بعض اوقات زیر تحریر کالم اپنے ہی کسی کالم کا چربہ یا موضوع کی تکرار لگتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ہی کسی کالم کو دوہرا رہا ہوں، عوام وہی... مسائل اور مصائب وہی۔ نہ عوام کے حالات بدل رہے ہیں اور نہ ہی ان کے مصائب کم ہوتے دِکھائی دیتے ہیں۔ تو پھر موضوعات کیسے بدل سکتے ہیں؟ جب تک حالتِ زار یہی رہے گی تو حالات بھی جوں کے توں ہی رہیں گے۔ کبھی بنامِ وطن‘ تو کبھی بنامِ دین۔ کبھی روٹی کپڑا اور مکان‘ کبھی قرض اُتارو ملک سنوارو... تو کبھی تبدیلی کے ساتھ سماجی انصاف اور کڑا احتساب‘ ان سب کا حشر نشر تو عوام دیکھ چکے ہیں اور ان بیانیوں کے نتائج آج بھی بھگت رہے ہیں۔
یہ حکمران عوام کو کیسا کیسا لارا‘ کیسا کیسا جھانسا کس ڈھٹائی سے دیتے رہے ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں سگ گزیدگی کے دلخراش واقعات کے ساتھ ساتھ اب لاہور سمیت پنجاب کے دیگر کئی شہروں میں تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ قصور کا معصوم اور کمسن عثمان سگ گزیدگی کا شکار ہونے کے بعد لاہور میں جان کی بازی ہار گیا۔ اکثر احباب اور قارئین کا اعتراض ہے کہ جب بھی کہیں آوارہ کتا کسی شہری کو بھنبھوڑتا ہے تو میں اپنے کالم میں اس کا ذکر کیوں کرتا ہوں؟ اس پر میرا جواب ہمیشہ یہی رہا ہے کہ کسی راہ چلتے کے لیے سگ گزیدگی سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہو گی؟ آوارہ کتے کے تیز اور زہریلے دانتوں سے بوٹیاں نچوانے سے بڑا ڈرون حملہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ جس ملک میں ہزاروں لوگوں کو آوارہ کتے راہ چلتے بھنبھوڑ ڈالیں اور مرنے والوں کی وجہ موت کتا گردی ہو وہاں یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ:؎
آدمی کی موت پر محظوظ ہوں گے جانور
کیا خبر تھی یہ مقولہ یوں بھی دوہرایا جائے گا
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
تازہ ترین اور گرماگرم خبر آئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے منادی کروا دی ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ آئندہ بجٹ میں راشن خریداری رقم مختص کی جائے گی اور پچیس ہزار سے کم آمدن والوں کی حکومت معاونت کرے گی۔ گمان ہے کہ اس بیانیے کا حشر نشر بھی ماضی کے بیانیوں اور دعووں جیسا ہو سکتا ہے اور بجٹ کے بعد یہ دعویٰ بھی منہ چڑاتا نظر آئے گا۔
ملک کے طول و عرض میں کوئی ایک کونا ڈھونڈے سے نہیں مل سکتا جہاں ملاوٹ‘ جھوٹ اور مکروفریب نہ ہو۔ نیت سے لے کر معیشت تک ہر طرف دھوکہ ہی دھوکہ‘ فریب ہی فریب۔ حکمرانوں کے اعلانات اور فیصلوں سے لے کر اشیائے خورونوش تک سبھی میں ملاوٹ ہی ملاوٹ۔ حکمرانوں کے فیصلے بناوٹ اور ملاوٹ میں لتھڑے ہوں گے تو یہی کچھ ہوگا جو ہر طرف نظر آرہا ہے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ''لوگوں کو ان کی عبادات سے نہیں ان کے معاملات سے پہچانو‘‘۔ ہمارے معاملات کی ایک جھلک پیشِ خدمت ہے: ''دودھ میں ملاوٹ‘ خوراک میں ملاوٹ‘ ادویات میں ملاوٹ‘ سیمنٹ میں ملاوٹ‘ میک اَپ کے سامان سے لے کر آلات و تعمیرات تک میں ملاوٹ‘ ریڑھی بان سے لے کر بڑے کاروباری مراکز اور فیکٹریوں تک میں ملاوٹ۔ اوزان و پیمائش کے قوانین کی سبھی دھجیاں اُڑاتے نظر آتے ہیں۔ مکروفریب اور دھوکہ دہی پر چلنے والے یہ سارے دھندے نان سٹاپ، انتہائی ڈھٹائی اور زور شور سے جاری ہیں‘‘۔
معصوم بچوں کی بنیادی خوراک دودھ سے لے کر جان بچانے والی ادویات تک سبھی کچھ بے حیائی اور سفاکی سے بیچنے والے سوداگر معاشرے میں انتہائی ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انسدادِ ملاوٹ کے نظام اور قوانین کے باوجود ''مُک مُکا اور چمک‘‘ نے تمام اخلاقی اور سماجی قدروں کو دفنا اور متعلقہ قوانین ان سوداگروں کے گھر کی باندی بنا ڈالا ہے۔ جب متعلقہ ادارے قوانین پر عملدرآمد کے بجائے کنسلٹینسی اور سہولت کاری کو نصب العین بنا لیں تو پھر اس معاشرے کا اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے کھچاکھچ بھری نظر آتی ہیں۔ جمعۃ المبارک کی نماز کے اجتماعات مسجدوں سے نکل کر سڑکوں، پارکوں اور گرین بیلٹوں تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک میں بھی مسجدیں نمازیوں کے لیے ناکافی پڑ جاتی ہیں۔ جہاز بھر بھر کر عمرے اور حج پر جانے والے مسلمان بھی عبادات تو بھاگ بھاگ کر کرتے ہیں لیکن ان کے اعمال اور کردار سے ان عبادات کی جھلک کہیں نظر نہیں آتی۔ چند روز قبل برادرِ محترم حسن نثار نے اپنے ایک ٹی وی پروگرام میں برنارڈ شا کے حوالے سے ایک ایسا فقرہ کوٹ کیا کہ پروگرام ختم ہونے کے بعد تادیر میں اس فقرے کے اثرات سے باہر نہ آ سکا۔ وہ فقرہ کچھ یوں تھا: اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے اور مسلمان بد ترین فالوئورز۔
تحریک انصاف کے انتخابی دعووں سے لے کر حکومت میں آنے کے بعد کیے جانے والے وعدوں اور اقدامات کا نصف بھی اگر سچ ہو جاتا تو بخدا صورتحال اتنی مایوس کن ہرگز نہ ہوتی۔ عوام کو روٹی کے لالے تو ویسے ہی پڑے ہوئے تھے۔ روٹی پوری کرتے ہیں تو یوٹیلٹی بلز دیکھ کر بلبلا اُٹھتے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں پہنچ سے دور پاکر اکثر مریض خود کو یہ دلاسے دیتے بھی دِکھائی دئیے ہیں ''دوائی نہ وی کھاواں گے تے کی ہووے گا؟ موت تے اپنے وقت تے اِی آؤنی اے‘‘۔ یعنی ادویات بھی مریضوں کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔
ماضی کے حکمرانوں کا رونا روئیں یا موجودہ چیمپئنز کا... ماضی کے چند ادوار کا جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ صاحب اقتدار و اختیار طبقہ کرپشن اور لوٹ مار کے کارِ بد پر اس طرح نازاں رہا ہے کہ گویا کوئی بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہا ہو۔ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن، لوٹ مار، دھونس، دھاندلی اور اقربا پروری کے خلاف تحریک انصاف نے آواز بلند کی تو ابتدا میں یہ آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز دکھائی دیتی تھی اور پھر بتدریج یہ آواز ''آواز خلق‘‘ سے ہوتی ہوئی نقارہ خدا بن گئی۔ دھرنوں اور حالیہ عام انتخابات کے دوران انتخابی نغمے اس جوش اور ولولے سے چلائے جاتے گویا جنگی ترانے بجائے جا رہے ہوں۔ عوام ان کے سحر اور اس مغالطے میں مبتلا ہوگئے۔ اور اب تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ عالم ہے کہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا اور انصاف سرکار 25 ہزار سے کم آمدن والوں کی راشن کی خریداری میں معاونت کرے گی جبکہ دوسری طرف زمینی حقائق کچھ یوں ہیں: ؎
جینا مشکل ہے کہ آسان ذرا دیکھ تو لو
لوگ لگتے ہیں پریشان ذرا دیکھ تو لو
یہ نیا شہر تو ہے خوب بسایا تم نے
کیوں پرانا ہوا ویران ذرا دیکھ تو لو
ان چراغوں کے تلے ایسے اندھیرے کیوں ہیں
تم بھی رہ جاؤ گے حیران ذرا دیکھ تو لو
تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید
نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو