تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     05-03-2020

امریکا طالبان معاہدہ، خفیہ دستاویز میں کیا ہے؟

''مجھے آپ سے بات کرکے خوشی ہو رہی ہے، آپ سخت جان لوگ ہیں اور آپ کا ملک بہت زبردست ہے، مجھے پتہ ہے آپ اپنی سرزمین کے لیے لڑ رہے ہیں، ہم انیس سال سے وہاں (افغانستان میں) ہیں، اب افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلا ہر کسی کے حق میں ہے‘‘
''اسلامی امارات افغانستان اور افغان عوام کے نمائندے کی حیثیت سے، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں‘ اگر امریکا نے اپنے وعدے پورے کئے تو مستقبل میں ہمارے تعلقات مثبت ہو سکتے ہیں‘‘
یہ مکالمہ ہوا دنیا کی واحد سپر پاور امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور افغان طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کے درمیان۔ اس مکالمے کے لیے خصوصی بندوبست کیا گیا۔ امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے رہنماؤں کے ساتھ موجود تھے جب تقریباً بیس سال سے متحارب‘ دو فریقوں کی اعلیٰ ترین قیادت کے درمیان فون پر بات ہوئی۔ امریکی صدر کی طرف سے افغان طالبان کی قیادت کے ساتھ فون پر یہ رابطہ پہلی بار منظر پر آیا اس لیے اسے اپنی نوعیت کا پہلا رابطہ قرار دیا جا رہا ہے‘ لیکن صدر ٹرمپ سے صحافیوں نے جب اس سے پہلے کسی رابطے پر سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس جواب سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ رابطہ اپنی نوعیت کا پہلا نہیں تھا‘ لیکن دونوں فریق اس سے پہلے ہونے والے رابطوں پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
صدر ٹرمپ اور ملا عبدالغنی برادر کے درمیان فون پر رابطہ دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کے بعد ہوا۔ بظاہر یہ امن معاہدہ ہے لیکن دراصل یہ معاہدہ لاکھوں انسانوں کو دونوں فریقوں کی ہٹ دھرمی اور انا کی بھینٹ چڑھانے کے بعد دونوں کا اعتراف شکست ہے۔ شکست کا لفظ پڑھ کر جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں، صورتحال کو سمجھنے کیلئے انیس سال پیچھے جانا ہوگا۔
گیارہ ستمبر 2001 کو امریکا میں دہشتگردانہ حملے ہوئے جن میں تقریباً 3 ہزار افراد مارے گئے۔ حملوں کے فوری بعد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ افغان طالبان‘ جو اس وقت افغانستان پر حکومت کر رہے تھے، نے اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے سے انکار کیا، اس پر امریکا نے نائن الیون کے ایک ماہ بعد افغانستان پر فضائی بمباری شروع کر دی۔ امریکا کی اس جنگ میں نیٹو ممالک بھی شریک ہو گئے اور افغان طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا‘ لیکن افغان طالبان اور القاعدہ امریکی حملوں کے بعد پہاڑوں میں چھپ گئے اور مزاحمت شروع کر دی۔ افغان طالبان نے امریکی و اتحادی افواج پر حملے جاری رکھے اور امریکا کی سرپرستی میں بننے والی افغان حکومتوں کو کٹھ پتلی قرار دے کر ان کے خلاف بھی اعلان جنگ کر دیا۔ انیس برس امریکا اپنی بنائی افغان حکومتوں کو بچانے اور افغان طالبان کے حملوں کو روکنے میں لگا رہا۔
آج امن معاہدہ ہو چکا لیکن مشن کا کیا بنا؟ کیا افغان طالبان کی فوجی صلاحیت ختم کر دی گئی؟ تو جواب سب کو معلوم ہے۔ اگر فوجی صلاحیت ختم کر دی جاتی تو اس معاہدے کی نوبت ہی نہ آتی۔ افغان طالبان اس جنگ کو کیوں نہ ٹال سکے اور لڑائی پر اترے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کرنے اور القاعدہ کو ملک سے نکالنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اب جو معاہدہ ہوا ہے اس میں افغان طالبان نے ضمانت دی ہے کہ وہ القاعدہ اور داعش سمیت تمام غیرملکی دہشتگرد گروپوں سے رابطے توڑ دیں گے اور افغانستان کو امریکی مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ اگر افغان طالبان اس معاہدے کو اپنی فتح سمجھتے ہیں تو انیس سال لڑائی کی ضرورت کیا تھی؟ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہ کرتے لیکن ملک سے نکال دیتے اور القاعدہ سے تعلق توڑ دیتے تو اس جنگ سے بچ جاتے اور لاکھوں افغان شہری نہ مرتے، طالبان کی حکومت بھی قائم رہتی۔
امریکا نے افغان طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے‘ اس میں طالبان نے بطور فریق اپنی شناخت امارت اسلامیہ افغانستان لکھی ہے، امریکا نے اس معاہدے میں بظاہر یہ لکھا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان جو معاہدہ منظر عام پر آیا ہے اس میں بنیادی بات جس پر اتفاق ہوا‘ وہ امریکی افواج کا 14 ماہ میں انخلا اور افغان طالبان کی دہشتگرد گروپوں کو پناہ نہ دینے اور امریکی مفادات کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہ ہونے دینے کی گارنٹی شامل ہے۔ پھر ایک روڈ میپ ہے کہ دس مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے، کابل انتظامیہ پانچ ہزار طالبان قیدی رہا کرے گی اور طالبان کابل کی فورسز کے ایک ہزار قیدی چھوڑیں گے۔ کابل کی انتظامیہ اس شق کو ماننے کیلئے تیار نظر نہیں آتی‘ جس کے بعد افغان طالبان نے کابل کی فورسز پر پھر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ان حالات میں امریکی صدر نے ملا عبدالغنی برادر کو فون کیا۔ اس رابطے کے بعد صدر ٹرمپ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ''ملا کے ساتھ میرا بہت اچھا رشتہ ہے، ہماری گفتگو بہت اچھی رہی، وہ تشدد کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔
امریکا نے دوحہ معاہدے پر دستخط کے لیے وزیر خارجہ کو بھجوایا لیکن طالبان کے اصرار کے باوجود مائیک پومپیو نے ملا عبدالغنی برادر کے ساتھ معاہدے پر دستخط نہ کئے اور امریکا کی طرف سے زلمے خلیل زاد کو چنا گیا۔ بظاہر تاثر دیا گیا کہ ملا عبدالغنی برادر کو وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا ہم پلہ نہیں تسلیم کیا جا سکتا‘ لیکن اب امریکی صدر کا ملا عبدالغنی برادر کو براہ راست فون کیا تاثر دیتا ہے؟ کیا امریکا نے امارت اسلامیہ افغانستان کو تسلیم نہ کرنے کا جو تاثر دیا تھا‘ اس فون کال کے بعد بھی برقرار رہے گا؟ اشرف غنی اب کیا کریں گے؟ 
افغان طالبان کی طرف سے فون کال کی جو تفصیلات جاری کی گئی ہیں ان کے مطابق صدر ٹرمپ نے ملا عبدالغنی برادر کو یقین دلایا کہ جلد ہی مائیک پومپیو اشرف غنی کو فون کریں گے اور بین الافغان مذاکرات میں حائل رکاوٹیں دور کریں گے۔
اس رابطے میں ایک اور سوال بھی اٹھا ہے۔ افغان طالبان‘ جو اپنی سرزمین پر کسی ایک امریکی کو بھی دیکھنے کے روادار نہیں، کے نمائندے نے امریکی صدر سے کہا کہ امریکا جنگ سے تباہ حال افغانستان کی تعمیر میں مدد دے، اس سے امریکی ساکھ بہتر ہوگی۔ اس مکالمے سے لگتا ہے کہ مکمل امریکی انخلا‘ جس کا وعدہ کیا گیا ہے‘ ممکن نہیں ہو گا بلکہ افغان طالبان نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور کہیں نہ کہیں یہ بندوبست رکھا گیا ہے کہ امریکا خطے میں مفادات کے تحفظ کے لیے موجودگی برقرار رکھے گا۔ امریکا اور طالبان نے دوحہ میں جس معاہدے پر دستخط کئے اور میڈیا کو جاری کیا گیا اس کا ایک حصہ خفیہ ہے۔ اس خفیہ حصے میں کیا ہے اس کے بارے میں کسی کو زیادہ اندازہ نہیں لیکن صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے ارکان اس خفیہ حصے پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ امریکی حکام میڈیا کو یہ بتا رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کا جو حصہ شائع نہیں کیا گیا اس میں طالبان کے ساتھ کوئی اضافی وعدے نہیں کئے گئے بلکہ معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کا طریقہ کار طے کیا گیا ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران ری پبلکن پارٹی کی رکن لز چینی نے کہا کہ انہوں نے شائع نہ ہونے والا حصہ پڑھا ہے لیکن معاہدے پر عمل درآمد کی تصدیق کے طریقہ کار اور دیگر معاملات پر ان کے تحفظات برقرار ہیں اور ایوان نمائندگان کو بھجوائی گئی دستاویزات میں کچھ چیزیں شامل نہیں۔
امریکی معاہدے کے شائع نہ ہونے والے حصے، امریکی صدر کی فون کال، بین الافغان مذاکرات میں رکاوٹیں اور انہیں دور کرنے کی واشنگٹن کی کوششیں، بہت کچھ ایسا ہے جو چھپایا جا رہا ہے۔ افغان مسئلہ سے پاکستان براہ راست متاثر ہوا، پاکستان نے دہشتگردی کی اس جنگ میں بہت کچھ کھو دیا، ہم دنیا سے پیچھے رہ گئے، اب ایک بار پھر کوئی نیا بندوبست ہونے جا رہا ہے، اس بندوبست میں پاکستان کے مفادات کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ اس معاہدے میں ہم نے کیا ضمانت دی اور کیا حاصل کیا؟ اس پر حکومت قوم اور پارلیمان کو اعتماد میں لے اور سابق آمر پرویز مشرف کی طرح خفیہ سمجھوتے کرنے سے گریز کیا جائے۔ قوم کی اجتماعی دانش کی علامت پارلیمان ہے، ان معاملات پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved