تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     04-03-2020

دوحہ معاہدہ: پاک امریکہ تعلقات میں برف پگھلے گی؟

دوحہ میں افغان امن معاہدہ ہو چکا ہے۔اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیونے امن عمل میں شمولیت پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کا شکریہ ادا کیا۔ المیہ یہ ہے کہ ‘ اگرچہ یہ غیر متوقع نہیں تھا‘مائیک پومپیو کی تقریر میں پاکستان کا ذکر صرف ایک بار آیا‘ حالانکہ یہ ساراامن عمل جس کی عملی شکل فروری 29کو دوحہ میں طالبان اور امریکہ کے مابین معاہدے کی شکل میں سامنے آئی‘ پاکستان کے بغیر ممکن ہی نہ تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں پاکستان نے اپنے حصے کا کردار نبھایا بھی خوب ہے۔ پاکستان نے مذاکرات کے دوران فریقین کی ہر طرح سے سہولت کاری کی۔
تو سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح نظر انداز کیا جانا اُس بغض کا نتیجہ ہے ‘جو امریکی اسٹیبلشمنٹ نے برسوں سے پاکستان کے خلاف پال رکھا ہے؟
اس حوالے سے سامنے آنے والے اشارے بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ پاکستان کے بارے میں امریکیوں کے موجودہ رویے کو شائستہ ترین الفاظ میں بھی منافقانہ ہی کہا جا سکتاہے۔ واضح طور پر وہ ہمارے ساتھ 'گڈ کاپ بیڈ کاپ‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ اس کھیل میں صدر ٹرمپ گڈ کاپ بنے ہوئے ہیں جبکہ وزارتِ خارجہ اور وائٹ ہائوس میں بیٹھے کچھ مشیران اور نائبین پاکستان کے بارے میں سرد رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا کے حالیہ دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے دو مواقع پر عوامی سطح پر پاکستان کے لیے مثبت الفاظ استعمال کیے اور اس کے ساتھ ساتھ تنازعہ کشمیر کے متعلق مدد دینے پر رضا مندی کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے کہا ''وزیر اعظم خان کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ بہت ہی اچھے۔ ہم نے آج اس بارے میں تفصیل سے بات کی ہے‘ اور... لیکن پاکستان میں کچھ مشکلات ہیں‘ اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ان کے بارے میں کیا کیا جا سکتا ہے۔ مصالحت کے لیے‘ میں جس حد تک مدد کر سکتا ہوں ضرور کروں گا‘‘۔
صدر ٹرمپ تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے پاکستان کے بارے میں مثبت تاثر دے کر اپنے میزبانوں کو ششدر کر دیا ۔ حتیٰ کہ یہ بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے کہ 25 فروری کو نئی دہلی میں صدر ٹرمپ نے جو پریس کانفرنس کی اس میں انہوں نے تین ایسے سوالوں کے جوابات میں جان بوجھ کر پاکستان کا نام لینے سے بھی گریز کیا جن میں پاکستان کا خصوصی تذکرہ تھا۔ یہ اظہار تھا کہ ٹرمپ پاکستان کے لیے نرم سوچ اور رویہ رکھتے ہیں۔لیکن یہاں ایک اور سوال اہم ہے کہ دیگر امریکی حکام مثلاً ایلس ویلز اور لزا کرٹس‘ پاکستان اور چین کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں؟ یقینا ان لوگوں کے خیالات حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ یہ حکام پاکستان کو انڈیا کی نظر سے ہی دیکھ رہے ہیں‘ اور اس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے محاذ پر مزید کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ یعنی وہی ڈو مور کی رٹ۔ اب بھی ان کے خیال میں افغان حقانی نیٹ ورک پاکستانی اداروں کی ایک توسیع ہی ہے۔ ایسی بات کرتے ہوئے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ نیو یارک ٹائمز جیسے اخبار نے حال ہی میں سراج الدین حقانی کا ایک مضمون شائع کرتے ہوئے ان کا تعارف ''نائب امیرطالبان‘‘ کے طور پر کرایا تھا۔ بعض امریکی حکام اس ٹھوس حقیقت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے کہ سراج الدین اس افغان قیادت کا حصہ تھے‘ جس نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ یہ لوگ جانے کس طرح پرانا گیت ہی الاپ رہے ہیں‘حالانکہ طالبان کو ‘جو کل تک دہشت گردکہلاتے تھے‘اب امن معاہدے میں عملی طور پر جائز فریق تسلیم کیا جا چکا ہے اورامن معاہدے ہی کے دوسرے حصے میں ان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے ان افسران کی اکثریت کے لیے اب بھی سب سے بڑا مسئلہ چین ہی ہے۔ امریکی حکام یہ بات کرتے ہوئے ذرہ بھر نہیں ہچکچاتے کہ خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے انڈیا ان کا بہترین اتحادی ہے ‘ یعنی وہ اس کا کھلم کھلا اظۃار کرتے ہیں۔ اور چونکہ پاکستان کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات قریبی نوعیت کے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں ان کے ذہنوں میں خدشات پائے جاتے ہیںاور اسی لیے اسے امریکہ کی جانب سے مخاصمانہ رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یقینا کئی محاذوں پر لڑنے والے اور معاشی طور قدرے کمزور اور غیر مستحکم پاکستان کو بدنام کرنا اور اس پر دبائو ڈالنا ان کے لئے آسان کام ہے۔ بہت سے امریکی حکام یہی کام کہیں کھلے بندوں اور کہیں خفیہ طور پر کر رہے ہیں۔
جن لوگوں کی نظر گزشتہ دو دہائیوں سے پاک امریکہ تعلقات پر ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان اور وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں صدر ٹرمپ کے مشفقانہ الفاظ اور رویے کی اس حوالے سے کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے۔ ان امریکی حکام کے‘ جو بدلے ہوئے پاکستان کے بارے میں اپنے غیر روایتی صدرکے بیانات پر انڈیا کے بیانیے کو ترجیح دیتے ہیں‘ مخاصمانہ رویے کو اسلام آباد کسی صورت نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بد قسمتی سے حالیہ کچھ عرصے میں امریکی حکام نے تواتر کے ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے معاملات کو اٹھایا ہے‘ اور اس پر مختلف نوعیت کے اعتراضات کئے ہیں۔ یہ لوگ تو اس حد تک چلے گئے کہ انہوں نے کورونا وائرس کو بھی جیو پالیٹکس کا ایک اوزار قرار دے دیا۔جب تک ٹرمپ انتظامیہ اور اس کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا انحصار ایسے حکام پر رہے گا جو امریکہ چین مخالفت کے پیش نظر انڈیا پر بڑا دائو لگانے کے خواہاں ہیں‘ تب تک پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں مؤثر طور پر بہتری آنے کے امکانات کم ہی ہیں۔
جب تک وہ (یعنی امریکی حکام) پاکستان کو اپنی جیو سٹریٹجک چین دشمنی کے تناظر میں دیکھتے رہیں گے‘ تب تک اندیشہ یہی ہے کہ وہ اس سے بھی کہیں بلند سطح پر جا کر مزاحمت جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ جب تک کلیدی عہدوں پر فائز امریکی حکام پاکستان کو انڈیا کے دہائیوں پرانے بیانیے کے عدسے سے دیکھنا ترک نہیں کرتے اور دہشت گردی کی حمایت کے طعنے دینا بند نہیں کرتے‘ تب تک عدم اعتماد دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچاتا رہے گا۔ امریکی حکام کو اس امر کا ادراک کرنا ہو گا کہ اگر امریکہ فعال طریقے سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلنے میں پاکستان کی حمایت نہیں کرتا تو اس کے نتیجے میں پاکستان چین کے مزید نزدیک ہو جائے گا‘ جو ہر برے بھلے وقت میں اس کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔
سو اس ساری بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی پالیسی آنے والے مہینوں اور سالوں میں بھی جاری و ساری رہے ۔اس حوالے سے پاکستان کے پاس انتخاب کے مواقع محدود ہوں گے‘ یقیناان محدود مواقع میں ایک موقع یہ بھی ہے کہ پاکستان مہارت سے کام لے کر واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات استوار رکھے۔ دنیا کی واحد سپر پاور کو طیش دلانا یقینا کوئی پالیسی آپشن نہیں ہو سکتا‘ لیکن اس کی قیمت چکانے کے لیے اسلام آباد چین کے ساتھ اپنی آزمائی ہوئی دوستی کی قربانی بھی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ چینی نہ صرف پاکستان کے بارے میں اچھے خیالات رکھتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ افغان معاملے میں شامل حصہ داروں کے متحارب خیالات کے تناظر میں یہ بات یقینی ہے کہ امن معاہدے کے بعد سامنے آنے والے معاملات مزید کٹھن اور پیچیدہ نوعیت کے ہوں گے۔ یہ پاکستان کی سفارتی مہارت اور اس کے متحارب افغان گروہوں پر اثر و رسوخ کے دعوے کا بہت بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔ یقینا مستقبل میں پاکستان کے لیے مزید کٹھن گھڑیاں آنے والی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved