریر میں چند اہم نکات اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ دورِ حاضر میں انفارمیشن تک رسائی پلک جھپکنے میں ممکن ہے‘ انٹرنیٹ سے امکانات کی دنیا کے نئے دریچے کھل گئے ہیں‘ ایسے میں تعلیم کی اہمیت کئی گنا بڑھ گئی ہے لیکن پاکستان کو تعلیم کے میدان میں سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے‘ جن میں آئوٹ آف سکول بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اسی طرح بچوں کی ایک بڑی تعداد پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتی ہے۔ افتتاحی تقریب کے تمام سامعین کو اس وقت خوشگوار حیرت ہوئی جب وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے اپنی تقریر میں مدافعانہ لیپا پوتی کے بجائے ان مسائل کا برملا اظہار کیا‘ جو پاکستان کے نظامِ تعلیم پر ایک سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
فیسٹیول کے پہلے دن تعلیم کے حوالے سے ایک اہم پینل ڈسکشن ہوئی جس کا موضوع تھا: Education in Pakistan: A Roller Coaster اس پینل میں وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمود، محترمہ شہناز وزیر علی، محترم امجد وحید اور اسد علی شاہ کے ساتھ میں بھی شریک تھا۔ پینل کی نظامت محترمہ بیلا رضا جمیل کے سپرد تھی۔ اس پینل کی ڈسکشن میں بھی جناب شفقت محمود نے مدافعانہ پوزیشن لینے کے بجائے خود ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کے معیار پر کئی سوال اٹھائے گئے ہیں۔ جناب شفقت محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد تعلیم کے حوالے سے ہمیں جس توجہ اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت تھی بد قسمتی سے کسی حکومت نے اس کے حوالے سے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ ڈاکٹر امجد اور اسد علی شاہ نے کہا کہ تعلیم میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کو ختم کر دیا جائے۔ تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں بتدریج اضافہ کیا جائے‘ اس کے علاہ عام اشیا پر تعلیمی سرچارج وصول کیا جائے تاکہ تعلیم کے حوالے سے معقول فنڈ مختص کیا جا سکے۔ محترمہ شہناز وزیر علی کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کے تحت ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹس کو ختم کر دیا جائے تو ان میں کام کرنے والے ملازمین کا کیا بنے گا۔ میں نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی اور یہ رائے دی کہ ایجوکیشن کے ڈیپارٹمنٹس ختم کرنے کے بجائے ان کو بہتر کرنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔ تعلیمی بجٹ کو بتدریج بڑھانے کی تجویز پر میں نے کہا یہ کوئی نئی تجویز نہیں‘ اس سے پیشتر 2009ء کی پالیسی میں یہ کہا گیا تھا کہ 2015ء تک تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا 7 فیصد خرچ کیا جائے گا‘ لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمار ا تعلیمی بجٹ زیادہ ہونے کے بجائے کم ہوتا جا رہا ہے اور اس سال یہ بجٹ جی ڈی پی کے 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ اسی طرح تعلیمی سرچارج کی تجویز بھی نئی نہیں۔ نواز شریف حکومت میں اقرا سرچارج کے نام پر خطیر فنڈز اکٹھے کئے گئے لیکن یہ رقم تعلیم کے بجائے کسی اور مد میں خرچ ہوئی۔ ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس پالیسیوں کا فقدان ہے۔ پاکستان میں ہمارا اصل مسئلہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کا ہے۔ تمام حکومتوں میں کئی بار بلند و بالا دعوے کیے گئے‘ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلی ایجوکیشن کانفرنس میں خواندگی کے حوالے سے درپیش کئی چیلنجز کا جائزہ لیا گیا اور تجاویز پیش کی گئیں‘ لیکن یہ تجاویز اور دعوے کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ 1947ء کی ایجوکیشن کانفرنس کے بعد 1959ء میں شریف کمیشن رپورٹ میں بہت سی اہم تجاویز پیش کی گئیں۔ شریف کمیشن رپورٹ کو تعلیم کے حوالے سے ایک جامع دستاویز تصور کیا جاتا ہے‘ لیکن بد قسمتی سے اس میں دی گئی تجاویز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد‘ یکے بعد دیگرے کئی ایجوکیشن پالیسیوں کا اعلان کیا گیا‘ لیکن ہر پالیسی میں ہدف کا سال آگے بڑھا دیا جاتا ہے۔ 1998,1979,1970 میں پالیسیوں کا اعلان کیا گیا‘ 2000ء میں فریم ورک آف ایکشن‘ Millennium Development Goals میں پاورٹی ریڈکشن سٹریٹجی پیپر‘ 2005-6 میں میڈیم ٹرم ڈویلپمنٹ فریم ورک اور 2009ء میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔ ان سب دستاویزات میں خواندگی‘ لڑکیوں کی تعلیم‘ ٹیچر ایجوکیشن اور تعلیمی نظام میں بہتری کے حوالے سے اہم اہداف مقرر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر اہداف حاصل نہ کئے جا سکے۔ مثال کے طور پر خواندگی کو لے لیجئے۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو تعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کیلئے مختص فنڈز ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے اب تک متعدد قومی تعلیمی پالیسیوں کا اعلان کیا گیا۔ ان پالیسیوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ یہ پاکستان کی تعلیمی تاریخ کی دردناک داستان ہے‘ جس کا احوال میں نے اپنی کتاب Education Policies in Pakistan Politics Projections and Practices میں تفصیل سے کیا ہے۔ یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 2014ء میں شائع کی تھی۔ ان تعلیمی پالیسیوں میں بہت سے خوش کن اہداف مقرر کئے گئے اور ان کے حصول کے لیے بلند بانگ دعوے بھی کئے گئے‘ لیکن یہ دعوے کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ ہر نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اہداف کے حصول کی ایک نئی Deadline دی جاتی ہے۔
1992ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2002ء تک شرحِ خواندگی 70 فیصد ہو جائے گی۔ 1998ء کی تعلیمی پالیسی میں Deadline بڑھا کر 2010ء کر دی گئی۔ 2009ء میں ایک اور دعویٰ کیا گیا کہ 2015ء تک شرح خواندگی 86 فیصد تک ہو جائے گی؛ اگر پالیسیوں کے ان تمام دعووں پر یقین کر لیا جائے‘ تو اب تک ملک میں شرح خواندگی 100 فیصد ہو جانی چاہیے تھی‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2011ء میں خواندگی کی شرح 58 فیصد‘ 2014ء میں 58 فیصد‘ 2015ء میں 60 فیصد اور 2016 میں 58 فیصد رہی۔ ان پالیسیوں کے نفاذ کے عمل میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں اوران پالیسیوں کے نفاذ کی ناکامی کی کئی وجوہ ہیں‘ جن کا تعلق تعلیمی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور مینجمنٹ سے ہے۔ اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔ تعلیم کے حوالے سے یہ ایک سنجیدہ مکالمہ تھا جہاں ماہرینِ تعلیم کے ساتھ وزیر تعلیم بھی شریکِ گفتگو تھے۔ کراچی لٹریچر فیسٹیول کے آرگنا ئزرز کا شکریہ‘ جنہوں نے کتاب میلے کے ساتھ ساتھ سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کے مواقع بھی فراہم کیے۔ اس سلسلے میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے جناب ارشد سعید حسین، محترمہ راحیلہ بقائی اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے کہ انہوں نے کتاب سے محبت کی روایت کو زندہ رکھا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved