اب دیکھتے ہیں افغانستان میں امن کی بحالی‘ سیاسی استحکام اور قومی تعمیرِ نو کا عمل کیسے اور کس رفتار سے آگے بڑھے گا۔ آخر کار امریکہ نے تسلیم کر ہی لیا کہ افغانستان کی جنگ بیکار کا معاملہ تھا‘ اتنی دیر وہاں الجھے رہنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں‘ لگایا گیا بھاری سرمایہ اکارت گیا اور سب سے بڑھ کر جنگوں میں حاوی ہونے اور حاوی رہنے کی سیاسی صلاحیت کھو بیٹھے۔ ملکوں میں فوجی مداخلت کر کے حکومتیں گرانا شاید کوئی بڑی بات نہیں‘ لیکن اگر مزاحمت افغانوں جیسی ہو تو مقابلہ زیادہ دیر نہیں کیا جا سکتا‘ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ غیر ضروری تھی۔ طالبان کی قیادت کسی بھی طور نو گیارہ کی منصوبہ بندی کا حصہ نہ تھی۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے افغان روایات کے پیش نظر القاعدہ کی پناہ گزین قیادت کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ پاکستان اور سعودی عرب‘ طالبان کے حمایتی تھے؛ چنانچہ جو کچھ اثر وہ ڈال سکتے تھے‘ اور جتنا ڈرا دھمکا سکتے تھے‘ وہ سب انہوں نے کیا‘ مگر ملا عمر اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ انکار کی صورت میں ان پر امریکہ ایک بڑی جنگ مسلط کر سکتا ہے اور وہ اقتدار سے ہاتھ بھی دھو سکتے ہیں۔ ایسے گروہوں کا مطالعہ اور ان کے بارے میں تبصرے معمول کے سیاسی دھڑے یا قیادت کے پیمانے پہ پورا نہیں اترتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یا تو عالمی نظام اور اس میں طاقت کے توازن جیسے نظریات سے آگاہی نہیں رکھتے یا بڑی طاقتوں سے ٹکر لینے سے گھبراتے نہیں۔ آپ کے نظریات اور خیالات طالبان اور ان کے پیش رو افغان مجاہدین کے بارے میں جو بھی ہوں‘ اس بات سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ سوویت یونین اور امریکہ‘ دونوں اپنے وقت کی عالمی طاقتیں افغانستان کا میدان فتح کر کے نہیں مزاحمت کاروں سے معاہدہ کر کے رخصت ہوئیں۔
اس نا چیز کے دل میں ایک راز ہے‘ جو کسی مناسب وقت پہ افشا کیا جائے گا اور سیاق و سباق کے حوالوں سے پوری تفصیل کے ساتھ۔ اگرچہ دل مائل تو ہے مگر احساسِ ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ کچھ مزید انتظار کیا جائے۔ اتنا بتا سکتا ہوں کہ اعلیٰ سطح کی مشاورت ہوئی تھی کہ امریکہ کا ساتھ افغانستان کی جنگ میں دیا جائے یا نہیں۔ یہ ناچیز بھی مدعو تھا۔ کون کون وہاں تھا‘ اس کا نقشہ ابھی تک ذہن میں موجود ہے۔ کئی با وقار‘ معتبر اور ملک کے دفاعی و سفارتی سطحوں پہ رہنے والی اعلیٰ ترین شخصیات۔ ان میں سے صرف ایک آواز بلند ہوئی (وہ میں ہرگز نہیں تھا) کہ امریکہ یہ جنگ نہیں جیت سکتا۔ یہ بیس سال پہلے اور نو گیارہ کے ایک دو ہفتے بعد کی بات ہے۔ ان کی کوئی دلیل اور کوئی تاریخی ثبوت ہمارے امریکہ کے اتحادی بننے کی ''ضرورت‘‘ کو نہ روک سکا تھا۔
چند سال بعد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ہمارا فیصلہ قطعاً غلط اور اس وقت کے بڑے حکمران کے ذاتی مفاد کے تابع تھا۔ ہمارے جیسے ممالک میں ذاتی مفادات کا سکہ قومی مفادات کی ٹیکسال میں تیار کیا جاتا ہے۔ میں خود معافی کا طلب گار ہوں کہ اس مشاورت میں اور بعد میں بھی پاکستان کی افغان پالیسی کی حمایت کی تھی۔ اس کے تین سال بعد جب افغانستان کے پشتون علاقوں کا دورہ کیا‘ کچھ دن کابل میں گزارے اور واپسی کا سفر غزنی اور قندھار کے راستے کیا تو فارسی زبان سے آگاہی بہت کام آئی۔ زبان ایک ایسا ذریعہ ہے جو دوسرے کے احساسات اور خیالات تک رسائی اور اندر کی کہانی کا کھوج لگانے میں کوئی ثانی نہیں رکھتا۔ میرے ساتھ اس وقت میرا ایک سابق طالب علم اور پشاور یونیورسٹی میں معاون لیکچرار پشتو زبان کا ترجمہ کرنے کے لئے میرے ساتھ تھا۔ یہ بات دو ہزار چار کی ہے۔ تب امریکہ اپنے اندازوں میں افغانستان کی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد عراق پر حملہ کر چکا تھا اور وہ جنگ جیتے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ قندھار میں ہم دن کا کچھ حصہ ٹھہرے اور وہاں نور جہاں ہوٹل میں مقامی صحافیوں سے بات چیت کی‘ جن سے ہم پہلے سے رابطے میں تھے۔ بہت کچھ وہاں معلوم ہو گیا تھا۔ بلوچستان کا بارڈر پار کرنے کے لئے سپن بولدک تک مقامی ٹیکسی کرایہ پر لی اور روانہ ہو گئے۔ ٹیکسی ڈرائیور نے ایک کیسٹ پلیئر لگا رکھا تھا۔ اس پہ جو کچھ بج رہا تھا‘ مجھے اندازہ ہوا کہ پشتو زبان کی شاعری تھی۔ اپنے معاون سے دریافت کیا کہ شاعری کا موضوع کیا ہے؟ وہ سارا طالبان کے حق میں قصیدہ تھا۔ ایک نہیں کئی قصیدے۔ یہ سب پشتون علاقوں میں کھلم کھلا ہو رہا تھا۔ ان کے قصیدے ہر جگہ پڑھے‘ گائے اور سنے جا رہے تھے۔ حریت پسندی اور مزاحمت کو دیکھنا مقصود ہو تو ادب‘ تاریخ دانی‘ شاعری اور موسیقی میں زیادہ گہرائی پائیں گے۔ سیاسی مکالمہ‘ بیانیے‘ مناظرے اور دلائل مزاحمت کا ضروری مگر صرف ایک رخ ہے۔ عوام میں مزاحمت کی تاثیر لوک ورثہ‘ عام کہاوتوں اور عام پسند بیانیوں سے سرایت کرتی ہے۔
قطر میں طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدہ ہر لحاظ سے تاریخی ہے۔ دونوں جانب سے جرأت مندانہ اور قابل ستائش پیش قدمی کا مظہر ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے اتحادی جنگ نہیں جیت سکے‘ تو طالبان کی فتح بھی علامتی ہے اور زیادہ تر موقف کی حد تک کہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت اور جنگ افغانستان میں ختم ہو۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ موجودہ جنگیں جہاں بھی ہوں‘ سب کی شکست کا موجب ہوتی ہیں۔ نا صرف ہتھیار زیادہ مہلک بنائے جا چکے ہیں بلکہ زیادہ تر جنگیں ہر جانب سے شہروں‘ دیہات اور آبادیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اب تو دو ریاستوں کے درمیان جنگ بھی سرحدوں تک نہیں رہ سکتی‘ کہ ایک نہ ایک نے پیش قدمی کرنا ہوتی ہے۔ اور پھر ان میں سے کسی ایک نے رد عمل کے طور پر جنگ کا دائرہ سرحدی علاقوں سے کہیں آگے تک وسیع کرنا ہوتا ہے۔
اب دیکھنا ہو گا کہ افغانستان میں ماضی میں ایک دوسرے سے متحارب رہنے والے دھڑے کیسے آپس میں بغل گیر ہوتے ہیں‘ اور ماضی کو بھول کر اپنے ملک کے لئے ایک نیا خواب دیکھتے ہیں۔ امن سمجھوتے کے حوالے سے مبصرین میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ صدر اشرف غنی کے قیدیوں کے حوالے سے بیان اور طالبان کی جانب سے اس پر رد عمل سے ان خدشات کی تصدیق ہو رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگوں کی اپنی معیشت ہوتی ہے۔ اس قتل و غارت اور خون خرابے میں بھی اندر کے جنگجوئوں اور باہر کی طاقتوں کے مفادات ہوتے ہیں‘ خصوصاً افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں (دونوں جانب) منشیات‘ غیر قانونی تجارت اور عسکریت پسندی سے طاقت ور مفادات وابستہ رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ اِدھر پاکستان کی ریاست اور اُدھر افغان ریاست مؤثر ادارے تعمیر کر کے اپنی اپنی عمل داری قائم کر سکیں۔ سب سے زیادہ خدشات افغانستان کے لسانی اور علاقائی مفادات کے حوالے سے جنگجو گروہوں کی جانب سے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ‘ پاکستان اور دیگر طاقتیں افغانستان کے اندر مختلف دھڑوں کو مذاکرات کی میز پہ بٹھائیں۔ بیرونی امداد کو ان کے درمیان صلح صفائی اور امن کی راہ سے مشروط کریں۔ افغانستان کی حکومت اور وہاں کی حزب اختلاف نے مل کر طالبان قیادت سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت‘ جو اس وقت انتخابی دھاندلی کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے اور اس معاہدے کے بعد اخلاقی لحاظ سے اور کمزور پڑ سکتی ہے‘ اپنے طور پر نمائندگی کا حق ادا نہ کر سکے۔ اسے شمالی علاقوں سے ناراض افغان قیادت کو ساتھ ملانا ہو گا۔ طالبان سے اگر علیحدہ علیحدہ مذاکرات کئے گئے تو تقسیم بڑھے گی‘ طالبان زیادہ مضبوط ہوں گے اور خانہ جنگی کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ افغانستان میں امن و سکون نہیں ہے‘ تو اس کے ہمسائے بھی سکون کی نیند نہیں سو سکتے‘ اور پھر دور دراز کے ممالک بھی یہاں کی خانہ جنگی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔